تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     03-12-2020

کاون کی کہانی اور ہمارے زبوں حال ادارے

کاون اس ہاتھی کا نام تھا جو 1985 میں پاکستان کے صدر ضیا الحق کو سری لنکا کی طرف سے تحفے کے طور پر دیا گیا تھا۔ وہ دنیا کا ایک مظلوم جانور ٹھہرا جس نے پورے 35 سال اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر میں گزارے اور وہ بھی ایسے کہ زیادہ تر وقت آہنی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوتا تھا۔ سب سے زیادہ بد قسمتی کی بات تو یہ ہے کہ چڑیا گھر کی انتظامیہ کو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ جانوروں کے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا جانا چاہئے۔ جانوروں کے لیے کنکریٹ کے گھر بنائے گئے اور کسی نے چڑیا گھر کی انتظامیہ سے یہ تک دریافت نہ کیا کہ بھلا جنگل میں جانور سیمنٹ کے فرش پر رہتے ہیں جو ان کے لئے ایسے گھر تیار کئے گئے ہیں؟ اس کے علاوہ ان جانوروں کے کھانے پینے اور دیگر اخراجات کے لئے رقم ملتی رہی اور شنید ہے کہ وہ بھی کسی اور کی جیب میں جاتی رہی۔ خیر اس طویل قید اور تنہائی کی وجہ سے کاون ڈپریشن کا شکار ہو گیا۔ 
تنہائی انسان کی ہو یا پھر جانوروں کی، وہ خود ہی اداسی اور خوف کو جنم دیتی ہے۔ انسان تو تنہائی کا کوئی نہ کوئی علاج ڈھونڈ لیتا ہے، لیکن انسانوں کے برعکس بے چارے جانور تو اپنی فطرت کے عین مطابق ایک ساتھ مل کر رہنے کے عادی ہوتے ہیں اور وہ تنہائی اور اکیلے پن کی وجہ سے بہت ہی مایوس اور خوفناک ہو جاتے ہیں۔ یہ سب ہمارے جانوروں کے ساتھ بے حسی کے رویے کی وجہ سے ہے۔ کاون کی آزادی کے لیے کیمپین کا آغاز 2015 میں ہوا۔ دنیا بھر سے پٹیشن پر دستخط ہوئے، صدر، وزیر اعظم اور سی ڈی اے کے حکام کو خطوط لکھے گئے۔ آخر کار عدالت کے حکم پر کاون کو کمبوڈیا بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ 36 سال کی عمر میں کاون قید سے آزاد ہوا۔ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم فور پاز (Four Paws) نے اس کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس تنہا ہاتھی کو آزاد کرنے کا فیصلہ دیا۔
گزشتہ ہفتے صدر مملکت جناب عارف علوی کاون کو الوداع کہنے اسلام آباد چڑیا گھر گئے۔ انہیں ہاتھی کو کمبوڈیا لے جانے کے انتظامات پر بریفنگ دی گئی۔ صدر مملکت نے کاون کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا: امید ہے کاون کمبوڈیا میں خوش رہے گا۔ انہوں نے اس موقع پر عملے کو ہدایت کی کہ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کیلئے متعلقہ قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائے۔
گزشتہ دنوں غیر ملکی ڈاکٹرز اور ٹیکنیکل سٹاف ممبرز نے کاون کا جسمانی معائنہ کیا تھا تاکہ یہ اندازہ لگا سکیں کہ یہ طویل سفر کے قابل ہے یا نہیں۔ اس سے پہلے ہی کاون کے لیے روس کا چارٹر طیارہ منگوا لیا گیا تھا، جو دہلی سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچا تھا۔ سول ایوی ایشن نے اس کے لیے خصوصی اجازت نامہ فراہم کیا تھا۔ کاون کو اس سفر پر روانہ کرنے سے پہلے خصوصی طور پر تیار کیا گیا تھا۔ اس کی خوراک میں بھی مناسب تبدیلیاں لائی گئی تھیں۔ بہرحال کاون تو ایک طویل قید سے آزاد ہو چکا‘ کمبوڈیا میں اس قدرتی ماحول میں پہنچ چکا‘ جو ہاتھیوں کے لئے مناسب ہے۔ گزشتہ روز میڈیا پر ایک تصویر بھی شائع کی گئی‘ جس میں کاون کمبوڈیا میں ایک اور ہاتھی کی سونڈ سے سونڈ ملا کر اظہارِ محبت کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں جانوروں کے حقوق کے حوالے سے صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے‘ اس لئے اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ پھر کسی کاون کو اس کے قدرتی ماحول میں بھیجنے کی ضرورت نہ محسوس کی جائے! 
یہ تو صرف کاون کی کہانی تھی جو یہیں تک محدود نہیں ہے۔ کئی جانور چڑیا گھروں سے بھی غائب کر دیے جاتے ہیں اور ان کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ کہاں گئے‘ یا پھر وہ نا مناسب ماحول کی وجہ سے مر جاتے ہیں اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ یہ صرف ایک ادارے کی کہانی ہے۔ نااہلی کی اور بھی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اس ملک میں پبلک سیکٹر اداروں کے مسائل تقریباً ایک جیسے ہیں چاہے وہ پی آئی اے ہو‘ پاکستان سٹیل ہو یا ریلوے۔ اب خبر یہ سامنے آئی ہے کہ حکومت نے سٹیل ملز کی نجکاری کا تقریباً فیصلہ کر لیا ہے اور اس سلسلے میں 4500 ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کا اعلان ہوا ۔ اس اعلان پر ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔
اگر آپ کراچی سے مشرق کی طرف نیشنل ہائی وے پر سفر شروع کریں تو12 کلو میٹر کے بعد دائیں ہاتھ پر آپ کو پاکستان سٹیل کے بورڈ ضرور نظر آئیں گے لیکن نہ تو نہ کسی بھٹی میں آگ جل رہی ہو گی‘ نہ آپ کو کوئی فورک لفٹر وزن اٹھاتا نظر آئے گا اور نہ ہی کسی فیکٹری کے چلنے کی آواز آپ کو کہیں سے بھی سنائی دے گی ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہیں کہیں لوہے یا سٹیل کی زنگ آلود شیٹوں کا ذخیرہ آپ کو یہ ضرور بتانے کی کوشش کرے گا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں کسی زمانے میں سٹیل اور لوہے کی پیداوار ہوتی تھی۔ دنیا بھر میں حکومتیں بزنس یا کاروبار نہیں چلا سکتیں اور یہ نجکاری کا عمل بھی دنیا بھر میں گزشتہ بیس پچیس سال سے شروع ہوا ہے‘ ورنہ تو سب کچھ سرکاری نگرانی میں ہی چل رہا ہوتا تھا۔ اگر نج کاری کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو مستقبل میں صرف روس اور چین ہی ایسے ممالک ہوں گے‘ جہاں سرکاری نگرانی میں ادارے چل رہے ہوں گے کیونکہ وہاں پر آڈٹ کا بڑا سخت نظام ہے۔ اگر ہم اپنے ملک میں نظر دوڑائیں تو یہ لگے گا کہ چاہے وہ میٹرو ہو‘ گرین لائن یا سٹیل ملز ہمیں ان کو چلانے کے لیے اور ملازمین کی تنخواہوں کے لیے سبسڈی دینا پڑتی ہے یا قرض لینا پڑتا ہے۔ 
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو حال دوسرے سرکاری اداروں کا ہوتا ہے وہی سٹیل ملز کے ساتھ بھی ہوا۔ بڑی تعداد میں سیاسی بنیادوں پر ملازمین کو بھرتی کیا گیا۔ کرپشن، بے ایمانی اور ناقص کارکردگی نے ملک کے اس بڑے پروجیکٹ میں ڈیرے ڈال لیے۔ اگر صرف میڈیکل کے شعبے کو دیکھا جائے تو وہاں ہر سال کروڑوں روپے کا غبن ہونے لگا۔ اشیا اور خام مال کی خرید و فروخت میں کرپشن عروج کو پہنچ گئی۔ پیداوار نہ ہونے کے برابر اور اخراجات میں مسلسل اضافہ۔ نتیجہ وہی کہ قومی خزانے پر بوجھ۔ اب حکومت کو اس کی نجکاری کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آ رہا۔
کنوینر پاکستان سٹیل ملز کا اس صورت حال کے بارے میں کہنا ہے کہ 2006 کے بعد سٹیل ملز کی مینجمنٹ ٹیکنیکل نہیں رہی۔ اسی وجہ سے سٹیل ملز کے حالات خراب ہوئے کیونکہ وہ ملازمین سے اس طرح سے کام نہ لے سکے جس طرح سے لینا چاہیے تھا۔ سٹیل ملز کا معاملہ جو بھی ہو اب یہ ایک گورکھ دھندا بن چکا ہے۔ اس میں گھوسٹ ملازمین ہیں، ٹریڈ یونین کے اپنے مفادات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے نجی گروہوں میں رسہ کشی بھی جاری رہتی ہے۔ کوئی چینی کمپنیوں کے حق میں ہے تو کوئی مغربی کمپنیوں کے لیے لابنگ کر رہا ہے۔ اس ادارے کی نجکاری تو ہونی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سٹیک ہولڈر مل بیٹھیں اور ہر ایک کی بات سنی جائے اور افہام و تفہیم سے اس نجکاری کو عمل میں لایا جائے۔ لیکن اس کی نج کاری کر دینا ہی کافی نہ ہو گا۔ حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے جن کے تحت کسی بھی قومی ادارے میں گنجائش سے زیادہ ملازمین بھرتی کرنے پر مکمل پابندی ہو۔ جو ادارے بچ رہے ہیں اور ابھی کام کر رہے ہیں‘ ان کو سٹیل ملز جیسے انجام سے بچانے کے لیے یہ اشد ضروری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved