تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     04-12-2020

اسرائیل ، سی پیک اور کشمیر

صرف یہی نہ سوچئے کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ اس پر بھی غور کیا کریں کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہا ہے؟ بات کسی سیاستدان کی نہیں کہ وہ اپنی تقاریر اور بیانات میں کیا کہہ رہا یا رہی ہے کیونکہ سیاستدان ہمیشہ ایک دوسرے کو کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں‘ کل تک ایک دوسرے کے سیاسی مخالفین کی صرف دھجیاں اڑائی جاتی تھیں لیکن کسی نے ملکی سرحدوں یا روایات کا نہ تو مذاق اڑایا تھا، نہ ملک کے دفاعی اداروں کو سڑکوں اور گلیوں میں کھڑے ہوکر کوسنے دیے تھے اور نہ ہی پاکستان کے عوام کو اپنے ہی اداروں کے سامنے لا کھڑا کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ گزشتہ ایک برس سے مسلم لیگ نواز، مولانا فضل الرحمن اور پی پی پی سمیت چند اپوزیشن جماعتوں کی قیادت نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے کہ عمران خان نے کشمیر کا سودا کر لیا ہے، کشمیریوں کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، ان کی آواز اٹھانے والا کوئی نہیں رہا۔ کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی دور میں سقوطِ کشمیر ہوا، کشمیری بے چارے بھارتی تسلط اور ظلم و جبر کے سامنے اکیلئے کھڑے مار کھا رہے ہیں اورکوئی ان کی مدد کو پہنچنے والا نہیں، وہ پریشان حال پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان الزامات کا نشانہ اکیلے وزیراعظم ہیں؟
کشمیر پر پاکستان اور بھارت اب تک چھوٹی بڑی جھڑپوں کے علاوہ کارگل سمیت تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اب بھی آئے روز لائن آف کنٹرول پر فوجوں کی جھڑپیں جاری رہتی ہیں جن میں فوج کے افسران اور جوان اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر وزیراعظم نے کشمیر کا واقعی سودا کر لیا ہے تو وہ لائن آف کنٹرول پر خاموشی بھی لا سکتے ہیں، ان کے راستے میں کیا رکاوٹ ہو سکتی ہے؟ دوسری جانب بھارت کی وزارتِ خارجہ اور میڈیا‘ دونوں ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر میں ''مجاہدین کو داخل کر رہا ہے‘‘۔ کشمیر کا سودے کرنے والا الزامی تیر میاں نواز شریف اور ان کے حامی صرف عمران خان پر نہیں بلکہ دفاعِ وطن کے ذمہ دار اداروں پر بھی چلا رہے ہیں کیونکہ کشمیر اور عساکرِ پاکستان ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ ان کے بغیر نہ تو ملک کا جغرافیہ مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی دفاع۔ افواجِ پاکستان مسئلہ کشمیر کی ہمیشہ سے ضامن ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی ہر سول حکومت کے ساتھ جب بھی کچھ اداروں کے تعلقات میں اونچ نیچ آئی تو اس کی وجہ سول حکومت کا کشمیر کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھارت کی طرف غیر معمولی جھکائو تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کی ریاست مخالف سیا ست کا انداز دیکھئے کہ انہوں نے بلا واسطہ طور پر سب سے پہلا حملہ دفاعی اداروں پر یہ کہتے ہوئے کیا کہ ''عمران حکومت نے کشمیر کا سودا کر لیا ہے‘‘۔ دوسرے لفظوں میں پاکستانی عوام کے ذہنوں میں یہ زہر انڈیلا جا رہا ہے کہ کشمیریوں کی پشت پر کھڑے ادارے بھی اس کارِ قبیح میں ملوث ہیں۔ پاکستان اور اس کی افواج ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ملک محفوظ رہے گا تو اس کی برّی‘ بحری اور فضائی افواج کے ساتھ ساتھ اس کی دوسری تمام سکیورٹی فورسز بھی اپنا وجود بر قرار رکھ سکیں گی اور اگر افواج پاکستان مضبوط اور محفوظ ہوں گی تو پاکستان کا وجود اور نظریہ اور ہم سب قائم و دائم رہیںگے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن کی گزشتہ چند برسوں سے کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کے ان اداروں کو کمزور کیا جائے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کے افسروں اور جوانوں کے دلوں میں شبہات ڈال دیے جائیں۔
سوال یہ ہے کہ ریاستی اداروں کے خلاف کبھی کشمیر کا سودا کرنے‘ کبھی سی پیک کو سست کرنے اور کبھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کون لوگ کر رہے ہیں؟ اس کی ایک جھلک سب نے ملتان میں مریم صفدر صاحبہ کی تقریر میں دیکھ لی ہو گی۔ میں نے ان کی ابتدائی سیاست کے دنوں کا کچھ عرصہ ان کے ساتھ گزارا ہے‘ اس لئے اندازہ ہے کہ یہ لوگ ایسا کیوں کہہ رہا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سب سے پہلی مہم شریف فیملی نے چلائی تھی تو اس میں رتی بھر بھی جھوٹ نہیں ہے۔ ان کی ہمیشہ یہی سٹریٹیجی رہی ہے کہ ایک Feeler چھوڑا جائے تاکہ اندازہ کیا جا سکے کہ اس پر عوامی ردعمل کس قسم کا ہو گا اور اس '' فیلر‘‘ کیلئے اپنے کسی بہت ہی خاص اور انتہائی وفادار کو آگے کیا جاتا ہے۔ جاتی امراء نے اس سے قبل اپنے ایک انتہائی وفادار سابق سفیر کو مشن سونپا اور انہوں نے ایک قومی جریدے میں تین اقساط میں لکھے گئے اپنے کالم میں قائل کرنے کی کوشش کی کہ ''اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ہی پاکستان اور اس کے عوام کی بہتری ہے‘‘۔
آج سے بائیس برس قبل جب یہ مضامین لکھے گئے تو اس وقت میں نے اپنے کالموں کے ذریعے اس مضمون نویس اور اس کی پشت پر کھڑے سیاست دانوں اور حکمرانوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس زہریلے نظریے اور بیانیے کے خلاف عوام کو جگانے کی بھرپور کوشش کی‘ اس طرح یہ مہم جلد ہی دم توڑ گئی۔ وہ شخصیت آج بھی جاتی امرا کی سب سے قریبی شخصیت سمجھی جاتی ہے‘ جس پر اپنے حالیہ دورِ حکومت میں اس قدر عنایات کی گئیں کہ وہ صاحب کہاں سے کہاں پہنچا دیے گئے۔
سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ایک دفعہ نہیں متعدد بار افواجِ پاکستان کی کمانڈ کرتے ہوئے چین سمیت دنیا بھر کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ پاکستان کی افواج سی پیک کی تکمیل اور حفاظت کی ضامن ہیں۔ اب اگر نواز لیگ صبح شام یہ گردان شروع کر دے کہ عمران خان سی پیک کو ختم کر رہے ہیں تو ان کا یہ حملہ عمران خان پر نہیں بلکہ براہِ راست ملک کے دفاعی اداروں پر ہوتا ہے‘ جنہوں نے اس منصوبے کی حفاظت کی گارنٹی دی ہوئی ہے۔ جب میڈیا پر یہی الفاظ سننے اور پڑھنے کو ملنا شروع ہو جائیں کہ سی پیک کو ختم کیا جا رہا ہے یا اس پر کام کی رفتار سست کر دی گئی ہے تو پڑھنے اور سننے والے کے شک کا محور حکومت نہیں بلکہ اس عظیم منصوبے کے ضامن ادارے ہوتے ہیں اور یہی ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمن چاہتے ہیںکہ پاکستانی عوام کے ساتھ چینی عوام کے دلوں میں پاکستان اور اس کے اداروں سے متعلق وسوسے پیدا کر دیے جائیں۔ 
اگر آپ انڈین میڈیا کو فالو کرتے ہیں یا انڈیا کے اخبارات اور ان کے یوٹیوب چینلز دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ گزشتہ چھ ماہ سے‘ جب سے احسن اقبال صاحب نے سی پیک ختم کرنے کا شور مچانا شروع کیا ہے‘ بھارتی پرنٹ میڈیا‘ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز یہی پروپیگنڈا کئے جا رہے ہیں کہ سی پیک ختم ہو رہا ہے اور اس کے کام کی رفتار کو سست ہی نہیں کیا جا رہا بلکہ اب تو اس کی بساط لپیٹی جا رہی ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سی پیک کی سب سے زیا دہ تکلیف کسے ہے‘ سی پیک منصوبہ ختم ہو جائے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان کس کو ہو گا اور سب سے زیادہ خوشی اور فائدہ کس کس کو پہنچے گا۔ یہی وہ سوال ہے جو ہم سب کو سامنے رکھتے ہوئے سوچنا ہو گا کہ یہ جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے کون لوگ ہیں اور کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ اس وقت قومی سوچ اور ملکی حفاظت کیلئے پاکستان کے ٹائیگرز کو (پی ٹی آئی کے نہیں) اپنی آنکھیں‘ ذہن اور سوچ کو نیند، غنودگی اور لاپروائی یا سوشل میڈیا کی رنگینیوں کو ایک جانب رکھتے ہوئے میدانِ عمل میں یہ عزم اور ارادہ کرتے ہوئے کودنا ہو گا کہ میرے ملک اور اس کے اداروں کے خلاف جھوٹ پر مبنی مہم کیوں چلائی جا رہی ہے؟ انہیں لیبیا، عراق، شام، یمن، افغانستان اور سوڈان سمیت افریقی ممالک کی مثالیں سامنے رکھتے ہوئے سوچنا ہو گا کہ یہ سب اگر اسی طرح چلتا رہا تو اس کی آخری حد کس کے مفاد میں جائے گی؟ اس سے کس کا نقصان ہو گا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنا گھر ہی اس نفرت کی آگ میں جل جائے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved