تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-12-2020

وزیرِ اعظم کی دور اندیشی اور ہماری حماقت

مستقبل بینی، دور اندیشی اور پیش نظری عمران خان صاحب پر ختم ہے۔ وزیر اعظم کے بجائے جوتشی، نجوبی یا رمال بھی ہوتے تو ان کی شہرت چار دانگ عالم میں ڈنکے بجا رہی ہوتی۔ ویسے تو خیر سے اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد اس شعبے میں بھی اپنا لوہا منوا سکتے ہیں اور جوہر دکھا سکتے ہیں۔ اگر اس شعبے میں کوئی ورلڈ کپ ہوتا تو خان صاحب اسے بھی اچک سکتے تھے؛ تاہم ابھی یہ منزل دور ہے۔ اس لیے اس پر گفتگو فی الحال لاحاصل ہے۔ ورلڈ کپ سے یاد آیا‘ کسی ستم ظریف نے فٹبال کے لیجنڈ میراڈونا کی موت پر لکھا کہ آنجہانی نے ورلڈ کپ جیتا، دباکر نشہ بھی کیا لیکن ملک کو برباد نہیں کیا۔ اس سے ستم ظریف صاحب کی کیا مراد تھی‘ میرے پلے تو کچھ نہیں پڑا‘ ممکن ہے آپ لوگوں کو سمجھ آ گئی ہو۔
آج صبح ناشتہ بنانے کے لیے کچن میں گیا اور گیس کا چولہا جلانے کی کوشش کی تو وہ جلنے سے انکاری تھا۔ کنٹرول ناب کو پورا کھولا تو چولہا جل پڑا‘ لیکن اس کی آگ جلائی جانے والی ماچس کی تیلی سے اتنی زیادہ تھی کہ اگر چار پانچ ماچس کی تیلیاں بیک وقت جلائی جاتیں تو معاملہ برابر ہو جاتا۔ چولہا بند کیا اور ایک کپ میں دودھ ڈال کر مائیکرو ویو اون میں رکھ کر گرم کیا کہ اب صرف کافی پی کر گزارہ کیا جائے۔ جتنی آگ چولہے میں جل سکتی تھی اس پر کچھ پکانا تو ممکن نہیں تھا ہاں البتہ ہاتھ تھوڑے بہت سینکے جا سکتے تھے اور ابھی اس کا موسم نہیں آیا تھا۔
مجھے گیس کی اس بے وفائی پر تھوڑی حیرت ضرور ہوئی کہ میرے گھر میں بلکہ اس پورے علاقے میں رات کو تو گزشتہ دس بارہ سال سے گیس نہیں آ رہی لیکن صبح ایسی نوبت نہیں آتی تھی۔ اب ہم اس چیز کے عادی ہو چکے تھے کہ ہمارے علاقے میں گیس رات ساڑھے نو دس بجے کے بعد نہیں آتی اور صبح چھ بجے دوبارہ رونمائی کراتی ہے؛ تاہم صبح چھ بجے کے بعد گیس دھڑا دھڑ آ جاتی تھی‘ ایسا نہیں ہوتا تھاکہ صبح چولہا جلائیں اور گیس کے رخِ روشن سے پردہ نہ ہٹے‘ لیکن اب یہ بھی ہورہا تھا۔ رات کو تو گیس بالکل ہی بند ہو جاتی ہے‘ حتیٰ کہ گیزر کا پائلٹ تک نہیں جلتا۔ معلوم کیا تو پتا چلا کہ علاقے کی گیس پائپ لائن خاصی پرانی ہے اور اس کی طبعی عمر پوری ہو چکی ہے۔ نتیجتاً اب پائپ اپنی خستہ حالی اور شکستگی کے باعث جگہ جگہ لیک کر رہے ہیں اور اس لیکیج کی وجہ سے گیس ضائع ہورہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پائپ تبدیل کیے جاتے لیکن اس کا سادہ حل یہ نکالا گیا کہ رات کو گیس بند کردی جائے‘ نہ گیس ہوگی اور نہ لیک ہوگی لہٰذا اس طرح کم از کم آٹھ گھنٹے کی گیس لیکیج پر قابو پالیا گیا ہے۔ رات کی گیس بندش کی ذمہ دار بہرحال موجودہ حکومت نہیں ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ دس بارہ سال سے جاری و ساری ہے اور اب اس میں بہتری یہ آئی ہے کہ صبح بھی گیس کا پریشر کم ہوگیا ہے۔
مجھے اس پر ہی تو یہ یاد آیاکہ ہمارے وزیراعظم کتنے دور اندیش، مستقبل بین اور آنے والے مسائل کے بارے میں فکرمند ہیں۔ انہوں نے کئی ماہ پیشتر ہی یہ کہہ دیا تھاکہ آئندہ سردیوں میں گیس کا بحران پیدا ہوجائے گا۔ بطور سربراہ ریاست ان کی یہی ذمہ داری تھی کہ عوام کو اطلاع پہنچا دیں کہ آنے والے دن کافی سخت ہیں اور گیس کی دستیابی مشکل تر ہوجائے گی۔ اب یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اطلاع کے بعد اپنا بندوبست کرلیں۔ ظاہر ہے حکومت کسی کی نوکر تو نہیں کہ گھر گھر میں گیس کی مستقل فراہمی کا اہتمام کرے۔ سو وزیراعظم نے تو اپنا فرض ادا کردیا‘ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ وزیراعظم کی اطلاع کی روشنی میں متبادل انتظامات کریں۔ اگر ہم اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اسے بھگتنا بھی ہمیں چاہیے۔ سو اب ہم اپنی کوتاہی اور نالائقی کو بھگت رہے ہیں۔ ہر شخص اپنی غلطی کا خمیازہ خود بھگتے گا۔
گزشتہ اڑھائی سال سے موجودہ حکومت ایل این جی کے مسئلے پر گزشتہ حکومت کے لتے لے رہی ہے اور ایک ہی رٹ لگا رہی ہے کہ گزشتہ حکومت نے قطر سے ایل این جی بہت مہنگی خریدی تھی اور اس میں کرپشن ہوئی تھی۔ میں تین سال قبل قطر گیا تو وہاں ایل این جی کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ایک نواز شریف مخالف بندے سے ملاقات ہوئی۔ وہ پڑھا لکھا آدمی نہ صرف یہ کہ قطر اور پاکستان کے مائع گیس والے معاہدوں سے آگاہ تھا بلکہ اس سیکٹر میں عالمی سطح پر ہونے والے معاہدوں اور اس سیکٹر کی اونچ نیچ سے بھی مکمل آگاہی رکھتا تھا۔ وہ کہنے لگا: پاکستان اور قطر کے مابین گیس کی فراہمی اور خریدکا جو معاہدہ ہوا تھا وہ اس وقت کے ریٹ کے اعتبار سے کافی مناسب تھا۔ اس میں گڑبڑ یہ تھی کہ قطر سے خریدکر پاکستان کو سپلائی کرنے والی کمپنی دراصل ان کی تھی جو اس معاہدے کے پیچھے تھے‘ یعنی انہوں نے ریٹ میں ڈنڈی اس طرح نہیں ماری کہ مارکیٹ سے زیادہ پر سودا کروایا ہو بلکہ قطر سے لے کر پاکستان کو سپلائی کرنے کے درمیان میں اپنا اچھا خاصا کمیشن کھڑا کرلیا تھا۔ دوسری خرابی یہ تھی کہ انہوں نے ساڑھے چھ سینٹ پر اگلے دس سال کیلئے معاہدہ کرلیا حالانکہ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھاکہ تب مارکیٹ مجموعی طور پر اونچی جارہی تھی۔ ایسے میں لمبے عرصے کے سودے نہیں کئے جاتے۔ اللہ جانے اس بندے کی بات کس حد تک معقول اور درست تھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا؛ تاہم اس کی بات میں وزن ضرور تھا۔
اس دوران یہ ہواکہ موجودہ حکمران گزرے سانپ کی لکیر پیٹنے میں اس قدر مصروف رہے کہ گیس کے اژدھے نے بہت کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ گزشتہ دو اڑھائی سال سے موجودہ حکمران گیس کے سابقہ معاہدوں کی چھان بین میں اس قدر مصروف رہے کہ انہیں ملکی ضرورت کیلئے درکار ایل این جی کی آئندہ خرید کا یاد ہی نہ رہا‘ حالانکہ اس دوران تیل اور گیس کی قیمتیں آسمان سے زمین پر آگئی تھیں اور ساڑھے چھ سینٹ والی قیمت ساڑھے تین سینٹ پر آگئی تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایل این جی کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہونے کے باعث ریٹ دس سینٹ پر آگیا ہے۔ اس قیمت میں ایل این جی کی انڈسٹری کو فراہمی وارے ہی نہیں کھاتی۔ ایک وقت تھا کہ قطری جہاز بھرکر پاکستان آئے اور حکومت پاکستان کو دو سینٹ پر گیس کی دس سال تک فراہمی کا سودا کرنے کی آفر کی لیکن مستقبل کے صحیح ادراک سے محروم میاں نواز شریف اینڈ کمپنی نے تب یہ معاہدہ نہ کیا۔ ممکن ہے تب انہیں اتنے ارزاں سودے میں ملنے والے کمیشن کی رقم بہت معمولی لگ رہی ہو؛ تاہم اس دو سینٹ سے انکار کا خمیازہ بعد میں ہم نے ساڑھے چھ سینٹ کی گیس کی صورت میں بھگتا۔
دو سال قبل اخبار میں گیس کے استعمال کو کنٹرول کرنے اور بل میں بچت کی غرض سے اشتہار آیاکہ آپ گیزر اور گیس ہیٹر کا محتاط استعمال کریں۔ گیزر کیلئے ایک آلہ لگانے کا سرکاری مشورہ بھی دیا گیاکہ اسے لگا کرآپ گیزر کو لگاتار جلانے کے بجائے صبح آٹومیٹک آن کریں اور اس پر ٹائم سیٹ کردیں تاکہ یہ آپ کے مقرر کردہ وقت پر خود بخود بند ہو جائے۔ میں نے یہ آلہ لگوا لیا اور ہوا یہ کہ یہ آلہ تب سے بیکار کھڑا ہے۔ رات کو گیس چلی جاتی ہے اور گیزر کا پائلٹ بھی بند ہو جاتا ہے۔ اس آٹومیٹک آلے کو چلانے کے لیے پائلٹ کا جلنا شرط ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بل کی بچت تو گئی بھاڑ میں اس آلے کی خرید کا خرچہ پلے سے پڑ گیا۔ لیکن ظاہر ہے اس میں سارا قصور ہمارا ہی ہے کہ ہمارے پیارے وزیراعظم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس سال گیس کا بہت سخت بحران پیدا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved