عمران کو سیاست سے بے دخل کر دیا ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عمران کو سیاست سے بے دخل کر دیا ہے‘‘ اور اب وہ صرف حکومت میں باقی رہ گئے ہیں جبکہ سیاست کا میدان ہم نے سنبھال لیا ہے؛ چنانچہ ہم ہمیشہ سیاست میں رہیں گے اور وہ حکومت میں کیونکہ ہمیں سیاست کی عادت پڑ گئی ہے اور انہیں حکومت کی، جبکہ ہم یہ بات روزِ اول ہی سے جانتے ہیں کہ حکومت کو جلسوں کے ذریعے گھر نہیں بھیجا جا سکتا اور یہ جو ہم ہر جلسے میں حکومت کے گھر جانے کی نئی تاریخ دیتے ہیں تو یہ بھی اس بات کی غماز ہے کہ اب ہم ہمیشہ ہی یہ تاریخیں دیتے رہیں گے کیونکہ ہمیں تاریخیں دینے کی عادت پڑ چکی ہے اور انہیں حکومت کرنے کی۔ آپ اگلے روز ملتان میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
عوامی فیصلے سے پہلے خود چلے جائیں: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''عوامی فیصلے سے پہلے خود چلے جائیں‘‘ کیونکہ اب سارے فیصلے سڑکوں پر ہوا کریں گے‘ انتخابات کے ذریعے نہیں، اس لیے بہتر ہے کہ الیکشن سے متعلقہ اداروں کو بھی حکومت کے ساتھ ہی گھر بھیج دیا جائے؛ تاہم جلسے کر کر کے ہم نڈھال ہو چکے ہیں لیکن عوامی فیصلہ آ ہی نہیں رہا، اگرچہ عوامی اور عوام کا لفظ کچھ اچھا نہیں لگتا کیونکہ عوام کے ساتھ ہمارا اتنا ہی تعلق ہے جتنا عوام کا ہمارے ساتھ‘ اوپر سے چچا جان نے حکومت کے ساتھ ڈائیلاگ کا مطالبہ کر کے سارا بیانیہ ہی دفن کر ڈالا ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں جلسہ عام سے خطاب کر رہی تھیں۔
مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم
کے بارہویں کھلاڑی ہیں: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے بارہویں کھلاڑی ہیں‘‘ اور اس انتظار میں ہیں کہ کوئی کھلاڑی زخمی ہو کر میدان سے باہر جائے تو انہیں بھی قسمت آزمائی کا موقع ملے اور صاحب موصوف اس کے لیے دعائیں بھی مانگ رہے ہیں تاہم لگتا یہ ہے کہ وہ اب ہمیشہ کے لیے ہی بارہویں کھلاڑی ہی رہیں گے جب تک کہ انہیں ریسٹ کے لیے ٹیم سے خارج ہی نہ کر دیا جائے کیونکہ میرے خیال میں وہ ویسے بھی آئوٹ آف فارم ہو چکے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
مولانا بند گلی میں داخل نہ ہوں، اس
طرح حادثات ہوتے ہیں: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''مولانا بند گلی میں داخل نہ ہوں، اس طرح حادثات ہوتے ہیں‘‘ ان کے لیے بہتر ہے کہ اگر وہ بند گلی میں داخل ہو بھی جائیں تو اُلٹے پائوں اس سے واپس نکل آئیں کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ خدانخواستہ کوئی ایسا واقعہ پیش آئے جس سے پی ڈی ایم بھی ختم ہو کر رہ جائے کیونکہ دیگر اپوزیشن جماعتوں میں کوئی اتنا فارغ نہیں کہ چوبیس گھنٹے سڑکوں کی خاک چھانتا پھرے کیونکہ انہوں نے تو اسمبلی وغیرہ بھی جانا ہوتا ہے اور مولانا اسمبلی سے باہر ہیں اور جو کچھ ان کی جماعت کے ساتھ گلگت بلتستان کے انتخابات میں ہوا ہے وہ بھی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں ریل کار کے افتتاح کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بطور جانشین ذوالفقار بھٹو اور بینظیر بھٹو
کے مشن کو آگے بڑھائوں گا: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''بطور جانشین ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے مشن کو آگے بڑھائوں گا‘‘ جبکہ والد صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے لیے وہ خود ہی کافی ہیں بلکہ ان کے مشن کو کوئی اور آگے بڑھا بھی نہیں سکتا کہ اتنی مہارت کا مظاہرہ کوئی اور کر ہی نہیں سکتا جو انہیں ودیعت کی گئی ہے، نیز ان کا مشن پہلے ہی اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ اول تو اس کے مزید آگے بڑھنے کی گنجائش ہی نہیں ہے، اور گر ہو بھی تو اس کو وہی آگے بڑھا سکتے ہیں جبکہ میں تو ان کی شاگردی میں تھوڑی بہت ہی شدبد حاصل کر سکا ہوں۔ آپ اگلے روز کراچی میں پارٹی کے 53 ویں یوم تاسیس کے موقعہ پر خطاب کر رہے تھے۔
اپوزیشن جلسے ملتوی کر دے تو شان
میں کمی نہیں آئے گی: شاہ محمودقریشی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن جلسے ملتوی کر دے تو شان میں کمی نہیں آئے گی‘‘ کیونکہ اب تک اس میں جو کمی آ چکی ہے‘ وہی اس قدر عبرتناک ہے کہ مزید کسی کمی کی گنجائش ہی نہیں ہے اور وہ روز روز کے جلسوں کے ذریعے اس بچی کھچی شان کو مزید اپنے قدموں تلے روند رہی ہے اور اب تک جو کچھ وہ اس شان کے ساتھ کر چکی ہے اگر اس شان میں ذرا سی بھی حمیت باقی ہے تو اسے خود ہی کسی اور طرف منہ کر لینا چاہیے، اور جو ان کی اندرونی حالت ہو چکی ہے وہ بجائے خود کوئی ایسی قابلِ ذکر نہیں اس لیے اپوزیشن کو چاہئے کہ اپنا مردہ مزید خراب کرنے سے گریز کرے۔ آپ اگلے روز جماعت اسلامی کی طرف سے جلسے موقوف کرنے پر اس کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں رخشندہ نوید کی نظم:
قصے تیرے میرے
کدوں آکھاں لکھدیاں ہویاں
مرے پھُل ہوون چو پاسے
ایہہ وی نہیں میں چاہیا
کہ شعرلکھن دے ویلے
ہر واری سوہنے مُکھڑے
تے ہوون نِکھڑے ہاسے
ایداں وی نہیں
رات میں پہلے سانول نال گزاراں
انج وی نہیں
کہ نویں جیہی
کوئی اوکھڑ دل وچ واڑاں
ایہہ کد ہویا
کہ چودھویں رات دا چن آسمان تے چمکے
ہر تارہ نیواں نیواں ہو کے
میرے ای ویہڑے دمکے
ایہہ وی نہیں
کہ برساتاں دی رُت وچ لکھاں بوہتا
موسم سوہنا
کھلیاں میچیاں اکھاں وِچ کھلوتا
جد چاہواں مینہ ورسن لگ جائے
لان بہاراں ڈیرے
بِن رُتاں وی
دل وچ اُگدے قصے تیرے میرے
آج کا مقطع
ظفرؔ دل سے نکل تو جائیں گے ہم
بہت یاد آئے گا یہ گھر پرانا