تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     04-12-2020

ٹریلر

کسی فلم یا ڈرامے کو مقبول بنانے کے لیے جو تعارفی مناظر دکھائے اور ڈائیلاگ سنائے جاتے ہیں انہیں ٹریلر کہا جاتا ہے۔ اہل نظر تو ٹریلر دیکھ کر فلم کا اندازہ لگا لیتے ہیں مگر بعض کوتاہ نظر ایکشن سے بھرپور فلم دیکھ کر بھی اس کی کہانی کا اندازہ نہیں لگا پاتے جب تک کہ وہ خود کہانی نہیں ہو جاتے۔ع
تم کہ سر تا پا حقیقت تھے کہانی ہو گئے
ہم گزشتہ کئی ہفتوں سے حکومت کو تصادم سے بچنے اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے تھے مگر خواجۂ بلندبام بیچارے عوام کا حال معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے‘ نہ ہی اُن کی بات سنتا ہے۔ حکومت کی دانشمندی ملاحظہ کیجئے کہ اس نے اپوزیشن کے ملتان میں 4 گھنٹے کے قلعہ کہنہ قاسم باغ کے اندر محدود شو کو 4 روزہ لامحدود ایونٹ بنا دیا۔ اس دوران پکڑ دھکڑ کی گئی۔ مقامی لیڈروں سمیت کارکنوں کو تھانوں میں مقید کیا گیا۔ کنٹینروں کی فصیلیں بناکر راستوں کو مسدود کیا گیا، سڑکوں کو بند کیا گیا، قلعہ کہنہ قاسم باغ کو مقفل کیا گیا مگر جیالوں اور متوالوں کا سیلابِ بلا مزاحمتیں اور رکاوٹیں توڑ کر تین روز پہلے ہی قاسم باغ میں داخل ہوگیا۔ 
چار روز تک یہ علاقائی جلسہ حکومت کی دانائی سے قومی میڈیا پر ٹاپ سٹوری اور عالمی میڈیا پراہم خبر بنا رہا۔ آخری روز حکومت نے روک ٹوک اور پکڑ دھکڑ اچانک بند کردی۔ تجزیہ کار اسے تضاد، حکومت اسے دانائی اور اپوزیشن اسے پسپائی قرار دے رہی ہے۔ بہرحال ملتان کے گھنٹہ گھر اور اس سے ملحقہ ساری سڑکوں پر جلسہ ہوا۔ شاہ محمود قریشی کا سابقہ تاثر تو ایک سنجیدہ اور بالغ نظر سیاستدان کا تھا مگر پی ٹی آئی کی کانِ نمک میں جاکر وہ بھی نمک شد ہوچکے ہیں۔ شاہ محمود قریشی حاکمِ وقت کے سامنے تو لب کشائی کی مجال نہیں رکھتے مگر اب انہوں نے ملتان میں عوامی مقبولیت کا پلڑا گیلانیوں کے حق میں جاتا ہوا دیکھ کر یہ بیان دیا ہے کہ ملتان جلسے کو صحیح طور پر ہینڈل نہیں کیا گیا، گرفتاریاں بلاجواز تھیں۔ اپوزیشن کو جلسے کرنے دیئے جائیں، عوام خود فیصلہ کریں۔ع
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
تاہم حالات کی سنگینی ہم سب سے فوری سنجیدگی کا تقاضا کر رہی ہے۔ اگر جنوبی پنجاب میں اپوزیشن کا پاور شواتنا کامیاب ہوسکتا ہے تو سنٹرل پنجاب میں تو یقینا وہ بہت کامیاب رہے گا۔ لاہور مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے‘ یہاں کے 13 دسمبر کے شو کو کامیاب بنانے اور پی ڈی ایم کی تحریک کو نقطۂ عروج پر پہنچانے کیلئے مسلم لیگ (ن) سر دھڑ کی بازی لگا دے گی۔ پی ڈی ایم کے اعلان کے مطابق اس کی اگلی منزل اسلام آباد ہوگی‘ جہاں وہ اس وقت تک دھرنا دے گی جب تک حکومت مستعفی نہیں ہوجاتی۔
یہ سارے راستے تصادم کی طرف جاتے ہیں۔ تصادم کسی طرح بھی سیاستدانوں کے حق میں ہے‘ نہ ہی ملک و قوم کیلئے مفید۔ تصادم سے محفوظ رہنے اور جمہوریت کی بقاکا راستہ کیا ہے؟ اس کا راستہ قومی ڈائیلاگ ہے۔ اس ڈائیلاگ کے ذریعے نہ صرف موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا کوئی متفقہ منصوبہ اختیار کیا جائے بلکہ مستقبل میں بھی ایسے بحرانوں سے نجات حاصل کرنے کی کوئی مستقل پالیسی وضع کی جائے۔ اس وقت پاکستان میں تین ہی قوتیں ہیں جو مل کراس بحران پر قابو پا سکتی ہیں۔ ایک حکومت، دوسری اپوزیشن اور تیسری اسٹیبلشمنٹ۔ ملتان میں زبردست خفت اٹھانے کے بعد حکومت کے رویے میں مثبت تبدیلی آنی چاہئے تھی مگر شہباز شریف کوکچھ اور دنوں کا پیرول نہ دے کر حکومت نے مفاہمت کی نہیں مزاحمت کی پالیسی اختیار کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ اس لیے حکومت سے تو کوئی خاص توقع وابستہ نہیں کی جا سکتی؛ البتہ پاکستان کی سابقہ سیاسی تاریخ دیکھتے ہوئے نگاہیں مقتدرہ کی طرف ہی اٹھتی ہیں کہ وہی اہم کردار ادا کرے گی۔
جہاں تک کورونا کا تعلق ہے وہ فی الواقع ایک بہت حقیقی خطرہ ہے۔ اس سے بچنے کیلئے ہر ممکن تدبیر اختیار کی جانی چاہئے مگر حکومت نے اس بارے میں غیرسنجیدگی اور طعنہ زنی کی جو پالیسی اختیار کررکھی ہے اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ دردمندی اور فکرمندی کے ساتھ اس وبا پرقابو پانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ اگر وزیراعظم اس وباکو عوام کیلئے ایک حقیقی خطرہ سمجھتے تووہ پہلے روز سے ہی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھتے‘ انہیں خطرے کی شدید نوعیت سے آگاہ کرتے اور کورونا سے محفوظ رہنے کیلئے ایک متفقہ قومی پالیسی تیار کرتے۔ محترم عمران خان ابھی تک ایک مزاحمت کار بنے ہوئے ہیں اور ایک مدبر لیڈر کا تاثر قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ 
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حکومت نے کس بنیاد پر مزاحمت اور عدم مفاہمت کا راستہ اختیار کررکھا ہے۔ معیشت کی شرحِ نمو صفر سے نیچے ہے، مہنگائی آسمان سے اوپر ہے، بیروزگاری ناقابل تصور حد کو پہنچ چکی ہے۔ ایک کروڑ ملازمتیں دینے والے کبھی پی آئی اے اور کبھی پاکستان سٹیل کے ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کر رہے ہیں۔ کرپشن کم نہیں ہوئی، پس پردہ رشوت کا ریٹ بڑھا ہے، بیڈ گورننس کا ہر کوئی شکوہ کررہا ہے۔ گیلپ سروے عمران خان اور اُن کی حکومت کی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کی رپورٹیں دے رہے ہیں۔ منگل کے روز عدالت عظمیٰ نے بھی حکومت کی کارکردگی اور دیانتداری پر بڑے سنجیدہ سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ جناب چیف جسٹس نے کہا کہ کاغذوں میں آدھا پاکستان جنگل ہے، کے پی کا محکمہ ماحولیات چور ہے، انہوں نے کہا کہ 430 ملین درخت کہاں گئے ہیں؟ لگتا ہے کہ سارے بنی گالہ میں لگائے گئے ہیں۔ ہمیں تو کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ عدالت نے سیٹلائٹ تصاویر طلب کرلی ہیں اور کلرکہار میں تعمیرات روکنے کا حکم دے دیا ہے۔
قومی ڈائیلاگ بلاتاخیر ہونا چاہئے۔ اس کا ایجنڈا بڑا واضح ہے کہ موجودہ بحران کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے اور آئندہ کیلئے ایسے اقدامات کئے جائیں کہ اس طرح کے بحران پیدا ہی نہ ہوں۔ ظاہر ہے اس ڈائیلاگ کا سب سے پہلا نکتہ یہ ہوگا کہ حکومت اپوزیشن کوکرش کرنے کی پالیسی ترک کرے۔ احتساب جانبدارانہ ہونے کا تاثر ختم کیا جائے۔ فیئر اینڈ فری مڈٹرم انتخاب کی ضمانت دی جائے۔ اس گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ میں پاکستان کے اصل مسائل کو ہمیشہ کیلئے حل کرنے کا بھی کوئی متفقہ پروگرام وضع کیا جائے۔ جو بھی حکومت آتی ہے وہ بلدیاتی انتخابات کا راستہ روک کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ اس وقت تک ہماری گلیاں کوچے کوڑے کے ڈھیر بنے رہیں گے، نکاسیٔ آب کا کوئی انتظام نہیں ہوگا، واٹر سپلائی اور صاف پانی کا اہتمام نہیں ہوگا، سٹریٹ کرائم کا کوئی تدارک نہیں ہو سکے گا جب تک ہم بلدیاتی اداروں کو اس کی حقیقی روح کے مطابق نہیں چلنے دیں گے۔ اس کے علاوہ انصاف، تعلیم اور صحت کے سلسلے میں بھی طے کیا جائے کہ صرف زبانی کلامی نعروں میں نہیں بلکہ عملاً ان بنیادی حقوق کا حصول یقینی بنایا جائے گا۔ 
اگر حکومت ڈائیلاگ کا راستہ اپناتی‘ صدقِ دل سے مفاہمت کا رویہ اختیار کرتی اوراگلے شفاف الیکشن کیلئے انتخابی اصلاحات تسلیم کرتی ہے تو پھر ایک متفقہ ترمیم کے ساتھ حکومت کواس کی مدت پوری کرنے دی جائے۔ اس طرح دھرنوں اور زورِ بازو سے حکومت گرانے کے کلچر کی حوصلہ شکنی ہوسکے گی۔ ترمیم یہ کی جائے کہ نہ صرف جاری عرصے کیلئے بلکہ آئندہ کیلئے بھی مدتِ انتخاب پانچ کے بجائے چار سال کر دی جائے۔ کیونکہ ع
عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
اب میرے قارئین پوچھنا چاہیں گے کہ ملتان کے حوالے سے جس ٹریلر کا میں نے ذکر کیا ہے وہ کس فلم کا ہے۔ فلم کا نام ہے ''کامیاب مزاحمت‘‘؛ تاہم اللہ حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو تصادم سے بچنے اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved