تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     02-12-2020

کہانی ایک انڈرپاس کی

لاہور میں تعمیر ہونے والے لعل شہباز انڈرپاس کی کہانی بہت دلچسپ ہے‘ ساتھ ہی یہ بہت سے سوالات بھی اُٹھاتی نظر آتی ہے۔ اِس انڈرپاس کی داستان اِس لیے بھی دلچسپی پیدا کرتی ہے کہ یہ پنجاب حکومت کا پہلا میگا پروجیکٹ ہے جو تقریباً ساڑھے چھ ماہ کے عرصے میں پایہ تکمیل تک پہنچ گیا ہے۔ اس پہلے میگا پروجیکٹ کے دوران پیدا ہونے والی صورتحال کو ایک دوسرے بہت بڑے پروجیکٹ‘ راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے اور بجا طور پر کچھ ایسے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں جن کے جوابات سامنے آنے چاہئیں۔
لاہور میں فردوس مارکیٹ کے مقام پر تعمیر کیے جانے والے لعل شہباز انڈرپاس کی کہانی 18 مئی 2020ء کو شروع ہوئی جب وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اِس کا سنگ بنیاد رکھا۔ سچی بات ہے کہ اِس افتتاح پر ہمیں ذاتی طور پر بہت خوشی ہوئی تھی کہ چلو کسی میگا پروجیکٹ کا ڈول تو ڈالا گیا۔ اُس وقت ہماری خوشی دوچند ہو گئی جب افتتاح کے موقع پر یہ اعلان کیا گیا کہ شفاف ٹینڈرنگ کے ذریعے منصوبے پر اُٹھنے والے اخراجات میں سے 13 کروڑ روپے کی کثیر رقم بچا لی گئی ہے۔ یہ امر خوش آئند تھا کہ پنجاب حکومت بھی وفاقی حکومت کی طرح 'بچت پالیسی‘ پر عمل پیرا ہے۔ 2018ء میں وزیراعظم ہاؤس نے اپنی گائیں‘ بھینسیں بیچ کر قومی خزانے کو 23 لاکھ 2 ہزار روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔ اِن بھینسوں‘ جو موجودہ حکومت کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی ذاتی ضروریات کے لیے رکھی ہوئی تھیں‘ کو موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد قومی خزانے پر بوجھ گردانتے ہوئے فوری طور پر نیلامی کے لیے پیش کر دیا تھا۔ کافی تگ و دو کے بعد یہ بھینسیں فروخت ہونے سے قومی معیشت کو 'بھاری بوجھ‘ سے نجات حاصل ہوئی۔ نجانے ہم ایسے لوگوں کی قدر کیوں نہیں کرتے جو قومی خزانے کو ''انتہائی احتیاط‘‘ سے خرچ کرتے ہیں۔ آج پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ عدالتوں سمیت ہر فورم پر قسمیں کھاتے دکھائی دیتے ہیں کہ فلاں منصوبے میں اُنہوں نے اتنی رقم بچائی، فلاں منصوبے میں اتنے پیسے بچائے گئے لیکن کوئی اُن کی بات کا یقین کرنے کو تیار نہیں۔ معلوم نہیں حکومت ختم ہونے کے بعد بزدار حکومت کے تیرہ کروڑ روپے بچائے جانے کی باتوں کو کس نظر سے دیکھا جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ کل کو بچت کی یہ کہانی کسی اور صورت میں دکھائی جائے کہ ہمارا یہی چلن ہے۔
خیر بات انڈر پاس کی ہو رہی تھی جس کی مدت تکمیل 4 ماہ مقرر کی گئی تھی۔ بتایا گیا تھا کہ اِس سے روزانہ 91 ہزار گاڑیوں کو فائدہ پہنچے گا‘ جو ٹریفک سگنل پر رکنے کے بجائے انڈر پاس کے ذریعے اپنی آمد و رفت جاری رکھ سکیں گی۔ اِس سے پٹرول کی بھی بچت ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ موجودہ صوبائی حکومت کے اِس پہلے میگا پروجیکٹ پر سب کی نظریں تھیں اور حکومت بھی اِس حوالے سے کافی چوکنا تھی کہ منصوبے کو مقررہ مدت کے دوران ہی مکمل کر لیا جائے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود یہ اُمید بر نہ آ سکی۔ مقررہ تاریخ گزرنے کے بعد تو تاریخ پر تاریخ دینے کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے تمام خوشیاں غارت کر دیں۔ پہلے اعلان ہوا کہ 6 ستمبر کو انڈر پاس ٹریفک کے لیے کھول دیا جائے گا۔ اُس کے بعد یک بعد دیگر ے پانچ مزید تاریخیں سامنے آئیں اور پھر 25 نومبر 2020ء کی حتمی تاریخ کا اعلان کیا گیا۔ اُس روز وزیراعظم عمران خان بھی لاہور میں موجود تھے جن کی آمد کا ایک مقصد اِس منصوبے کا افتتاح کرنا بھی تھا۔ اِس سے ایک روز پہلے صوبائی وزیر ہاؤسنگ میاں محمود الرشید اعلان کر چکے تھے کہ تمام انتظامات مکمل ہیں لیکن عین وقت پر وزیراعظم نے افتتاح کا ارادہ موقوف کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ انتظامات 100 فیصد مکمل نہ ہونے پر وزیراعظم صاحب نے افتتاح کرنے سے گریز کیا۔ اِس طرح ساتویں تاریخ بھی گزر گئی۔ کچھ دوستوں کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا کہ اِس صورت حال پر اعلیٰ حکومتی حلقوں میں بھی خاصا اضطراب محسوس کیا گیا۔ ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا گیا کہ ایسی بھی کیا بات ہو گئی جو 1 ارب 75 کروڑ کا پہلا میگا پروجیکٹ ہی گلے پڑ گیا۔ یہ بھی خبر ہے کہ پہلے انڈرپاس کا نام عبدالستار ایدھی رکھا جانا تجویز کیا گیا تھا لیکن بعد میں انڈرپاس کو لعل شہباز قلندر کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ اِس تمام حالات سے گزر جانے کے بعد بالآخر 26 نومبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے انڈرپاس کا افتتاح کر ہی دیا۔ اِس موقع پر حکومتی زعما کی طرف سے سامنے آنے والے خیالات بھی کافی دلچسپی سے سنے گئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ لاہور کی تعمیر و ترقی پر حکومت کی بھرپور نظر ہے اور شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے دوسرے بڑے منصوبے بھی شروع کیے جا رہے ہیں۔ پنجاب کی مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں تمام منصوبے صرف خودنمائی، کرپشن اور اپنوں کو نوازنے کے لیے بنتے رہے ہیں۔ کچھ اِسی طرح کے خیالات صوبائی وزیر مراد راس کی جانب سے بھی سامنے آئے ہیں۔ اس موقع پر ایسے خیالات کے اظہار کو کیا سمجھا جائے۔ کیا ایسی باتیں کرنے کے بجائے ایک چھوٹے سے منصوبے پر پیدا ہونے والی صورتحال پر معذرت کرنا بہتر نہ ہوتا؟ کسی حکومت کا اڑھائی سالوں میں پہلا میگا پروجیکٹ ہو اور اُس کے افتتاح کی سات تاریخیں گزر جائیں تو اِس کارکردگی کو کیا نام دیا جائے؟ ایک ایسے منصوبے کو مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس کی تکمیل میں پوری حکومت نے دن رات ایک کیے رکھا لیکن پھر بھی وہ وقت پر مکمل نہ ہو سکا۔ اب جب وہ مکمل ہو گیا ہے تو نجانے کیسے کیسے خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اِس تناسب سے تو یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کی مدتِ اقتدار ختم ہونے سے پہلے شاید ایک آدھ انڈرپاس ہی اور بن پائے گا۔
اب اِس تمام صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کی بات کرتے ہیں جس کا افتتاحی پتھر رکھا جا چکا ہے۔ اِس منصوبے کے خدوخال کچھ یوں ہیں کہ اِس کے تحت دریائے راوی میں 46 کلومیٹر طویل جھیل بنائی جائے گی۔ ماحولیات کی بہتری کیلئے 60 لاکھ سے زائد درخت و پودے لگائے جائیں گے۔ بیراج اور ویسٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس لگیں گے اور بارہ مختلف سپیشلائزڈ شہر بسائے جائیں گے۔ اِس منصوبے کی تکمیل کیلئے ایک بااختیار اتھارٹی بھی قائم کی جا چکی ہے جس کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کر سکے گا۔ منصوبے کے افتتاح کے موقع پر یہی بتایا گیا تھا کہ سابقہ حکومتیں صرف نمائشی منصوبے بناتی تھیں، اصل منصوبے تو اب شروع ہو رہے ہیں۔ ایک انڈرپاس منصوبے کا تفصیلی احوال تو ہم بیان کر چکے‘ اب دیکھتے ہیں کہ دو کھرب روپے کے اس منصوبے کا کیا بنتا ہے۔ اِس کی مدتِ تکمیل تین سال مقرر کی گئی ہے لیکن تاحال اِس کے ابتدائی خدوخال بھی واضح ہونا شروع نہیں ہوئے۔ البتہ اِس کے خلاف مبینہ طور پر لاہور میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ممکنہ طور پر اِس سے لاکھوں افراد متاثر ہوں گے‘ جو سراپا احتجاج ہیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ متاثرین کی اتنی بڑی تعداد کو کیسے مطمئن کیا جائے گا؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ منصوبے کی تکمیل کیلئے اتنی بڑی رقم کہاں سے آئے گی؟
پہلے سوال کا جواب اتھارٹی کے چیئرمین کی طرف سے یہ آیا ہے کہ منصوبے سے کوئی صنعتی یا رہائشی علاقہ متاثر نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو وہ کون لوگ ہیں جو مظاہرے کر رہے ہیں۔ دوسرے سوال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ منصوبے کے اخراجات پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، جوائنٹ وینچر، امداد اور پرائیویٹ فنانسنگ سے پورے کیے جائیں گے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو کہ منصوبے سے کوئی متاثر بھی نہ ہو اور یہ مکمل بھی ہو جائے۔ دعا ہے کہ یہ بھاری رقم بھی عین منصوبے کے مطابق حاصل ہو جائے۔ ویسے سیانوں سے یہی سنتے آئے ہیں کہ باتوں سے زیادہ اگر عمل پر دھیان دیا جائے تو اُس کے زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ بہرحال ہمارے ہاتھ میں تو دعا کرنا ہی ہے‘ اللہ کرے کہ اِس پروجیکٹ میں مذکورہ انڈرپاس جیسی صورتحال پیدا نہ ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved