لاہور ریلوے سٹیشن سے راولپنڈی جانے کے لیے ریل میں سوار ہوا تھا۔ عمر وہی تھی جس میں جسم چھریرا اور چست ہوتا ہے اور فارغ البالی کا مطلب سر کے بالوں سے فراغت نہیں ہوتا۔ شاید لالہ موسیٰ کا سٹیشن گزرا تھاکہ راہداری سے وہ آواز آنے لگی جو دوسری آوازوں سے مختلف تھی۔ ریل کے پہیوں کی تھاپ میں کبھی وہ آواز ڈوبتی اور کبھی ابھر کر واضح ہوجاتی۔ کوئی شخص بہت خوبصورت لحن اور آواز میں میاں محمد بخشؒ کی سیف الملوک پڑھ رہا تھا۔
سفنے دے وچ ملیا ماہی، تے میں گل وچ پا لیاں باہواں
ڈر دی ماری اکھ نہ کھولاں، کدے فیر وچھڑ نہ جاواں
(خواب میں مجھے محبوب ملا ہے تو میں نے اس کے گلے میں بانہیں ڈال دی ہیں۔ اب ڈر کے مارے میں آنکھ نہیں کھولتی کہ کہیں پھر بچھڑ نہ جاؤں)
لوئے لوئے بھر لے کُڑِیے جے توں بھانڈا بھرنا
شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا
(لڑکی! دن دن میں اپنا برتن پانی سے بھر لے، اگر تجھے بھرنا ہے۔ پھر شام ہوگئی اور اندھیرا چھانے لگا تو تُو گھر جاتے ہوئے ڈرتی رہے گی)
چنگی صورت تے عاشق ہونڑا کاہدی اے دانائی
عاشق بنڑ توں اس سوہنے دا جس اے شکل بنائی
(خوبصورت پر عاشق ہونا کون سی دانائی ہے۔اس ذات پر عاشق ہو جس نے یہ شکل بنائی ہے)
بیلی بیلی ہر کوئی آکھے، میں وی آکھاں بیلی
اوس ویلے دا کوئی نئیں بیلی، جدوں نکلے جان اکیلی
(ہر کوئی میرا دوست میرا دوست کہتا رہتا ہے۔ میں بھی کہتا ہوں میرا دوست‘ لیکن اس وقت کا دوست کوئی نہیں ہوتا جب جان اکیلی نکلتی ہے)
سیٹ پر بیٹھے رہنا ممکن نہ رہا۔ میں کمپارٹمنٹ کا دروازہ کھول کر باہر آکھڑا ہوا۔ دو بوگیوں کو ملانے والے دروازے کے درمیان بیٹھے اور سیف الملوک پڑھتے اس شخص کا حلیہ ٹھیک سے یاد نہیں۔ کوئی ادھیڑ عمر شخص دیہاتی ہو اور درویش نما بھی ہو تو حلیہ کم و بیش سب کا ایک جیسا ہوجاتا ہے۔ سر پر سفید میلی دستار، گہرا سانولا رنگ، لمبی داڑھی، ملگجے کپڑے۔ اس کے گلے میں آواز مُرکیوں کے ساتھ گھومتی تھی اور جب لے باہر آتی تھی تو اس کی راست قامتی دیکھ کر حیرت دوچند ہوجاتی تھی۔ وہ کسی بیت کا پہلا مصرعہ پڑھتا تھا تو آواز کی لے نچلے سُر سے اس طرح جوبن پر آتی تھی جیسے کوئی لڑکی چند لمحوں میں آپ کی آنکھوں کے سامنے سرو قامت بن جائے۔ بیت کا دوسرا مصرعہ دل پر ضرب لگاتا تھا اور اس کی تکرار اس طرح دل پر لگتی تھی جیسے مزدور دھموسے کی چوٹ سے مٹی ہموار کرتے ہیں۔
میں دروازے کے باہر کھڑا سیف الملوک سن رہا تھا۔ رخسار پر گیلا پن محسوس ہوا تو خبر ہوئی کہ آنسوؤں نے کنجِ چشم سے کنجِ لب کا راستا ہموار کرلیا ہے۔ اس دیہاتی کی آواز میں تاثیر تھی لیکن اصل آگ تو میاں محمد بخش صاحب کے کلام میں تھی‘ جس میں بھسم ہوکر اس دنیا میں واپس آنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کتنی ہی دیر کھڑا میں یہ کلام سنتا رہا۔ سفر کٹا تو دل کا ٹکڑا بھی ساتھ کاٹ کر لے گیا۔ وہ میری سیف الملوک سے پہلی ملاقات تھی۔
بین الاقوامی شہرت کے حامل، صاحب طرز خطاط اور درویش سید نفیس رقمؒ کے پاس میرا بکثرت آنا جانا ہوتا رہتا تھا۔ شاہ صاحب میری تمام تر کوتاہیوں اور بسا اوقات طویل غیر حاضریوں کے باوجود مجھے دل سے قریب رکھتے تھے۔ جن بزرگوں کی صحبت میں دل نے سب سے زیادہ سکون محسوس کیا‘ شاہ جی ان میں سے ایک تھے۔ ان کے دسترخوان کی دال، روٹی اور گھر کے آم کے اچارکا ذائقہ تالو سے اب تک چپکا ہوا ہے۔ ان پر تفصیل سے لکھنا مجھ پر قرض ہے۔ شاہ صاحب خود شاعر اور عمدہ شعر شناس تھے۔ ان کی دل گداز نعتیں اور غزلیں کتابی شکل میں چھپ چکی ہیں۔ کسی دوست کے انتقال پر مرثیہ لکھا جس کا پہلا شعر یاد ہے:
ڈھل گیا آفتاب شام ہوئی / اک مسافر کی رہ تمام ہوئی
ایک دن میں نے کسی پُرکیفیت ساعت میں ان سے فرمائش کی کہ آپ کی زبان سے سیف الملوک سننے کو جی چاہتا ہے۔ وہ بے حد مصروف اور مشغول بزرگ تھے لیکن انہوں نے کمال دلداری کی اور اگلے دن اپنے کتب خانے میں جو گھر کے بالاخانے پر تھا، سیف الملوک کے منتخب شعر سنائے۔ ایک درویش کا کلام دوسرے درویش کی زبان سے سننے کا کیا دوآتشہ ذائقہ ہوتا ہے، اس دن معلوم ہوا۔آنسو ٹپ ٹپ سنانے والے کی آنکھوں سے بھی گر رہے تھے اور سننے والے کی بھی۔
خس خس جناں قدر نہ میرا، تے مرے صاحب نوں وڈیائیاں
میں گلیاں دا رُوڑا کوڑا، محل چڑھایا سائیاں
(میری تو گھاس پھوس کے برابر حیثیت نہیں، مرے صاحب کی بڑائی دیکھیں‘میں گلیوں کا روڑا کوڑا تھا‘میرے سائیں نے محل کی زینت بنا دیا)
عشق جنہاں دے دل نہ رچیا، کُتّے انہاں تھیں چنگے
مالک دے در راکھی کردے، صابر بُھکھے ننگے
(جن لوگوں کے دل میں عشق نہیں رچا، ان سے تو کتّے بہتر‘ جو بھوکے ننگے صابررہ کر بھی مالک کے گھر کی رکھوالی کرتے ہیں)
پھس گئی جان شکنجے اندر جیوں بیلن وچ گنا
روہ نوں کہو ہن رہوے محمد، ہن جے رہوے تے منّاں
(جان شکنجے کے اندر ایسے پھنسی ہے جیسے بیلن میں گنّا پھنس جاتا ہے۔ محمد بخش! اب رس سے کہو کہ گنّے میں رہ کر دکھائے۔ اب وہ رہ جائے تو میں اسے مان لوں)
عدل کریں تے تَھر تَھر کمبن اُچیاں شاناں والے
فضل کریں تے بخشے جاون میں جئے وی منہ کالے
(وہ میرا مالک عدل کرے تو بڑی اونچی شانوں والے بھی تھرتھر کانپیں‘ اور جب وہ فضل کرنے پر آئے تو مجھ جیسے کالے منہ والے بھی بخشے جائیں)
جے میں ویکھاں عملاں ولّے، تے کج نئیں میرے پلّے
جے ویکھاں تری رحمت ولّے، تے بلّے، بلّے، بلّے
(اگر میں اپنے عملوں کی طرف دیکھوں تو میرے پلّے کچھ بھی نہیں ہے اور اگر اس کی رحمت کی طرف دیکھوں توواہ واہ، واہ واہ، سبحان اللہ)
کوئی کوئی محفل ایسی ہوتی ہے کہ کتب خانہ، بالا خانہ، میزبان، مہمان، زمان، مکان سب کہیں پس منظر میں غروب ہو جائیں اور گہرے سنّاٹے میں بس ایک سنانے والا اور ایک سننے والا گونجتا رہ جائے۔ وہ ایسی ہی ایک محفل تھی۔ میں نے حضرت میاں محمد بخش صاحبؒ کی تصویر کو غور سے دیکھا۔ سر پر رومال یا کلاہ اس طرح جیسے ماتھے پر باندھا ہوا ہو، گردن پر پٹّوں کے خم لیے ہوئے سفیدی مائل سیاہ بال۔ سیاہ سفید لمبی داڑھی۔ گردن میں حمائل سفید رومال جس کے دونوں پلّے سینے پر پڑے ہوئے۔ قدرے سانولا رنگ، ملگجے کپڑے۔
میں کافی دن پہلے ایک صوفی کانفرنس میں شریک ہوا اور اس گناہ پر نادم واپس آیا تھا۔ لاکھوں روپے کے خرچ سے میاں محمد بخش سیمینار، صوفی میلے اور صوفی کانفرنسیں منعقد کرنے والے اور ذاتی تشیہر میں جتے ہوئے پنجاب کے ثقافتی ادبی اداروں کے سربراہان اس حلیے کے میاں محمد بخش صاحبؒ کو تو ہال میں بھی داخل نہ ہونے دیں۔ محبت کے داعی کو نفرتوں کیلئے استعمال کرنے والے جعلی دانشور میاں صاحب کے کیا آشنا ہو سکتے ہیں۔ یہ بے روح جسم میاں صاحب کے کلام کی روح کو کیا پہنچیں گے؟ یہ بہرے مقرر سن سکتے تو میاں صاحب کا یہ شعر نہ سن رہے ہوتے جو ان پر راست آتا ہے:
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
ککّر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا
(نیچ لوگوں کی آشنائی سے کبھی کسی کو فیض نہیں مل سکتا‘ تم نے کیکر پر انگور کی بیل چڑھا دی ہے اور ہر گچھا زخمی کردیا ہے)