پاکستان میں فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد ناظرین کیلئے تفریح کا ذریعہ صرف ٹیلی ویژن رہ گیا ہے۔ پاکستانی ڈرامہ اور ٹیلی فلمز عوام کی تفریح کا بڑا ذریعہ ہیں‘ ناظرین کی بڑی تعداد 8 بجے آنے والے ڈرامے شوق سے دیکھتی ہے اور اکثر ڈرامہ سیریل مقبولیت کے ریکارڈ بھی قائم کرتے ہیں۔ مجھے اپنے بچپن میں الفا براوو چارلی، بندھن، عینک والا جن، گیسٹ ہائوس اور آغوش بہت پسند آئے۔ حال میں یوٹیوب پر میں نے انگار وادی، سنہرے دن، پڑوسی، دھواں، آنچ اور مہندی دیکھے‘ یہ بہترین ڈرامہ سیریلز تھے۔ عمدہ اداکاری بہترین پروڈکشن اور بہت سبق آموز کہانیاں۔ اداکار اتنے ڈوب کر اداکاری کرتے تھے کہ ان کا اصل نام ہی بھول جاتا تھا اور صرف کردار ذہنوں پر نقش ہو جاتے تھے۔ ہم تھوڑے بڑے ہوئے تو دی کاسل ایک امید، دیس پردیس، کالج جینز، تین بٹا تین اور فیملی فرنٹ جیسے ڈرامے بہت پسند آئے؛ تاہم 2010ء کے بعد تو پاکستانی ڈرامہ بہت بدل گیا۔ اگرچہ کئی اچھے ڈرامے بھی پیش کے گئے تاہم زیادہ تر اوسط درجے کے ڈرامہ سیریل چھوٹی سکرین کا حصہ بنے۔ اگر ان دس سالوں کی بات کریں تو کچھ ایسے ڈرامے بھی نشر ہوئے جنہوں نے دیکھنے والوں کے دل میں جگہ بنائی۔ اس میں اداکاری‘ کہانی اور ہدایتکاری بہترین تھی، اگر ہم کچھ کا ذکر کر لیں تو مناسب ہو گا۔ یہ زیادہ تر ڈرامہ سیریل نجی چینلز پر نشر ہوئے اور کچھ سرکاری ٹی وی کا بھی حصہ بنے۔ ڈرامہ 'داستان‘ 1947ء کی ہجرت کے تناظر میں عکسبند کیا گیا تھا اور یہ رضیہ بٹ کے ناول 'بانو‘ سے ماخوذ تھا۔ اس میں ایک خاتون کی وطن سے محبت اور ہجرت میں اس کو پیش آنے والی تکالیف کی داستان بیان کی گئی تھی۔ اس کے بعد 'میری ذات ذرۂ بے نشان‘ نے شہرت کے ریکارڈ قائم کیے۔ اس میں لیجنڈ ادکار مرحوم خیام سرحدی‘ ثمینہ پیرزادہ، سمیعہ ممتاز اور فیصل قریشی کی اداکاری کو سب نے بہت پسند کیا، یہ نہایت سبق آموز ڈرامہ تھا‘ کہ ایک جھوٹی قسم پورے خاندان کو تباہ کر دیتی ہے۔ 'درِ شہوار‘ بھی ایک بہترین ڈرامہ تھا جس میں ایک امیر اور تعلیم یافتہ بہو ایک متوسط طبقے کے سخت گیر سسرال میں بہت سی قربانیاں دے کر‘ اپنے والد کی معاونت سے سب کا دل جیت لیتی ہے اور ایک لاڈلی بہو بن جاتی ہے۔ بعد ازاں اپنے والد کے لکھے خط وہ اپنی بیٹی کو دیتی ہے تاکہ وہ بھی اپنی گرہستی اچھے طریقے سے چلا سکے۔ 'زندگی گلزار ہے‘ میں ایک استانی اپنی تین بیٹیوں کی اکیلے پرورش کرتی ہے‘ انہیں اعلیٰ تعلیم دلاتی ہے۔ اس کا شوہر‘ جو بیٹے کی خاطر دوسری شادی کر لیتا ہے‘ ان سے الگ ہو چکا ہوتا ہے۔ خاتون اپنی بیٹیوں پر بہت محنت کرتی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ اگر اولاد کی اچھی تربیت کی جائے تو بیٹیوں یا بیٹوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ جن ڈرامہ سیریلز میں کوئی سبق ہویا وہ معاشرے کی حقیقت کے قریب ہوں‘ وہی زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ اسی طرح ڈولی کی آئے گی بارات، دیار دل، پیارے افضل، میرا سائیں، ڈر خدا سے، یاریاں، من مائل، الف، ایک نئی سینڈریلا، اکبری اصغری، شہر ذات، خانی،انا، سمی، آنگن، آہستہ آہستہ جیسے ڈراموں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ 'دل لگی‘ اور 'میرے پاس تم ہو‘ نے ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی۔ شائقین نے رومانوی اور بے وفائی کی سٹوریز کو بھی پسند کیا۔ 'میری گڑیا‘ ایک ایسا ڈرامہ تھا جو شائقین کو رلا گیا‘ یہ زینب کیس کے حوالے سے ایک فرضی کہانی تھی‘ اس میں والدین‘ معاشرے اور انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی بالکل ٹھیک عکاسی کی گئی تھی اور مجرم کی ذہنیت بھی عیاں کی گئی۔ ایسے ڈرامے بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے جس سے کوئی سبق مل سکے۔ ''سرخ چاندی‘‘ تیزاب گردی پر بنایا گیا ڈرامہ تھا جس نے ناظرین کو ہلا کر رکھ دیا۔
ان چند سالوں میں جو بات میں نے محسوس کی‘ وہ یہ تھی کہ معاشرتی مسائل‘ پیار محبت اور خاندانی جھگڑوں پر تو بے شمار ڈرامے بنائے جاتے ہیں لیکن وطن کی محبت اور قومی ہیروز پر ڈرامے بنانے کا ہمارے ہاں خاصا فقدان پایا جاتا ہے۔ حالانکہ اس حوالے سے عوام کی ذہن سازی بھی بہت ضروری ہے۔ حالیہ کچھ سالوں میں اس حوالے سے خدا زمیں سے گیا نہیں، فصیلِ جاں سے آگے، فرض، جاں نثار، ایک تھی مریم اور عہدِ وفا جیسے ڈرامے پیش کیے گئے جن میں قومی ہیروز، پولیس، سکیورٹی اہلکاروں، سویلین ہیروز اور مسلح افواج کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ یہ بات غور طلب ہے کہ سنہرے دن اور الفا براوو چارلی کے دو دہائیوں بعد عہدِ وفا بنایا گیا۔ یہ بھی امر قابلِ غور ہے کہ پاک فضائیہ اور پاک بحریہ پر حالیہ سالوں میں کوئی ڈرامہ سیریل نہیں بنا۔ دو‘ تین دہائیاں قبل نشانِ حیدر پانے والے چند شہدا اور پاک بحریہ کے شہیدوں پر 'غازی شہید‘ ڈرامہ سیریز بنائی گئی تھیں مگر اس کے بعد سے شہدا اور غازیوں پر ڈرامہ عکس بند کرنے کا سلسلہ رک گیا ہے۔ اس وقت سارا ملک ارطغرل غازی دیکھ رہا ہے جو ترکی کی بہترین کاوش ہے‘ کیا ہمارے ملک میں ٹیلنٹ نہیں یا ہمارے پاس بجٹ نہیں کہ ہم بھی ایسے ڈرامے بنا سکیں۔ شاید ہمارے نجی چینلز ساس بہو کے جھگڑوں سے باہر نہیں آنا چاہتے۔ زیادہ تر ڈراموں میں دو شادیوں‘ متعدد افیئرز اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میری والدہ بہت شوق سے پاکستانی ڈرامے دیکھتی ہیں‘ ایک دن میں نے ان کو روتے ہوئے دیکھا تو میری جان نکل گئی، وجہ پوچھی تو پتا چلا کہ ڈرامے میں ہیرو نے ہیروئین کو طلاق دے دی ہے جبکہ دوسرے ڈرامے میں ہیروئین سیڑھیوں سے گر گئی ہے اور اب وہ کبھی ماں نہیں بن سکے گی۔ اپنی حساس امی کو چپ کرایا اور کچھ دن ان کے ساتھ ڈرامہ سیریلز دیکھنے کا فیصلہ کیا مگر حالیہ کچھ ڈراموں میں سب سے زیادہ جو لفظ سننے کو ملا وہ ''طلاق‘‘ تھا، اس کے علاوہ خواتین کو بانجھ پن کے طعنے، دوسری‘ تیسری شادیاں اور خاندان میں ایسی لڑائیاں ڈراموں میں دکھائی جاتی ہیں جیسے گھر کا نہیں‘ کسی میدانِ جنگ کا منظر ہو۔
دوسری طرف بھارت ہمارے مسلمان ہیروز کے کرداروں کو مسخ کر رہا ہے‘ ایک فلم پدماوت میں علائو الدین خلجی کے کردار کو یکسر متضاد پیش کیا گیا ہے جبکہ 'پانی پت‘ فلم میں احمد شاہ ابدالی کے کردار کو مسخ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ آن لائن ویب سٹریم پر بھی بھارت کی اجاہ داری ہے‘ ہر دوسرا سیزن پاکستان کے خلاف بن رہا ہے جبکہ پاکستانی ہدایتکار کشمیر، بلوچستان، ایل او سی، سیاچن، سرحدی امور، ملکی حالات، فوجی اور سویلینز شہدا کی قربانیوں سے نظر چرا کر ٹی وی پر معاشقے کروانے میں مصروف ہیں، عورتیں پیسے کے پیچھے بھاگ رہی ہیں، نندیں بھابھیوں کے گھر تباہ کر رہی ہیں اور گھروں میں ایک دوسروں کو قتل کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ کئی ڈراموں میں بیڈ روم مناظر دکھائے جا رہے ہیں، بعض میں سگریٹ نوشی حتیٰ کہ شراب نوشی کے سین بھی آ جاتے ہیں، سب سے برا سین وہ ہے‘ جس میں ایک عورت کو مارتے ہوئے گھر سے نکالا جاتا ہے‘ تشد کا شکار عورتیں جب یہ مناظر دیکھتی ہیں تو ان کا دم گھٹتا ہے۔
خدارا پاکستانیوں پر رحم کریں‘ کچھ ڈرامے تحریک پاکستان، 1965، 71ء، کارگل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانیوں کی بہادری پر بھی بنائیں۔ ضربِ عضب، رد الفساد جیسے آپریشنز میں سینکڑوں مائوں نے اپنے جوان بیٹے قربان کر دیے‘ وہ ہیں ہمارے اصل ہیرو‘ ان پر ڈرامے اور فلمز بنانی چاہئیں۔ اس کے علاوہ غازیوں، پولیس کے ہیروز اور سویلینز کی قربانیوں کو اجاگر کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے تاکہ آج کی نسل کو پتا ہو کہ ان کے اصل ہیرو کون ہیں۔ علاوہ ازیں سی پیک‘ پاک چین دوستی کی لازوال داستان، بلوچستان میں کلبھوشن نیٹ ورک، آپریشن سویفٹ ریٹورٹ بھی بصورتِ فلم اور ڈرامہ عکس بندی کے منتظر ہیں۔ ہم اسلامی واقعات کو فلما تو نہیں سکتے لیکن ان کے حوالے سے بہترین ڈاکومنٹری تو بنا سکتے ہیں، بچوں کیلئے سبق آموز قصے بھی نشر کر سکتے ہیں۔ جب ایک ہی جیسے ہیرو ہیروئین ایک ہی جیسے موضوعات کے ساتھ جلوہ گر ہوتے رہے تو عوام نے پاکستای فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ پھر کچھ عرصے بعد ڈرامہ انڈسٹری کا بھی ویسا ہی حال ہو گا‘ جو فلم انڈسٹری کا ہوا۔ اس لئے موضوعات تبدیل کریں‘ نئے چہرے اور نیا ٹیلنٹ سامنے لائیں۔ ٹی وی سے عوام کی ذہن سازی کریں۔