کہتے ہیں محبتوں میں ایک محبت نظریے کی ہے جو ہر محبت کی طرح قربانی مانگتی ہے اور محبت کرنے والوں کو آزمائش کی خاردارراہوں سے گزارتی ہے اور پھر وہ ان سنگلاخ راہوں پر چلتے چلتے اجل کی وادی میں اُتر جاتے ہیں۔یہ بھی ایسے ہی آشفتہ مزاجوں کی کہانی ہے جس کا آغاز امریکہ کے شہر نیویارک سے ہو تا ہے‘ جہاں جولیس (Julius Rosenberg) اور ایتھل (Ethel Rozenberg ) رہتے تھے۔ ان کی شادی 1939ء میں ہوئی تھی ۔جولیس ایک الیکٹریشن تھا لیکن ذہنی طور پر پختہ سوچ کا مالک۔ کمیونزم کا نظریہ اس کے رگ و پے میں سمایا ہوا تھا۔ اسی دوران اس کی ملاقات ایتھل سے ہوئی۔ وہ خوب صورت تو تھی ہی لیکن اس کی کشش کا اصل سبب کمیونزم سے اس کی دلچسپی تھی۔ جب 1940ء میں جولیس آرمی سگنل کور سے وابستہ ہوا تو اس کی سرگرمیاں زیرِ زمین چلی گئیں۔ پانچ سال کا عرصہ گزر گیا اس دوران جولیس انتہائی احتیاط اور راز داری کے ساتھ حساس معلومات روس بھیجتا رہا ۔ ان معلومات کا تعلق ریڈار اور ایئر کرافٹ ٹیکنالوجی سے تھا۔
ایتھل اور جولیس کے درمیان نظریے کا بندھن تھا۔ دونوں ایک ایسی فکر کے اسیر تھے جس میں معاشرے میں سماجی تفریق کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی اور امارت اور غربت کی حد بندیاں بھی نہیں تھیں۔قدرت نے جولیس کو ایک ایسی جگہ تک رسائی دے دی تھی جہاں کی خفیہ معلومات وہ اپنے خوابوں کی جنت روس بھیج کر اپنے خوابوں میں رنگ بھرنا چاہتا تھا‘لیکن یہ سلسلہ اس وقت رُک گیا جب شک کی بنا پر اس کی نگرانی کی جانے لگی اور پھر 1950ء میں اس کو گرفتار کر لیا گیا۔اسی دوران اس نے ایتھل کے بھائی Greenglass‘ جو مین ہیٹن پراجیکٹ پر کام کرتا تھا‘کو بھی حساس محکمے میں نوکری دلادی تھی۔ گرین گلاس نے اس سے فائدہ اُٹھایا اور اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹس اور ڈرائنگزجولیس تک پہنچاتا رہا جنہیں وہ سوویت یونین تک منتقل کرتا رہا۔
جیل میں جولیس پر طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے کہ وہ ان ساتھیوں کے نام بتا دے جن کے ساتھ اس کے رابطے تھے‘ لیکن جولیس نے سب کچھ برداشت کیا مگر اپنی زبان نہ کھولی۔ پھر اسے یہ پیشکش بھی کی گئی کہ اگر وہ ساتھیوں کے نام بتا دے تو معافی مل سکتی ہے ‘ لیکن جولیس کی خاموشی برقرار رہی ۔اب تفتیش کا روں نے جولیس کی بیوی ایتھل کو اپنے تفتیشی سوالوں کا نشانہ بنا لیا ‘لیکن ایتھل بھی نظریے کی محبت میں جولیس سے جڑی ہوئی تھی۔ اس نے تمام تفتیشی ہتھکنڈوں کا سامنا کیا لیکن تفتیش کاروں کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی کہ وہ اپنے خاوند کے خلاف گواہی دے۔ ایک طرف زندگی تھی اور دوسری طرف اپنے نظریے اور خاوند سے محبت۔ ایتھل نے تفیش کاروں کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ تفتیش کار اب جھنجلاہٹ کا شکار ہو رہے تھے۔ انہیں ہر حال میں جولیس کو عبرت کا نشانہ بنانا تھا۔اس سارے واقعے کا پس منظر یہ تھا کہ امریکہ نے ایٹم بم بنا لیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ روس کو مہارت کی اس سطح پر پہنچنے کے لیے ایک عرصہ درکار ہوگا‘لیکن وہ اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب چند برس بعد روس نے بھی ایٹم بم بنا لیا۔ اپنی خفت کم کرنے کے لیے اب ضروری تھا کہ یہ تاثر قائم کیا جائے کہ روسی سائنس دان تو اس قابل نہیں تھے کہ وہ ایٹم بم بنا سکیں یہ صرف اس لیے ممکن ہوا کہ جولیس نے امریکہ کے ایٹمی راز روس تک پہنچا دیے۔ یوں جولیس کے سر کی قربانی امریکی حکومت کی خفت مٹانے کے لیے ضروری تھی۔ لیکن جولیس اور ایتھل نے اپنے ہونٹ سی لیے تھے۔اب صرف ایک امید باقی تھی وہ David Greenglass تھا‘ جو ایتھل کا بھائی تھا اور جسے جولیس نے ایک حساس محکمے میں ملازمت دلائی تھی اور جو جاسوسی کے عمل میں اس کا ساتھی تھا۔ ڈیوڈ پر تفتیش کاروں نے دباؤ ڈالا اور اسے بتایا کہ وہ بُری طرح پھنس چکا ہے اور اگر وہ جان کی امان چاہتا ہے تواپنی بہن کے خلاف گواہی دے کہ وہ اپنے خاوند جولیس کی سرگرمیوں میں برابر کی شریک تھی۔ ڈیوڈ تفتیش کاروں کا دباؤ برداشت نہ کر سکا اور جھوٹی گواہی دے دی کہ اس کی بہن جولیس کے لیے دستاویزات ٹائپ کرتی تھی۔ یہ تفتیش کاروں کی چال تھی تاکہ اس گواہی کی روشنی میں ایتھل پر دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ اپنے خاوند جولیس کے بارے میں جاسوسی کرنے کی گواہی دے‘لیکن ایتھل نے اس کے باوجود جولیس کے خلاف گواہی دینے سے انکار کر دیا۔ نتیجے کے طور پر ایتھل کو سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ وہ 19جون 1953ء کا دن تھا جب جولیس اور ایتھل روزنبرگ کو نیویارک کی Sing Sing جیل میں الیکٹرک چیئر کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتا ر دیا گیا۔ یہ امریکی تاریخ کا انوکھا واقعہ تھا جس میں سویلنز کو موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
ان کی موت کی سزا پر دنیا کے مختلف حصوں میں احتجاج ہوا لوگ اس سارے مقدمے کو حکومت اور عدالت کا گٹھ جوڑ قرار دے رہے تھے۔ اس ردِ عمل کے کئی رنگ تھے۔ ایتھل اور جولیس روزنبرگ کی موت کے بعد 15 مئی 1954ء کوفیض صاحب نے منٹگمری جیل میں اپنی یادگار نظم '' ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘ لکھی تھی جو ان کے مجموعے ''زنداں نامہ ‘‘میں شامل ہے۔ اس نظم سے پہلے ایک تعارفی سطر ہے۔
(ایتھل اور جولیس روزن برگ کے خطوط سے متاثر ہو کر لکھی گئی)
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوںکی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوںکی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے‘لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل‘ دل میں قندیل ِغم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوںمیں مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کرچلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
کہتے ہیں محبتوں میں ایک محبت نظریے کی ہے جو ہر محبت کی طرح قربانی مانگتی ہے اور محبت کرنے والے کو آزمائش کی خاردارراہوں سے گزارتی ہے اور پھر وہ ان سنگلاخ راہوں پر چلتے چلتے اجل کی وادی میں اتر جاتے ہیں۔