تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     04-12-2020

پرانے شکاری‘ پرانے جال

ہمارے مہربان خواجہ آصف چاہتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا سیاستدانوں کولڑانا بند کرے اور گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ میں تمام سیاستدانوں کو مدد دے ‘ سب کی صلح کرائے ۔یہ سب باتیں انہوں نے ہمارے اینکر دوست کاشف عباسی کے شو میں کہیں ۔ کیا واقعی خواجہ آصف یہی چاہتے ہیں کہ نئے سرے سے معاملات طے کیے جائیں اور میڈیا مدد کرے؟مطلب مال بنایا حکمرانوں‘ سیاستدانوں اوران کی اولادوں نے ‘اور پکڑے گئے ہیں تو میڈیا اس لوٹ مار کو سیٹل کرانے میں مدد کرے۔ 
یاد آیا ہر دور میں ہمارے سیاستدان میڈیا کو بیوقوف بناتے آئے ہیں ۔ انہیں ہمارے جیسے صحافیوں کی کمزوری کا پتہ ہے کہ ان بے چاروں کو تھوڑی سی اہمیت دے دو یہ ساری عمر آپ کے نام کی مالا جپتے رہیں گے۔ جب 2006 ء میں لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی کا ڈرامہ رچایا گیا تو اُس وقت بھی میڈیا کو یہی کہانیاں سنائی گئی تھیں کہ سیاستدانوں نے ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف بہت غلط کام کیے جس سے جمہوریت کمزور ہوئی ‘ اب ہم اچھے بچے بن گئے ہیں‘ کسی کے ہاتھ میں کٹھ پتلی نہیں بنیں گے اور پاکستان کی تقدیر بدل دیں گے۔اس پر بہت سے سمجھدار صحافیوں نے اپنا کام چھوڑ کر دن رات بینظیر بھٹو اور نواز شریف کیلئے مفت کنسلٹنسی کا کام شروع کردیا اور پورے ملک میں دھڑا دھڑ کالم چھپنے لگے‘ خبریں لگنے لگیں‘ تبصرے ہونے لگے کہ دیکھو کیسے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ بدل گئے ہیں اور اب پاکستان کی تقدیر کو بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ ان صحافیوں کو ان سیاستدانوں نے استعمال کیا اور انہیں باقاعدہ چارٹر آف ڈیموکریسی کا خواب دکھا کر میڈیا کو ساتھ ملایا ‘ مگر جب پاکستان لوٹے تو سب نے وہیں سے کام شروع کیا جہاں چھوڑ گئے تھے۔ میڈیا کو ایسے منصوبوں میں ساتھ ملانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ صحافی اور کالم نگاراتراتے پھرتے ہیں کہ فلاں فلاں لیڈراُن سے مشورے کرتے ہیں‘ اُن کے کہنے پر چلتے ہیں اور پھر میڈیا ہی ان سیاستدانوں کے کرتوتوں کا دفاع کرتا ہے۔ انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ لیڈر وقتی طو رپر صحافیوں اور کالم نگاروں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہوتے ہیں تاکہ وہ عوام میں ان کا امیج بہتر بناتے رہیں اور جب کام نکل جائے گا تو انہیں مکھن سے بال کی طرح نکال پھینکیں گے۔ 
2014 ء کی بات ہے‘ ایک سینیٹر کے گھر بیٹھے تھے اور وہاں زرداری صاحب کی کرپشن پر گفتگو ہورہی تھی۔ ایک سینئر صحافی نے سینیٹر پرویز رشید سے‘ جو وزیر بن چکے تھے‘ پوچھ لیا کہ زرداری کا احتساب کب شروع کر رہے ہیں؟ یہ سن کر پرویز رشید غصے میںآگئے اور بولے: آپ کو اتنا شوق ہے تو آپ الیکشن لڑ کر خود یہ کام کرلیں۔ اُس صحافی نے جواب دیا :یہ جواب اُس وقت دیتے جب اپوزیشن میں تھے‘ اُس وقت تو مجھے بلا کر کہتے تھے کہ دیکھ لینا ہم نے زرداری سے پیسہ نکلوانا ہے۔ 
خواجہ آصف سے ملتی جلتی باتیں ہر دور میں سیاستدان کرتے آئے ہیں ‘خصوصا ًجب یہ گھیرے میں آجاتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایک ہی حل ہوتا ہے کہ سب گناہ معاف کر کے نئی شروعات کی جائے ۔1993 ء کے الیکشن میں بینظیر بھٹو نے نیا نعرہ لگایا تھاکہ ہمیں نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے‘ نئے سرے سے عمرانی معاہدہ چاہیے کہ پاکستان کو کیسے چلانا ہے۔ 2006 ء میں لندن میں جو چارٹر آف ڈیموکریسی ہورہا تھا‘ اس وقت ایک نیا نعرہ یہ ایجاد کیا گیا کہ ہمیں جنوبی افریقہ کی طرز پر Truth and Reconciliation Commission کی ضرورت ہے‘ مگر یہ کسی کو نہیں بتایا کہ جنوبی افریقہ کا کمیشن کسی اور مقصد کیلئے تھا‘ کرپشن پر این آر او لینے کیلئے نہیں تھا ۔ 
خواجہ آصف سے مشرف دور میں دعا سلام شروع ہوئی تھی اور ان کی قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقریروں کا میں فین بن گیا ۔ خواجہ آصف نے اُس دن سب کا دل جیت لیا تھا جب قومی اسمبلی میں ہاتھ باندھ کر پوری قوم سے یہ کہہ کر معافی مانگی کہ ان کے والد خواجہ محمد صفدر نے جنرل ضیا کا ساتھ دے کر بڑی غلطی کی تھی ۔ میرے نزدیک یہ خواجہ صاحب کا بڑا پن تھا ورنہ کون اپنے باپ کو غلط سمجھ کر معافی مانگ سکتا ہے۔ شاید وہ مشرف کا دور تھا‘ لہٰذا ایسی تقریریں نواز شریف کیمپ کو سوٹ کرتی تھیں اور انہیں ہی مسیحا سمجھ لیا گیا تھا۔ لوگ پرانی باتیں بھول جانا چاہتے تھے کہ ملک میں نئی شروعات ہوں‘ اس لیے جب بینظیر بھٹو اور نوازشریف نے 2006 ء میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کر کے پوری قوم کو خوشخبری سنائی کہ اب دونوں لیڈر ملک کی تقدیر بدل دیں گے تو لوگ ان کے چکر میں آگئے‘ مگر وہ جونہی پاکستان لوٹے تو کام وہیں سے شروع کیا جہاں چھوڑ کر گئے تھے۔ چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کی جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتیں بھی شروع ہوگئیں ‘حالانکہ یہ معاہدہ تھاکہ اب ا یسا نہیں ہو گا۔ان خفیہ ملاقاتوں کے بعد ہی نواز شریف اور شہباز شریف کالے کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے کہ گیلانی‘ زرداری اور حسین حقانی کو غدار قرار دیا جائے کیونکہ انہوں نے امریکی حکومت کو ایک میمو لکھا تھا ۔ وجہ یہ تھی کہ اب شریف خاندان کو لگ رہا تھا کہ چوہدری نثار اور شہباز شریف کی خفیہ ملاقاتوں کے نتائج نکلنا شروع ہوگئے ہیں اور انہیں اگلی حکومت ملتی نظر آ رہی تھی۔ کہاں گیا چارٹر آف ڈیموکریسی اور کہاں گئے وہ دعوے کہ نیا پاکستان بنائیں گے جس میں خفیہ ملاقاتیں نہیں ہوں گی نہ ہی ایک دوسرے کی حکومت گرانے کیلئے سازشیں کریں گے؟زرداری صاحب نے بھی سوچا میں کیوں پیچھے رہوں‘ انہوں نے فورا ًپنجاب میں شہباز شریف کی حکومت معطل کر کے گورنر راج لگا دیا کہ شاید گورنر سلمان تاثیر وہاں بندے توڑ کر اپنی حکومت بناسکیں۔ کچھ دن بعد عدالت نے حکومت بحال کر دی اور زرداری صاحب دیکھتے رہ گئے۔ یہ تھا وہ چارٹر آف ڈیموکریسی جس کے نام پر پورے ملک اور میڈیا کو چونا لگایا گیا۔ 
جن دنوں وزیر اعظم گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس چل رہا تھا تو سب سے زیادہ ایکٹو شریف برادران اور خواجہ آصف جیسے لوگ تھے۔ اگر آپ اُس وقت کی تقریریں سن لیں تو آپ کانوں کو ہاتھ لگائیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کر کے ہمیں خوشخبریاں سنائی تھیں کہ وہ بدل گئے ہیں اور میڈیا ان کی مدد کرے اور میڈیا نے مدد بھی کی اور ان سب کو واپس لایا ۔ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ میڈیا ان کو لڑاتا ہے‘ چلیں ٹی وی پر لڑاتا ہوگا لیکن پارلیمنٹ میں جو زبان اور نعرے پارلیمنٹیرین لگاتے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟ جس طرح کی زبان وہاں استعمال ہوتی ہے وہ ٹی وی پر شاید ہی سننے کو ملتی ہو اور اگر ملتی بھی ہے تو وہ انہی سیاستدانوں کے منہ سے۔ اب یہ سب چاہتے ہیں کہ میڈیا ان کی مدد کرے تاکہ سب لوٹی ہوئی دولت کو بھول جائیں‘ نئے سرے سے ایک نیشنل ڈائیلاگ ہو جس سے ان کی جائیدادیں بچ سکیں۔ اگر یہ لوگ سیانے ہوتے تو انہیں 2008 ء میں بہترین موقع ملا تھا۔یہ ملک کی تقدیر بدل دیتے‘ گورننس کی مدد سے ہمیشہ کیلئے ایسے راستوں کا تعین کرتے کہ پھر خواجہ آصف کو سپہ سالار کوفون کر کے اپنی سیٹ بچانے کی منت نہ کرنا پڑتی۔ ان سیاسی شکاریوں کا اعتماد دیکھیں کہ عوام اور میڈیا کو پھانسنے کیلئے جال بھی پرانا لاتے ہیں ۔ وہی گھسٹی پٹی باتیں‘ وہی ماضی سے سیکھنے کی قسمیں‘ وہی نئی شروعات کی باتیں‘ وہی میٖڈیا کو دہائی اور وہی قسمیں اور وعدے ۔ان سیاستدانوں کے ہاتھوں بار بار استعمال ہونے کے بعد پاکستانی میڈیا اور عوام کا وہی حال ہوچکا جو ایک سردار کا ہوا تھا جوگھر سے نکلا تو دروازے پر پڑے کیلے کے چھلکے سے پھسل کر گر گیا ۔ اگلے دن بھی چھلکا دروازے کے سامنے پڑا تھا اور پھر پھسل کر گر پڑا۔ تیسرے دن نکلا تو وہیں پڑے کیلے کا چھلکا دیکھ کر رکا اورگہری سانس لے کر بولا: ہائے ربا اج فیر گرنا پؤ گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved