تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     04-12-2020

فری لانسنگ‘ معاشی ترقی کی روشن امید

ایک وقت تھا کہ پاکستان میں فری لانسر کو بیکار انسان سمجھا جاتا تھا‘ یہ رائے عام تھی کہ جسے کوئی کام نہیں آتا وہ فری لانسر بن جاتا ہے کیونکہ ملک بھر میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور چارٹرڈ اکائونٹینٹس کے علاوہ باقی تمام شعبے تقریباً بی یا سی کلاس ہی سمجھے جاتے تھے۔ پہلے پہل جو بچے کمپیوٹر پر کام کرتے تھے‘ وہ نالائق تصور ہوتے تھے اور کمپیوٹر پر بیٹھ کر فری لانسنگ کرنا تو یوں سمجھ لیجیے کہ بیکاری اور نالائقی کی تصدیق شدہ دو مہریں لگ گئی ہوں؛ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ حالات میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ خاص طور پر کورونا کی وجہ سے پاکستان میں آج کل کے حالات میں فری لانسنگ ایک نعمت کے طور پر سامنے آئی ہے جس نے نہ صرف گھروں کے بند چولہوں کو جلایا ہے بلکہ بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ فوربز میگزین کے مطابق کمائی کے لحاظ سے پاکستان فری لانسنگ گروتھ میں دنیا بھرمیں چوتھے نمبر پر ہے۔ امریکا 78 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر ہے‘ برطانیہ 59 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر، برازیل 48 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر اور پاکستان 47 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ اگر صرف ایشین ممالک کی بات کی جائے تو پاکستان پہلے نمبر پر آتا ہے یعنی پاکستان نے بھارت اور بنگلہ دیش کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ملک کو یہ اعزاز دلوانے والوں میں اکثریت 25 سال سے 34 سال تک کے نوجوانوں کی ہے۔ یہ اعداد و شمار پیاونیر نیٹ ورک پر موجود تین لاکھ پاکستانیوں کے ڈیٹا سے سیمپل کے طور پر حاصل کیے گئے ہیں۔ 2018ء میں پاکستان میں فری لانسرز کی تعداد 60 ہزار تھی جس میں ایک اندازے کے مطابق 42 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ دی گلوبل گگ اکانومی انڈیکس کے مطابق پاکستان میں فری لانسنگ سے حاصل آمدن میں 42 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں ایسے پاکستانیوں کی آمدن شامل نہیں ہے جو پاکستان میں بیٹھ کر فری لانسنگ سے آن لائن ڈالرز کماتے ہیں مگر اس رقم کو پاکستان منتقل کرنے کے بجائے بیرونِ ملک اکاؤنٹس میں ہی رکھتے ہیں۔ اگر ایسے افراد کو بھی شامل کر لیا جائے تو ممکن ہے کہ پاکستان دنیا میں فری لانسنگ کے حوالے سے دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر آنے میں کامیاب ہو جائے۔
میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ گروتھ ایسے حالات میں ہوئی ہے جب پاکستان میں آن لائن ادائیگیوں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک پے پال موجود نہیں ہے۔ قانونی راستہ استعمال کرتے ہوئے پاکستان سے ایمازون پر کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کامیابی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ سب سے پہلی وجہ شعور ہے اور وہ اس وقت تک نہیں آتا جب تک آپ کا واسطہ کسی ایسے شخص سے نہ پڑ جائے جو آپ کو سکھانے اور سمجھانے کے لیے مخلص ہو۔ آج کے پاکستانی بچوں میں فری لانسنگ کا شعور بیدار کرنے کی بات کی جائے تو ہمیں پاکستان کے پہلے فری لانسرز کا ذکر کرنا ہو گا۔ اصل کام پہلا قدم اٹھانا ہے۔ جب لوگ کسی شعبے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہوں ایسے وقت میں جا کر اسے سینے سے لگانا اور اس میں اپنا نام بنانا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ پاکستان میں سب سے پہلے نے نہ صرف انہوں نے فری لانسنگ کو اپنا کیریئر بنایا بلکہ لاکھوں پاکستانی بچوں کو مفت فری لانسنگ سکھانا بھی شروع کی۔ حکومت پاکستان کے ڈی جی سکلز پروگرام کے ذریعے بعض افراد نے ہزاروں لیکچرز بھی ریکارڈ کروائے اور دس لاکھ سے زائد بچوں کو فری لانسنگ کی تعلیم دی۔ سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے گھنٹوں لیکچرز دیے۔ یوٹیوب چینل بنائے اور آج بیس سال بعد بھی مفت سکھانے کا یہ عمل جاری ہے۔ ہزاروں کامیاب کہانیاں انہی کی بدولت ہیں۔ جو نوجوان آج بھی مفت میں فری لانسنگ سیکھنا چاہتے ہیں وہ ان کے یوٹیوب چینلز پر جا کر سیکھ سکتے ہیں۔
دوسری وجہ پاکستان کے حالات ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سروس چارجز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر آپ ایک لوگو بنوانا چاہتے ہیں تو نیویارک میں شاید اس کا ریٹ دو ہزار ڈالر تک ہو لیکن اگر آپ فائیور یا اَپ ورک پر جا کر وہی لوگو بنوانا چاہیں تو پاکستان میں بیٹھا ہوا فری لانسر آپ کو ایک ہزار ڈالر میں بنا دے گا جو کہ پاکستانی ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے بنیں گے۔ وہ یہ کمائی صرف چند دن کی محنت سے کر لے گا جبکہ پاکستان میں پورا مہینہ نوکری کرنے والا پڑھا لکھا شخص بھی اوسطاً بیس سے تیس ہزار روپے کما پاتا ہے۔ کرنسی ریٹ کے فرق سے جہاں امریکیوں اور یورپی افراد کو کم پیسوں میں بہترین سروس مل جاتی ہے وہیں پاکستانی اپنی تنخواہ سے کئی گنا زیادہ پیسے کما لیتے ہیں۔ ان حالات میں کون نوکری کرنا چاہے گا؟ نہ آفس جانے کا جھنجھٹ، نہ وقت کی بندش اور نہ ہی روبوٹ کی طرح ہر وقت کام کرنا پڑتا ہے۔ آپ لیپ ٹاپ کھولتے ہیں اور پوری دنیا کی کمپنیاں کام لے کر آپ کے سامنے آن موجود ہوتی ہیں۔ انسانی تاریخ میں قابل انسان کے لیے روزگار ڈھونڈنا شاید کبھی اتنا آسان نہیں رہا ہو گا۔ آپ جو کر سکتے ہیں‘ اس کاانتخاب کریں، پیسے کمائیں اور لیپ ٹاپ بند کر کے سو جائیں۔ آپ آزاد ہیں اور کامیاب بھی۔
تیسری وجہ کورونا ہے۔ جب سے دنیا کی ملاقات کووڈ 19 سے ہوئی ہے‘ کاروبار دکانوں اور شاپنگ مالز سے نکل کر ویب سائٹس پر منتقل ہو گئے ہیں۔ جو پریزنٹیشن دکان پر کی جاتی تھی اب ان کا مرکز آن لائن سٹورز ہیں‘ جہاں آپ کو گرافک ڈیزائنر سے لے کر ڈیٹا آپریٹر تک آن لائن سٹاف کی ضرورت پڑتی ہے۔ گو کہ کورونا آنے کے بعد کمپنیاں بند ہونے سے بین الاقومی کمرشل کلائنٹس میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن یہ اتنی بڑی مارکیٹ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق اگر پورا پاکستان بھی فری لانسنگ شروع کر دے پھر بھی کام بچ جائے گا۔ کووڈ کے بعد پوری دنیا میں بے روزگاری بڑھی ہے۔ پاکستان بھی اس کے اثرات سے بچ نہیں پایا۔ گو کہ باقی ممالک کی نسبت پاکستان کی معاشی کارکردگی بہتر رہی ہے لیکن جن کی نوکریاں ختم ہوئی ہیں‘ ان میں سے اکثریت کا رجحان فری لانسنگ کی طرف ہی گیا ہے اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ برآمدات بڑھانا اور ڈالر کی قیمت کو نیچے لانا ہے تاکہ ملک میں مہنگائی کم ہو اور عام آدمی کی زندگی بہتر ہو سکے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے فری لانسنگ پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ اسے سکول، کالجز اور یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ بنائے۔ ماہانہ بنیادوں پر سیمینارز اور ورکشاپس منعقد کروائی جائیں۔ بیرونِ ملک سے کامیاب ٹرینرز کو پاکستان بلایا جائے۔ پاکستان میں فری لانسنگ کے ماہرین کو وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی میں نمائندگی دی جائے۔ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے پلیٹ فارم کو استعمال کر کے فری کورسز کا اہتمام کیا جائے اور چھ ماہ بعد رپورٹ جاری کی جائے کہ ان کورسز سے بچوں کو کوئی فائدہ بھی پہنچا ہے یا پھر گونگلوئوں پر صرف مٹی ہی جھاڑی گئی ہے۔ سب سے زیادہ سالانہ ڈالرز کمانے والے پاکستانیوں کو رول ماڈل بنا کر پیش کیا جائے اور میڈیا پر ایک بھرپور آگاہی مہم لانچ کی جائے۔ حکومت کی تھوڑی سی توجہ ایسے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہے جن کے پاس وسائل نہیں ہیں یا جنہیں کیریئر کی درست سمت کا انتخاب کرنے میں کنفیوژن اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ملک کے نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان کو فری لانسنگ میں چوتھے نمبر پر لا سکتے ہیں تو حکومتی توجہ سے پہلے نمبر پر آنے کی امید تو باندھی ہی جا سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved