زندگی ہم سے بہت کچھ طلب کرتی رہتی ہے۔ جب ہم زندگی کے تقاضے نبھانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں تب ہمیں کچھ ملتا ہے۔ ہم بہت کچھ پانا چاہتے ہیں مگر بیشتر کا معاملہ محض خواہش کی منزل میں اٹک کر رہ جاتا ہے۔ جو کچھ ہم چاہتے ہیں اُس کا حصول یقینی بنانے کیلئے کچھ کرنا بھی تو پڑتا ہے‘ کسی کو بیٹھے بٹھائے کچھ نہیں مل جاتا۔ ایک عمر کی محنت رنگ لاتی ہے تو کچھ ہاتھ آتا ہے۔ ماحول ہم پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ یہ معاملہ صرف میرا اور آپ کا نہیں‘ کم و بیش ہر انسان کا ہے۔ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہمیں قدم قدم پر الجھنوں سے دوچار کرتی ہیں، ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرتی رہتی ہیں۔ ایسے میں صرف ایک چیز ہے جو آپ کو حقیقی معنوں میں زندہ رکھتی ہے۔ یہ ہے قوتِ ارادی۔ جب کوئی ٹھان لیتا ہے کہ کچھ کرکے دم لے گا تب کچھ ہو پاتا ہے۔ قوتِ ارادی ہمیں ایسے وقت بھی جینے کا حوصلہ دیتی ہے جب موت بالکل سامنے کھڑی ہو اور ہمیں اپنی طرف بلا رہی ہو۔ یہ قوتِ ارادی ہی ہے جو انسان کو انتہائی مشکل حالات میں بھی مایوسی سے بچاتی اور کامیابی کی طرف بڑھنے کی راہ دکھاتی ہے۔
نیوزی لینڈ میں ایک ہزار افراد کا اُن کی پیدائش سے 32 سال کی عمر تک گہرا مشاہدہ کیا گیا۔ معلوم یہ ہوا کہ جن لوگوں نے حالات کے دباؤ کے آگے جھکنے سے انکار کیا‘ ہر پریشانی کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جگہ ڈٹے رہے وہ دوسروں سے زیادہ صحت مند، خوش اور کامیاب رہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ قوتِ ارادی کے ذریعے مشکلات سے بخوبی نمٹنے والوں کے اعتماد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی نظر میں بلند رہتے ہیں اور یہی حقیقت انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ جب انسان کسی بھی مشکل سے گھبراکر ہتھیار ڈالنے کے بجائے محاذ پر ڈٹ جائے تو کائنات بھی اُس کی مدد کے لیے آگے بڑھتی ہے۔ مثبت سوچ رکھنے والے آگے بڑھنے میں اِس لیے کامیاب رہتے ہیں کہ وہ حالات کے دباؤ کو جھیلنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ایسے لوگ قوتِ ارادی کے ذریعے ہر مشکل کو منہ دینے میں کامیاب رہتے ہیں۔ رائے ایف بومیسٹر اور جان ٹیئرنی نے اپنی کتاب ''وِل پاور‘‘ کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں اُن کیلئے لازم ہے کہ قوتِ ارادی کا گراف بلند کرتے رہنے پر توجہ دیں۔ قوتِ ارادی ہر انسان میں ہوتی ہے مگر یہ مقفل صندوق کے مانند ہوتی ہے یعنی بروئے کار لانے کیلئے کھولنا پڑتا ہے۔ رائے بومیسٹر نے تحقیق کے ذریعے معلوم کیا کہ جس طور ہمارا جسم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور پڑتا جاتا ہے بالکل اُسی طرح قوتِ ارادی کا گراف بھی عمر ڈھلنے کے ساتھ نیچے آتا جاتا ہے۔ اگر ہم قوتِ ارادی کو بہت زیادہ بروئے کار لائیں تو اُس پر بھی تھکن سوار ہوتی ہے۔ اس مشکل سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے‘ کہ انسان اپنے ماحول سے وہ تمام چیزیں نکال دے جو کسی نہ کسی حوالے سے رکاوٹیں پیدا کر رہی ہوں۔ ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی قوتِ ارادی کو آزمائش سے بچانے کیلئے اہم ترین کام پہلے کرنے چاہئیں۔ جب ہم اہم ترین کاموں کو شناخت کرکے سب سے پہلے کرتے ہیں تب قوتِ ارادی کو بروئے کار لانے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی۔ جو لوگ حالات کے جبر کا سامنا کرنے کیلئے قوتِ ارادی کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں، اُس کی تربیت پر کمر بستہ رہتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ معاملہ ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ قوتِ ارادی کتنی ہی بڑی نعمت سہی‘ کثرتِ استعمال سے یہ معاملہ بھی انسان کو مختلف الجھنوں سے دوچار کرتا ہے۔
بومیسٹر اور ٹیئرنی کا استدلال ہے کہ قوتِ ارادی کا تعلق اصلاً اس بات سے ہے کہ ہمارا جسم کس حالت میں ہے۔ اگر جسم میں پیچیدگیاں بڑھ گئی ہوں تو حالات کے دباؤ کا سامنا کرنے ہی میں نہیں بلکہ اُنہیں جھیلنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قوتِ ارادی کا گراف بلند رکھنے کیلئے صحت کا گراف بلند رکھنا لازم ہے۔ خوراک ایسی ہونی چاہیے جو جسم کو زیادہ پریشان نہ کرے۔ ایسی چیزیں کھانے سے گریز کیا جائے جنہیں ہضم کرنے میں جسم کو زیادہ توانائی صرف کرنا پڑتی ہو۔ سبزیوں، پھلوں اور مچھلی کا استعمال بڑھایا جائے تاکہ جسم اضافی الجھن کے بغیر کھانا ہضم کرے اور توانائی کی سطح برقرار رکھنے میں مدد ملے۔ سفید بریڈ، سفید چاول، سنیکس اور فاسٹ فوڈ سے جسم اچھا خاصا الجھ جاتا ہے۔ خوراک میں خشک میوہ جات اور زیتون کا تیل بھی شامل کیجیے۔
انسان کسی بھی معاملے میں غیر معمولی قوتِ ارادی کا مظاہرہ اُسی وقت کرسکتا ہے جب جسم میں کوئی غیر ضروری پیچیدگی نہ پائی جائے۔ نیند کا پورا نہ ہونا ایسا معاملہ ہے جس کا الزام صرف آپ پر عائد کیا جاسکتا ہے۔ نیند پوری نہ ہونے کی صورت میں آپ کسی بھی معاملے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پاتے۔ یوں زندگی میں بڑے بگاڑ کی ابتدا ہوتی ہے۔ قوتِ ارادی سے کسی بھی معاملے میں کام لیا جاسکتا ہے مگر کوشش یہ ہونی چاہیے کہ فضول معاملات میں اِسے ضائع نہ کیا جائے۔ زیگارنک ایفیکٹ یاد رکھیے‘ یعنی یہ کہ جب آپ تمام یا بیشتر کام منصوبہ سازی کے تحت کرتے ہیں تب آپ کے تحت الشعور کو پُرسکون رہنے کا موقع ملتا ہے۔ ایسی حالت میں آپ کا انہماک متاثر نہیں ہوتا اور آپ زیادہ محنت اور لگن کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ قوتِ ارادی کو پروان چڑھانے کیلئے لازم ہے کہ آپ دن کے اُس حصے میں کام کریں جب توانائی کی سطح بلند ہوتی ہے۔ صبح چار بجے سے دن کے دس یا گیارہ بجے تک جسم میں توانائی کی سطح خاصی بلند ہوتی ہے۔ ایسے میں کیے جانے والے بیشتر کام اچھی طرح مکمل ہو پاتے ہیں۔ توانائی کی سطح بلند ہو تب قوتِ ارادی کی کچھ خاص ضرورت نہیں پڑتی۔
جب ہم اپنی طرزِ فکر و عمل پر نظر رکھتے ہیں اور اپنے تجربات سے دوسروں کو مستفیض کرتے ہیں تب دل کو عجیب سے طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ ایسے میں قوتِ ارادی کو زحمت دینے کی گنجائش کم رہ جاتی ہے۔ ماحول صحت مند ہو تو نظم و ضبط برقرار رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ ایسے میں انسان زیادہ منظم ہوکر مسائل کو چیلنج کی صورت میں قبول کرتا ہے اور کچھ کرنے پر مائل ہوتا ہے۔ مذہبی عقائد کی پختگی کے علاوہ اخلاص قوتِ ارادی کو پروان چڑھاتا ہے اور انسان زیادہ دباؤ محسوس کیے بغیر اپنا کام جاری رکھتا ہے۔ یہی معاملہ صحبت کا بھی ہے۔ جیسی صحبت ہوگی ایسی ہی شخصیت پروان چڑھے گی۔ اگر آپ منفی سوچ رکھنے والوں میں بیٹھیں گے تو رفتہ رفتہ منفی سوچ کے حامل ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ عمل خاصا غیر محسوس ہوتا ہے اور جب تک آپ کو علم ہو پاتا ہے تب تک وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ قوتِ ارادی کو پروان چڑھانے میں والدین بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب والدین بچے کے کردار پر نظر رکھتے ہیں، کیریئر کے حوالے سے اُنہیں راہ دکھاتے ہیں تب اُن کی شخصیت میں توازن پیدا ہوتا ہے اور وہ کسی بھی مشکل صورتحال کا سامنا اچھی طرح کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ اہلِ خانہ بالخصوص والدین کی طرف سے اچھا فیڈ بیک مل رہا ہو تو بچوں میں قوتِ ارادی کا گراف قابلِ رشک حد تک بلند ہو جاتا ہے اور وہ ہر معاملے میں ڈٹ کر فیصلہ کرتے ہیں۔
قوتِ ارادی کو ہر معاملے میں بروئے کار لانے سے پہلے یہ دیکھنا لازم ہے کہ ہم اِسے خواہ مخواہ تو کام پر نہیں لگارہے۔ بہت سے لوگ صحت کا گراف بلند کرنے کیلئے اچھی خاصی صحت بخش خوراک کو ترک کرنے کی خاطر ڈائٹنگ کے نام پر قوتِ ارادی کو ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ قوتِ ارادی وہ ہتھیار جو زندگی کے ہر محاذ پر ہماری بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتا ہے۔ اس ہتھیار کو موزوں ترین طریقے سے اور صرف اُس وقت استعمال کیجیے جب ایسا کرنا واقعی ضروری ہو۔ دنیا جتنی تیزی سے الجھتی جارہی ہے اُس کے پیشِ نظر قوتِ ارادی کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ اُسے ضائع ہونے سے بچانا بھی لازم ٹھہرا ہے۔ یہ سب کرنے کیلئے بھی قوتِ ارادی کا استعمال لازم ہے!