پشاور چھائونی سے ملحق وارسک روڈ کے کشادہ ''وحدت ہائوس‘‘ میں سنگ و خشت اور در و دیوار تو اپنی جگہ پر تھے، لیکن سب کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا تھا۔ مسکراہٹوں اور کھلکھلاہٹوں کی جگہ اُداسی نے لے رکھی تھی۔ گمبھیر خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ وہ شخص نظر نہیں آ رہا تھا، جس نے مکین بن کر اس مکان کو عزت دی تھی۔ یہ گھر اُسی کے نام سے منسوب تھا اور اسی نسبت نے اُسے مرجع خلائق بنا دیا تھا۔ اس کے پہلو میں چھوٹی سی مسجد سے اذان کی آواز بھی بلند ہو رہی تھی، لیکن رکوع و سجود بجا لانے والوں میں وہ شخص نہیں تھا، جس کے وفورِ شوق نے اس کی بنیاد رکھی تھی، اسے سجایا اور سنوارا تھا۔ اللہ کا گھر ماشاء اللہ آباد تھا اور اس سے جڑے ہوئے مکان میں بھی آمد و رفت جاری تھی، لیکن ہر شے میں کسی شے کی کمی نظر آ رہی تھی۔ وہ شخص ہماری دسترس میں نہیں رہا تھا، جس نے اس تعمیر کا خواب دیکھا اور اسے تعبیر دی تھی۔ پیر سفید شاہ نے ٹھکانہ بدل لیا تھا، چائو سے بنائے ہوئے گھر کو چھوڑ کر پشاور گارڈن کے ایک ٹکڑے میں جا بسے تھے۔ چند برس پہلے وہ جلد آنے کا وعدہ کر کے اپنی اہلیہ کو وہاں چھوڑ آئے تھے، چند روز پہلے وعدہ نبھانے وہاں جا چکے تھے، اور خاک کی چادر اوڑھ کر کھلے آسمان تلے سو رہے تھے، اب ان کا ٹھکانہ یہی رہے گا، اس کا پتا تبدیل نہیں ہو گا، ہاں باغ بہشت کا معاملہ دوسرا ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کو بالآخر وہیں جا بسنا ہے اور قرآن کریم کے الفاظ میں ہمیشہ وہیں رہنا ہے۔
پیر صاحب مرحوم کو اللہ نے چھ بیٹے اور چار بیٹیاں عطا فرمائیں۔ ان کے صحافتی جانشین ہارون شاہ ہیں، جو اُن کی زندگی ہی میں اخبار کا انتظام و انصرام سنبھال چکے تھے۔ دو بیٹے بیرون ملک ہیں، جبکہ دوسرے بیٹے اور پوتے پوتیاں پشاور ہی کی رونق ہیں۔کرنل ڈاکٹر دائود شاہ‘ جو طائف میں مقیم ہیں، یہاں موجود تھے۔ پیر صاحب کے داماد حکمت شاہ، ہارون شاہ کے بیٹے عبداللہ ہارون اور ولی اللہ ہارون بھی دم بخود بیٹھے تھے۔ عزیزان عمر شامی اور عثمان شامی میرے ساتھ ہی حاضر ہوئے تھے۔ صوبائی محکمہ اطلاعات کے اعلیٰ افسران جناب بہرہ مند اور جناب امداد اللہ بھی تشریف لے آئے تھے۔ ایک قومی اخبار کے منتظم شہباز چیمہ کے علاوہ چند دوسرے حضرات بھی اپنے وجود کا احساس دِلا رہے تھے۔ ہم سب نے ہاتھ اٹھائے اور پیر سفید شاہ کے لئے التجا کرنے میں مصروف ہو گئے۔ اے ہمارے رب، ہمارے اِس بزرگ کی، چچا کی، دادا کی، بھائی کی، ساتھی کی مغفرت فرما دے کہ اُس نے تیرا کلمہ بلند کرتے عمر گزاری۔ کسی کا دِل نہیں دکھایا، کسی کو دُکھ نہیں پہنچایا، جو میٹھے بول بولتا اور عاجزی سے چلتا تھا، انکسار جس کی طاقت اور ملنساری جس کی دولت تھی، جو وحدت کی علامت تھا، جسے تفریق سے، انتشار سے نفرت تھی۔ اے ہمارے رب، اُس کی کوتاہیوں سے درگزر فرما، اُس کی لغزشوں کو معاف کر دے اور اُس کے ساتھ وہ سلوک فرما، جس کا تُو نے اپنے فرماں برداروں سے وعدہ کر رکھا ہے۔ اے ہمارے رب، اُس کے جانشینوں کو اُس کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور ہم سب کو اُس راستے پر چلنے کی استطاعت اور ہمت عطا فرما جو تیرا راستہ ہے، جو سلامتی کا راستہ ہے، جو تیری رضا کا راستہ ہے، جو توحید کا راستہ ہے، جو ''وحدت‘‘ کا راستہ ہے۔
یہ چھوٹی سی مجلس مرحوم پیر صاحب کے ایک تعزیتی ریفرنس کی سی صورت اختیار کر گئی تھی۔ نومبر کی پچیس تاریخ کو وہ اِس دُنیا سے رخصت ہوئے تھے، 64 برس پہلے نومبر ہی کی 27 تاریخ کو بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان نے اس عالمِ فانی کو خیرباد کہا تھا۔ ان دونوں ''بابائوں‘‘ میں قدرِ مشترک یہ تھی کہ دونوں ملت اسلامیہ کے لیے سوچتے تھے، اس کے اتحاد اور وحدت کا خواب دیکھتے تھے۔ پیر سفید شاہ ہمدرد کا تذکرہ چھڑا تو اُن کے بیٹے ہارون بتانے لگے کہ وہ بہت اچھے شاعر تھے، اُن کے پشتو کلام کی دھوم تھی، لیکن ایک دن میری والدہ نے قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے شعراء کا تذکرہ پڑھا تو سارے کلام کو آگ لگا دی۔ پیر صاحب کا تخلص ہمدرد تھا، لیکن اُن کی شاعری کے ساتھ ''بے دردی‘‘ سے نمٹا گیا تو انہوں نے نثر نگاری کو اپنا لیا، حالانکہ سمجھایا جا سکتا تھا کہ قرآن کریم نے ان شعرا کی مذمت کی ہے، جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اپنا یہ جوہر آزماتے تھے، اطاعت کرنے والوں کو استثنا حاصل تھا، ان کے لئے رحمت و برکت تھی، لیکن نوجوان سفید شاہ کسی بحث میں نہیں اُلجھے اور رخ صحافت کی طرف موڑ لیا۔ شاعروں کو چھاپتے اور اُجالتے تو رہے، خود شعروں کے حوالے سے مانے گئے نہ جانے گئے۔ ان کے کلام کے کچھ نمونے البتہ اب بھی کہیں نہ کہیں ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔
نوجوان سفید شاہ اخبار کے رپورٹر بنے اور پھر ''وحدت‘‘ کے نام سے اپنا ہفت روزہ شروع کر لیا۔ یہ ہفت روزہ ستر کی دہائی میں روزنامے میں تبدیل ہوا۔ یہ پشتو کا پہلا مکمل اخبار تھا، جس کے قارئین کا حلقہ وسیع ہوتا گیا۔ پشاور سے کابل تک اس کا انتظار کیا جاتا، اور دونوں ممالک کے درمیان یہ وحدت اور اُخوت کا پیغام عام کرتا... جہادِ افغانستان کے دوران ''میرا قلم بھی جنگ میں تلوار ہو گیا‘‘ کے مصداق یہ روزنامہ اپنے مجاہدانہ کردار کی بدولت ممتاز ہوا۔ پیر سفید شاہ جنرل ضیاالحق کے تو محبوب تھے، لیکن وہ کسی کے بھی معتوب نہ ٹھہرے کہ شائستگی اور سنجیدگی کے ساتھ صحافیانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوتے عزت اور احترام سمیٹتے رہے۔ مدیران و مالکان اخبارات کی اکثر نشستوں میں تلاوت کا شرف اُنہی کو حاصل ہوتا، اُن کے بغیر ایسی ہر مجلس سونی اور ادھوری نظر آتی۔ پیر صاحب آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) میں سرگرم کردار ادا کرتے رہے، مرکزی عہدیداران میں شامل رہے۔ جب تک صحت نے اجازت دی مقامی کمیٹیوں کی صدارت بھی ان کے اشارے کی محتاج ہوتی، اور ان کی مہر کے بغیر کوئی مقامی اخبار قومی تنظیمات میں داخل نہیں ہو پاتا تھا۔ اُنہیں صدارتی تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا، تمغۂ امتیاز عطا ہوا، پشتو عالمی کانفرنس نے بابائے پشتو صحافت کا خطاب پیش کیا، افغانستان کا صدارتی ایوارڈ اُن کی نذر کیا گیا۔ اے پی این ایس کے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے مستحق بھی ٹھہرے۔ ''وحدت‘‘ نوجوان اخبار نویسوں اور شاعروں کے لئے اکیڈمی کی حیثیت اختیار کر گیا، اس میں تربیت حاصل کرنے والے متعدد نوجوانوں نے قومی صحافت میں نام پیدا کیا۔
پیر صاحب مرحوم نے نوے سال اُس دُنیائے رنگ و بو میں گزارے، اپنے نام کی لاج رکھی۔ سفید شاہ تھے، سفید شاہ رہے اور سیاہی سے بیزار رہے، اسے سفیدی سے روشناس کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ اُن سے محبت کا خصوصی تعلق قائم رہا، اُن کی دُعائیں مسلسل ہمارے رفقا پر، ہمارے اداروں پر سایہ فگن رہیں... پاکستان اور اس کے سربکف مجاہدین کو انہوں نے ٹوٹ کر چاہا، پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے لئے مانگی گئی اُن کی دعائیں اب تک کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔ وہ روزنامہ ''وحدت‘‘ کے مالک اور چیف ایڈیٹر تھے لیکن سراپا ''وحدت‘‘ بن گئے۔ پشاور اور لاہور کے درمیان اسلام آباد اور کابل کے درمیان وہ ''وحدت‘‘ اور اخوت کے علم بردار تھے، پیغام بر تھے۔ آخری سانس تک ان کا ترانہ یہی تھا ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
''وحدت‘‘ کی اس علامت کو ہمارا سلام، بار بار سلام، ہزار بار سلام۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)