تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     02-12-2020

حکومت کے خاتمے کے چار طریقے

دستور میں حکومت کے خاتمے کی جو ترکیبیں درج ہیں ان میں ایک تو یہ ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ دے۔ وزیراعظم کے استعفے کے بعد وفاقی کابینہ تحلیل ہوجائے گی اور اگلی حکومت کی تشکیل کے لیے فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے گا۔ جب تک اگلی حکومت نہیں بن جاتی‘ اختیارات صدر کے پاس ہوں گے ۔ جیسے ہی قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان کا انتخاب ہو جائے گا تو صدر مملکت نئے وزیراعظم کو اختیارات سونپ دے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں کوئی شخص نصف سے زائد ارکان کی حمایت حاصل نہ کرسکے تو صدر اپنی صوابدید پر قومی اسمبلی توڑ کر نئے الیکشن منعقد کروائے گا۔ نئے الیکشن سے پہلے سابق وزیراعظم اور سابق قائدِ حزب اختلاف کو مل کر نگران وزیراعظم بنانا پڑے گا تاکہ اگلی حکومت کی تشکیل تک وہ روزمرّہ کے معاملات چلاتا رہے ۔ حکومت کے خاتمے کی اس آسان ترکیب میں چھوٹی سی مشکل وزیراعظم کا استعفیٰ ہے۔ جو وزیراعظم عوام کے ووٹوں سے آیا ہو یا کم ازکم سمجھتا ہو کہ اسے عوام نے منتخب کیا ہے تو اس کو استعفے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ گویا دستور میں درج حکومت ختم کرنے کا یہ طریقہ شاید پی ڈی ایم کے لیے قابلِ عمل نہ ہو‘ کیونکہ اول تو عمران خان استعفیٰ دیتے ہوئے نظر نہیں آتے اور دوسرے یہ کہ انہیں اپنے عوامی نمائندہ ہونے پر بھی یقین ہے۔ اس صورت میں حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے مولانا اور نواز شریف کس حد تک جا سکتے ہیں‘ اس کیلئے انتظار کرنا ہوگا لیکن یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ عمران خان صاحب بھی اپنی حکومت بچانے کیلئے آخری حد تک جائیں گے۔ 
عدم اعتماد کی تحریک دوسرا طریقہ ہے جو دستور نے خاص طو ر پر وزیراعظم کے مخالفین کے لیے تجویز کیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل پچانوے کے مطابق اسمبلی کے اراکین کی کل تعداد کا بیس فیصد یعنی انہتر اراکین قومی اسمبلی اپنے دستخط کے ساتھ وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کریں گے۔ تحریک پیش ہوتے ہی اسمبلی سارے کام چھوڑ دے گی اور تین سے سات دن کے اندر اندر عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہوگی۔ اگر اسمبلی کے نصف سے زائد یعنی ایک سو بہتر ممبر اس کو منظور کرلیں تو وزیراعظم اپنے وزیروں سمیت گھر چلا جائے گا۔ اس طریقہ کار میں بھی ایک چھوٹی سی مشکل ہے۔ جلسوں میں ہزاروں لوگ سامنے کھڑے کرکے تقریریں کرنا ایک بات اور اسمبلی کے اندر ایک سو بہتر لوگوں کو وزیراعظم کے خلاف کھڑا کرنا دوسری بات ہے۔ اول الذکر حلوہ ہے اور ثانی الذکر مصیبت ۔ تقریر تو کوئی بھی کر سکتا ہے‘ لیکن اسمبلی میں ووٹ صرف وہی دے گا جو اس کا ممبر ہوگا یعنی مولانا فضل الرحمن‘ مریم نواز ‘ آصفہ بھٹو زرداری تقریریں تو کرسکتے ہیں لیکن اسمبلی میں ووٹ بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف ہی دے سکتے ہیں۔ سینیٹ چیئر مین کے خلاف عدم اعتماد کی ناکامی کے بعدقومی اسمبلی کے اندر ایک سو بہتر لوگوں کی حمایت کیسے ملے گی اس کے لیے پی ڈی ایم کیا کرسکتی ہے‘ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ فرض کریں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد ہوجائے تو پھر فوری طور پر ایک وزیراعظم کی ضرورت پڑے گی ‘ وہ کہاں سے آئے گا‘ اسے ووٹ کون دے گا‘ اس طرح کے 'معمولی ‘ سوالات پر غالباًا بھی پی ڈی ایم نے غور بھی نہیں کیا۔ 
بیک جنبش قلم حکومت گرانے اور اسمبلی توڑنے کا طریقہ دستور کے آرٹیکل اٹھاون میں بھی لکھا ہے۔ اس کی روشنی میں یہ کام بھی خود عمران خان صاحب کو ہی کرنا ہے۔ اگر وزیر اعظم صدر کو یہ لکھ کر بھیج دیں کہ اسمبلی توڑ دی جائے تو صدر صاحب کے سامنے دو راستے ہوں گے۔ پہلا یہ کہ وزیر اعظم کو سمجھائیں کہ اسمبلی نہ توڑیں اور دوسرا یہ کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں کیونکہ خط لکھنے کے اڑتالیس گھنٹے مکمل ہوتے ہی اسمبلی ازخود ٹوٹ جائے گی۔ یہ طریقہ باقی سب طریقوں کی نسبت آسان ہے ‘لیکن اس میں بھی مشکل وہی ہے کہ عمران خان کا کیا کریں۔ اپوزیشن کچھ بھی کہتی رہے ‘ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم وہی ہیں۔ اگر سارے دانشور ‘ اینکر‘ کالم نویس وغیرہ وغیرہ مولانا فضل الرحمن کے مقتدی ہوکر صدر مملکت سے درخواست کریں کہ وہ اسمبلی توڑ دیں اور صدر صاحب ان سب کی لاج رکھتے ہوئے اسمبلی توڑنے کا حکم نامہ جاری کر دیں توبھی اسمبلی نہیں ٹوٹے گی۔ ہو سکتا ہے ایسا حکم نامہ جاری کرنے کے بعد صدر صاحب اگلے چوبیس گھنٹے بھی ایوان صدر میں نہ گزار سکیں۔ الٹا سب کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ 
دستور بنانے والوں نے حکومت کے خاتمے کے یہی تین طریقے تجویز کیے تھے لیکن اپنے قانون دانوں کی ذہانت کے صدقے‘ ہمیں چوتھا راستہ بھی میسر ہے اور وہ ہے نااہلی۔ اس طریقے پر میرے جیسے خاکسار ڈر ڈر کر سوال اٹھاتے ہیں‘ دستور کی منشا کا رونا روتے ہیں اور کبھی گستاخی بھی کر گزرتے ہیں لیکن بہرحال جب 'مشکل ‘ سے نکلنے کا ایک راستہ موجودہے تو ہم کون ہیں اسے بند کرنے والے۔ اس چوتھے راستے پر چلنے کے لیے چار بنیادی عناصر کی ضرورت ہوگی۔ اول ‘ ایک ایسا ماحول جس میں وزیراعظم کے خلاف کوئی فیصلہ دیا جاسکے۔ دوم‘ ایک ایسا مقدمہ جس کی بنیا د پر وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جاسکے۔ سوم‘ ایسے قانون دان جو دستور میں 'ذہانت‘ کی بنیاد پر بنائے ہوئے اس راستے پر چلنے کے لیے تیار ہوں اور چہارم ‘ یہ قومی اتفاق رائے کہ ہم نے دنیا میں پاکستان کی عزت چھوڑنی ہے نہ پاکستان میں قانون کی۔ یہ چار عناصر پاکستان میں اسی وقت اکٹھے ہوسکتے ہیں جب مولانا فضل الرحمن کی اقتدا میں پاکستان کے سبھی ادارے نیت باندھ کر صف بستہ کھڑے ہوجائیں‘ اور کوئی یہ سوچنے والا نہ رہے کہ اس حکومت کو گرانے کے بعد ملک میں اگلی حکومتیں کیسے چلیں گی؟ 
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کا موجودہ آئین انیس سو تہتر میں بنایا گیا تھا۔ دستور بنانے والوں میں مولانا فضل الرحمن کے والد گرامی مولانا مفتی محمود کا نام بھی شامل ہے‘ یہ وہی دستور ہے جس کی اصل صورت میں بحالی کا سہرا مریم نواز کے والدِ ماجد کے سر باندھا جاتا ہے‘ آپ ٹھیک سمجھے کہ بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو ہی تو اس کے اصل آرکٹیکٹ تھے اور ہاں پی ڈی ایم کے سٹیج پر جگہ پانے والے انس نورانی کے والد مولانا شاہ احمد نورانی بھی اسی اسمبلی کا حصہ تھے جس نے یہ دستور بنایا تھا۔ ان سبھی بزرگوں نے دستور میں ایسا کوئی راستہ تجویز نہیں کیا کہ کل کلاں اگر ان کے بچوں کو کوئی حکومت پسند نہ آئے تو وہ اسے کیسے نکالیں گے؟ جلسے جلوس کرنے کی اجازت واضح طور پر آئین میں دی گئی ہے‘ لیکن جلسے جلوسوں کے ذریعے حکومت گرانے کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔دھرنا وغیر بھی کر لیں مگر اس کے ذریعے حکومت گرے گی یا نہیں ‘ اس کا جواب دستور تو نہیں دیتا البتہ تاریخ دیتی ہے اور وہ نفی میں ہے۔ جب ہمارے دستور ساز بزرگوں کی آل اولاد ایک ہی سٹیج پر کھڑے ہوکر بیک زبان یہ کہتی ہے کہ ہم عمران خان کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دیں گے‘ تو سوال اٹھتا ہے کہ اگران کے جتھے نے آج حکومت گرا لی تو کل کوئی دوسرا جتھہ حکومت گرا نے چل پڑے گا‘ یہ سلسلہ چل پڑا تو اسے کون روک سکے گا؟ اس سوال کا جواب غالباًبزرگوں کے پاس بھی نہیں تھا۔ ان سب نے بھی اپنے ہی بنائے ہوئے دستور سے انحراف کیا‘ جتھہ بنا کر بھٹو پر چڑھ دوڑے اور پھر سالوں تک آمریت کے صحرا میں بھٹکتے رہے۔آج بھٹو کی اولاد انہی لوگوں کے ساتھ ملکر عمران خان کے درپے ہے۔ کسی کو دستور کی پروا ہے نہ جمہوریت کی بس پروا ہے تو اتنی کہ اقتدار ان کے حوالے کردیا جائے۔ تاریخ تو یہ ہے کہ اس طرح تو اقتدار ان کے بزرگوں کو بھی نہیں مل پایا تھا۔
(وضاحت :خاکسار عمران خان حکومت کی نالائقی کا روزاول سے قائل ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ رائے پختہ ہورہی ہے مگر جتھوں کے ذریعے حکومت کے خاتمے کا دوہزار چودہ میں بھی مخالف تھا اور آج بھی۔ )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved