1998 میں ملتان سے ٹرانسفر ہو کر اسلام آباد آیا تو خوفزدہ تھا کہ کیا خبریں ہوں گی اور کیسے نکلوائوں گا۔ اسلام آباد میں جاننے والا کوئی نہیں تھا۔ دوست انجم کاظمی نے پنڈی میں اپنے عزیز کے ہاں کچھ دن ٹھہرنے کا بندوبست کرا دیا۔
جب ڈان کے ایڈیٹر احمد علی خان نے تبادلہ کرکے میری زندگی ہی بدل دی تو ساتھ یہ بھی کہا: اسلام آباد جاکر بیوروچیف ضیاالدین سے مل لیں‘ بڑے اچھے انسان ہیں۔ ضیا صاحب سے پوچھا: یہاں کیا رپورٹنگ کرنی ہے۔ ضیا صاحب نے کہا: تم زراعت کی بیٹ پر کام کرو‘ بہت اہم ہے‘ یہاں اس بیٹ کو کوئی نہ جانتا ہے‘ نہ دلچسپی ہے‘ یہ میدان خالی ہے۔
میں نے کبھی کسی کام کو چھوٹا یا بڑا نہیں سمجھا۔ میرا اپنے بارے میں خیال ہے کہ اگر کہیں sweeper کی بھی نوکری ملتی تو میں اتنی محنت سے صفائی کرتا کہ آنے جانے والا ایک دفعہ تو رک کر پوچھتا: یار اس دفتر میں صفائی کون کرتا ہے؟ اور پھر مجھے ڈھونڈ کر شاباش دے کر جاتا۔ خیر میں زراعت کی بیٹ میں جت گیا۔ پھر خدا کی قدرت دیکھیں وہیں ڈان میں رپورٹنگ کرتے ہوئے کئی سکینڈلز ہاتھ لگے۔ اے پی این ایس کے بہترین رپورٹر کا اعزاز اور ایک لاکھ روپیہ انعام بھی ملا۔
ضیا صاحب نے ڈاکٹر ظفر الطاف کا بتایا جو وزارت زراعت کے سیکرٹری تھے۔ اگلے دن ان سے ملنے دفتر گیا۔ ان کے پی ایس انور کو چٹ دی کہ ڈاکٹر صاحب سے ملنا ہے۔ انور نے کہا: جائیں مل لیں۔ میں نے کہا: چٹ بھیجیں‘ وہ بلائیں گے تو جائوں گا‘ ورنہ انتظار کر لیتا ہوں۔ وہ بولا: تو پھر شام تک انتظار کرتے رہیں‘ ڈاکٹر صاحب کے دفتر چٹ نہیں چلتی۔ میں نے انور کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اتنی دیر میں دفتر کا دروازہ کھلا‘ ڈاکٹر صاحب نے باہر جھانکا‘ مجھے دیکھ کر بولے: بھائی جان آپ کدھر؟ میں نے کہا: جی‘ آپ سے ملنے آیا ہوں۔ بولے: پھر آ جائو چلیں لنچ کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر دروازہ بند کر دیا۔ میں وہیں کرسی پر پھر بیٹھ گیا۔ انور نے مجھے کہا: سرکار آپ کو ڈاکٹر صاحب نے بلایا ہے اور آپ پھر بیٹھ گئے۔ میں نے کہا: مجھے بلایا ہے؟ انور بولا: سرکار‘ آپ کو ہی لنچ کے لیے بلایا ہے‘ وہ اس وقت لنچ کرنے باہر جاتے ہیں۔ میں کھڑا ہوا تو دفتر کا دروازہ دوبارہ کھلا‘ ڈاکٹر صاحب پھر نمودار ہوئے اور مجھے کہا: بھائی جان آپ کا انتظار ہورہا ہے۔
اٹھارہ برس کے تعلق میں انہیں کسی دوپہر اکیلا کھانے کھاتے نہ دیکھا۔ جب تک درجن بھر لوگ ان کے دسترخواں پر نہ ہوتے وہ کھانا نہ کھا پاتے۔ ہر مہمان کی پلیٹ میں کھانا ڈالتے۔ پہلے سوپ پلاتے جو وہ ہر دفعہ اپنی دیسی ترکیب سے تیار کراتے تھے۔ جب سالن کا ڈونگا ان تک واپس پہنچتا‘ اکثر خالی ہو چکا ہوتا۔ کئی دفعہ دیکھا‘ اچانک مہمان آگئے تو سب کھانا انہیں کھلا دیا۔ ایسے موقع پر بعد میں خود انڈہ بنوا کر کھا نا کھاتے تھے۔
زندگی میں بڑے لوگ ملے لیکن ڈاکٹر ظفر الطاف جیسا کوئی نہ ملا۔ انہیں جتنا کسانوں اور کمزوروں کے حقوق کے لیے لڑتے دیکھا‘ شاید کوئی اور کبھی لڑا ہو۔ کسانوں کی وجہ سے جنرل مشرف نے انہیں وفاقی سیکرٹری کے عہدے سے ہٹا دیا کیونکہ انہوں نے اپنی وزارت میں ایک سیل قائم کردیا تھا کہ اگر ٹیکسٹائل ملوں والے سیٹھ کاٹن گرورز کو اچھی قیمت نہیں دیں گے تو وہ ان کی کپاس خود بیرون ملک اچھے ریٹ پر بکوا کر انہیں ڈالروں میں پیسے لے کر دیں گے۔ وہ کہتے: کسانوں کی فصلیں سستے داموں خرید کر مل مالکان نے ایک سے دس ملیں لگالی ہیں جبکہ کسان آج بھی کھیت میں وہی دھوتی پہنے کھڑا ہوتا ہے۔ رازق دائود‘ جو اس وقت کامرس کے وزیر تھے‘ شوکت عزیز کو لے کر مشرف سے ملے کہ یہ سیکرٹری تو بغاوت پر اتر آیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو بلا کر کہا گیا کہ وہ یہ سیل بند کردیں۔ وہ ڈٹ گئے اور بولے: پھر کسانوں کو اچھا ریٹ لے کر دیں۔ اس پر ہٹا دیئے گئے۔
ایک دفعہ بلوچستان کے کسانوں کی فصل خراب ہوگئی تو ای سی سی میں سمری لے گئے کہ بلوچ پختون غریب کاشتکار ہیں‘ ان کا بوجھ آپ اٹھائیں اور ان کی ساری فصل خرید لیں۔ شوکت عزیز نے ٹالا اور کہا: چلیں رپورٹ منگوا لیں گے۔ اس پر ظفرالطاف بھڑک گئے اور شوکت عزیز کو بھرے اجلاس میں کہا: جب آپ کا ایک وفاقی سیکرٹری کہہ رہا ہے تو آپ کو اس پر اعتبار نہیں ‘ اب میں کوئی نجومی پکڑ کر اس اجلاس میں لائوں جس کی بات کا آپ کو اعتبار ہوگا۔ وہ بلوچستان کے کسانوں کیلئے زبردستی فیصلہ کرا کے اٹھے۔
بینظیر بھٹو سے لے کر نواز شریف اور جنرل مشرف تک سب کی حکومتوں میں سیکرٹری رہے اور ہر ایک کے ساتھ محاذ کھولا۔ کابینہ کے اجلاسوں میں سب سے لڑے۔ سب کو شکایت رہتی کہ وہ رولز کی پروا نہیں کرتے۔ مرضی کرتے ہیں۔ وہ بولتے زراعت کو سرکاری قوانین پر نہیں چلایا جا سکتا۔ ان کے ہر دور میں زرعی گروتھ ہمیشہ اوپر گئی۔
ان کے ساتھ حکمرانوں نے ان کے مزاج کی وجہ سے بڑی زیادتیاں کیں۔ شہباز شریف کے بچوں نے دودھ کے کاروبار کے لیے لاہور کی مارکیٹ پر قبضہ کرنا تھا تو ادارہ کسان کے دودھ 'ہلا‘ جس کے وہ اعزازی چیئرمین تھے‘ پر کریک ڈائون ہوا۔ ان کے لوگوں کو شہباز شریف کی شہ پر گرفتار کیا گیا اور ڈاکٹر صاحب ان کی مدد کو گئے تو انہیں شہباز شریف نے پیغام بھجوایا: آپ دور رہیں ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب اس دھمکی پر مسکرا دیئے۔ شہباز شریف نے ان پر بہتّر سال کی عمر میں اینٹی کرپشن میں مقدمے درج کرائے‘ جس کا انہیں بڑا افسوس رہا اور وہ کہتے: یار میرے والد اتفاق فائونڈری کے وکیل تھے اور برسوں سے تعلق تھا۔ ان دونوں بھائیوں نے ایک لمحہ بھی اس تعلق کا خیال نہیں رکھا۔
اسی طرح جنرل مشرف دور میں نیب ان پر دبائو ڈالتا رہاکہ بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف بیلاروس ٹریکٹر کی درآمد کے معاملے میں وعدہ معاف گواہ بنیں‘ ورنہ ان پر مقدمہ قائم ہوگا۔ ہنس کر بولے: میری ماں نے وہ دودھ نہیں پلایا کہ کسی خاتون کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنوں‘ وہ کیس زداری‘ بینظیر پر نہیں بنتا‘ میں سیکرٹری تھا‘ میں نے فیصلے کیے تھے‘ جس سے کسانوں کو پاکستانی مارکیٹ کے چھ سات لاکھ روپے مہنگے ٹریکٹر کے بجائے ڈیڑھ لاکھ میں گھر بیٹھے ملا۔ انکار پر ان پر درجن بھر مقدمے بنا دیے گئے۔ یہ اور بات کہ جب وہی زرداری صدر بنے تو ایک دن ان کی سیاسی خاتون سیکرٹری نے کچھ ٹرانسفر پوسٹنگ کی سفارش کی تو انکار کر دیا۔ اسی شام عہدے سے ہٹا دیے گئے۔ اتفاقاً اگلے دن احتساب عدالت میں زرداری اور بینظیر بھٹو والے مقدمے کی سماعت تھی۔ وہاں وہی پہلے والی گواہی دی۔ کوئی اور ہوتا تو برطرفی کے بعد زرداری کو پھنسا دیتا۔ میں نے پوچھا تو بولے: وہی کہا جو سچ تھا۔
جنرل مشرف دور میں سیکرٹری کے عہدے سے ہٹائے گئے تو دفتر میں مجھے کہا: بھائی جان آپ کی گاڑی کدھر ہے‘ مجھے ذرا گھر تک ڈراپ کر دیں۔ مجھے شرمندگی ہوئی کہ اب وفاقی سیکرٹری میری چھوٹی سی پرانی گاڑی میں بیٹھیں گے لیکن وہ ایسے بیٹھے جیسے مرسیڈیز ہو۔ گھر پہنچے تو بیگم صاحبہ انہیں میری گاڑی سے اترتے دیکھ کر ہنس پڑیں اور کہا: ظفر پھر او ایس ڈی بن کر آگئے ہو۔ بولے: چھوڑو یار‘ رئوف اور میرے لیے چائے بنائو۔
یہ تھے ہمارے ڈاکٹر ظفر الطاف جو پانچ دسمبر 2015 کو رخصت ہوئے۔ ان جیسا کوئی نہ تھا۔ غیرمعمولی بیوروکریٹ، کتابوں کا رسیا، انسان دوست اور بہادر انسان رخصت ہوا۔ کبھی نہ سوچا تھا‘ وہ اتنی جلدی چلے جائیں گے۔ ایک پڑھے لکھے، خوبصورت دماغ، بہادر انسان کے بغیر زندگی بسر تو ہو رہی ہے لیکن یقین کریں ان کے بغیر دل اداس ہے‘ اور سنا ہے انسان موت سے نہیں مرتے انہیں اداسی مار دیتی ہے۔