تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     06-12-2020

سُستی اور پُھرتی کا حسین امتزاج

میرے ایک قاری ہیں جو میرے کالموں پر کبھی کبھار تبصرہ کرتے رہتے ہیں لیکن میرے کالم کا موضوع کوئی بھی ہو وہ اپنی میل میں صرف ایک ہی بات کا ذکر کرتے ہیں۔ اب ان کا نام کیا لکھنا! آپ انہیں عبداللہ تصور کر لیں۔ میرا کالم ملتان کی سڑکوں کی خراب حالت پر ہو یا سوئی گیس کی رات بھر کی لوڈ شیڈنگ پر‘ ملتان میں جلسے پر ہو یا حکومت کی بدانتظامیوں پر‘ ان کی ای میل کا موضوع سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے خلاف ہونے والی انکوائری پر عملدرآمد نہ ہونا ہوتا ہے۔ وہ ہر میل میں یہ گلہ کرتے ہیں کہ کئی فورمز پر ہونے والی مختلف انکوائریوں کے بعد بھی کوئی ایکشن نہیں ہورہا‘ آخری انکوائری بھی وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے دفتر میں کہیں دبی پڑی ہے اور اسی اثناء میں وائس چانسلر کی مدت ختم ہونے کے قریب آتی جا رہی ہے لیکن اس کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی معرض التوا کا شکار ہے۔ قاری کا کہنا ہے کہ اپنے خلاف ہونے والی انکوائری پر عملدرآمد کو رکوانے کیلئے الزام علیہ کبھی ذاتی شنوائی (پرسنل ہیئرنگ) کے نام پر غچہ دے دیتا ہے اور کبھی نئی انکوائری کمیٹی بنوانے کی غرض سے درخواست بازی کرکے وقت گزارے جارہا ہے۔ ان تمام باتوں کے بعد میرا قاری ہربار مجھ سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا وزیراعلیٰ میں کسی کرپٹ شخص کے خلاف فیصلہ دینے کا حوصلہ نہیں یا وہ ہرکام کو محض لٹکانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے؟
ایمانداری کی بات ہے کہ میں اپنے اس قاری کی ساری باتوں سے متفق ہوں کہ میں اس موضوع پر خود بھی ایک عدد تفصیلی کالم لکھ چکا ہوں مگر جناب وزیر اعلیٰ پر اس کالم کا بھی رتی برابر اثر نہیں ہوا۔ ایک اعلیٰ سطح کی قائم کردہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ‘ جس میں وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی پر لگائے جانے والے کرپشن، اقربا پروری اور بدانتظامی کے الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی سفارش کی تھی‘ وزیراعلیٰ کے دفتر میں مہینوں سے کہیں دبی پڑی ہے اور وزیراعلیٰ بھی غالباً اسی انتظار میں ہیں کہ وائس چانسلر کی مدت اپنے اختتام کو پہنچے اور انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کو داخل دفتر کر دیا جائے؛ تاہم یہ کام کسی روایتی سستی کے تحت نہیں ہو رہا بلکہ میرا خیال ہے کہ جان بوجھ کر ایسا کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ عاجز جناب وزیر اعلیٰ کی پھرتیاں بھی دیکھ چکا ہے‘ جو اتنی پُراثر اور تیز تھیں کہ یہ فقیر تو حیران ہی رہ گیا۔
وزیراعلیٰ نے ملتان کا آخری سرکاری دورہ مورخہ سولہ ستمبر کو کیا تھا جبکہ غیرسرکاری دوروں کا مجھے علم نہیں کہ وہ اکثر تونسہ آتے جاتے، اپنے عزیزوں سے ملنے اور کام کی زیادتی کے باعث ہونے والی تھکن اتارنے کے لیے ملتان میں غیرسرکاری دورے پر آتے رہتے ہیں۔ مجھے توان کا ایک غیر سرکاری دورہ بھی صرف ان کی پھرتیوں کے باعث یاد رہ گیا جو انہوں نے گزشتہ ماہ کی پندرہ تاریخ کو کیا تھا اور اس میں نشتر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور ملتان ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کو فارغ کرکے واپس لاہور چلے گئے تھے۔ ہردو اصحاب کی معطلی ان کی خراب کارکردگی کی بنیاد پر کی گئی تھی؛ تاہم ان کی اصل پھرتی کا اندازہ مجھے ان کے ملتان کے آخری سرکاری دورے کے دوران ہوا تھا۔
مورخہ سولہ ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار ملتان کے دورے پر تشریف لائے اور ایک بھرپور اور مصروف دن گزارا۔ اس بے حد مصروف دن میں انہوں نے علاقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے طبقوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔ کئی پراجیکٹس کی منظوری دی۔ کئی منصوبوں کو منظور کیا۔ اپنے مادر علمی ایمرسن کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔ علاقے کی سیاسی قیادت سے ملاقاتیں کیں، اور ایک عدد جلسے سے خطاب کیا۔
باقی سارے معاملات تو ٹھیک گئے لیکن درمیان میں ایک پھڈا یہ پڑا کہ ملتان کے ایک ایم این اے کے بھائی نے اپنے ممبر قومی اسمبلی بھائی کی غیرحاضری میں نمائندگی کرتے ہوئے ایم این اے کے کوٹے میں وزیراعلیٰ سے ملنے کی کوشش کی جو بوجوہ ممکن نہ ہوسکی اور سکیورٹی والوں نے بھائی صاحب کو‘ جن کے پاس محض پی ٹی آئی کی شہری تنظیم کا عہدہ تھا‘ ایم این اے کے کھاتے میں وزیراعلیٰ سے نہ ملنے دیا۔ اب ان صاحب نے انتقاماً وزیراعلیٰ کو اپنی اہمیت سے آگاہ کرنے کی غرض سے پھڈا ڈال دیا۔ وجہ اس کی یہ بنائی کہ سٹیج کے پیچھے لگے ہوئے بیک ڈراپ پینافلیکس پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی تصویر نہیں ہے۔ اس بات کو مسئلہ بناکر پندرہ بیس لوگوں نے جلسے کے آغاز پر ہی بدمزگی پیداکر دی اور نعرے بازی کرکے ماحول کو خاصا مُکدّر کردیا۔ اس کارروائی سے جلسے کا آغاز ہی بُرے انداز میں ہوا۔ اسی دوران ایک پولیس افسر نے سرکاری کام میں مداخلت کے زمرے میں پرچہ کاٹنے کی بھی دھمکی دی؛ تاہم معاملات ٹھنڈے کرکے جلسے کا آغاز کیا گیا‘ لیکن جو بدمزگی ہوئی تھی اس کے اثرات کافی دیر تک ماحول میں نظر آتے رہے۔
جلسے کے خاتمے پر وزیراعلیٰ اچانک ہی جلسہ گاہ (سرکٹ ہائوس ملتان) سے دس قدم دور ڈسٹرکٹ جیل چلے گئے اور کھڑے کھڑے ڈسٹرکٹ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو معطل کردیا۔ اس پر الزامات تھے کہ جیل کے واٹر کولر کا پانی گرم تھا، شکایات والے بکس کی چابی نہیں تھی اور جب اسے تڑوایا گیا تو اندر کوئی شکایت بھی نہیں تھی؛ تاہم سپرنٹنڈنٹ جیل کوانہوں نے دو منٹ میں فارغ کردیا۔ ایک دوست سے ان پھرتیوں کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ دراصل جس بندے نے جلسے میں بدمزگی کی تھی اس کے بھائی صاحب نے اس سپرنٹنڈنٹ کو ذاتی کاوشوں سے ڈسٹرکٹ جیل میں تعینات کروایا تھا اور اس تعیناتی کا بنیادی مقصد ایک خاص قیدی کو لامحدود سہولتوں کی فراہمی مطلوب تھی۔ میں نے پوچھا: یہ قیدی پر اتنی مہربانیاں کس لیے ہیں؟ رازدار نے بتایا کہ یہ قیدی دراصل ایک بڑی سیاسی شخصیت کے بزنس میں فرنٹ مین اور حصہ دار ہے۔ میں نے پوچھا کس بزنس میں؟ پتا چلا کہ ہائوسنگ سوسائٹیوں اور زمین کے معاملات میں نیب یافتہ قیدی ہے؛ تاہم یہ بندہ بڑا پکا ہے اوراس نے ساری ان سہولتوں کے عوض نیب کی تفتیش میں اصل بندے کا کہیں نام نہیں لیا۔ اسی لیے اسے ایسی ایسی سہولتیں مل رہی ہیں کہ جیل میں اس کا تصور ہی ممکن نہیں۔ میں نے کہا: بزدار صاحب نے اتنی پھرتی سے یہ ساری باتیں کیسے معلوم کرلیں؟ وہ اتنے ذہین لگتے تونہیں کہ اس طرح فوراً پیش قدمی کرکے حریف کو منٹوں سکنٹوں میں ناک آؤٹ کردیتے؟ وہ دوست ہنسا اور کہنے لگا: بزدار صاحب قبائلی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں انگریزی محاورہ Survival of the fittest والا معاملہ ہوتا ہے اور خطرے کو بھانپنے اور جوابی وار کرنے کی جبلّت قبائلیوں میں ہم شہریوں کے مقابلے میں ناقابل یقین حد تک زیادہ ہوتی ہے۔ سو بزدار صاحب نے جلسے میں اپنے خلاف لگنے والے نعروں اور بدمزگی کا بدلہ دو تین گھنٹے میں ہی لے لیا اور ایسا سبق دیا کہ یاد رہے گا۔ اس پر مستزاد یہ کہ متاثرہ فریق کھل کر رو بھی نہیں سکتا۔
میں نے اس دوست سے پوچھا کہ پھر وہ وائس چانسلر کے خلاف انکوائری کو کیوں دبائے بیٹھے ہیں۔ وہ دوست ہنسا اور کہنے لگا: وہاں جناب کا کوئی ذاتی نقصان نہیں ہو رہا اس لیے وہاں وہ ٹھنڈ کروا کر بیٹھے ہیں اور جہاں ان کو ذاتی زک پہنچی تھی وہاں ان کی پھرتیاں قابل دید تھیں۔ مجموعی طور پر حضور سُستی اور چُستی کا حسین امتزاج ہیں‘ بس مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ان کی پُھرتی اور سُستی کا سارا دارومدار معاملے کی نوعیت پر ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved