تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     06-12-2020

سنو دسمبر آ گیا ہے!!

لاہور کو پاکستان کے سیاسی اور ادبی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں چلنے والی سیاسی تحریکیں اس وقت ہی کامیاب سمجھی جاتی ہیں جب اہالیان لاہور ان کی حمایت کر دیں۔ اگر لاہور ساتھ نہ دے تو کوئی بھی سیاسی تحریک ٹھس ہوجاتی ہے۔ سابق صدر ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریکیں ہوں یا ضیاالحق کی آمریت کے خلاف جدوجہد، ان سب کا مرکز لاہور ہی رہا ہے۔ 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کا جنم بھی لاہور ہی میں ہوا تھا۔ ایوبی مارشل لاء کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کو قومی لیڈر کا درجہ بھی لاہور سے ہی ملا۔ 1986ء میں ان کی بیٹی اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو، خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے واپس آئیں تو انہوں نے جس شہر کا انتخاب کیا تو وہ لاہور ہی تھا۔ جب وہ لاہور ائیرپورٹ پر اتریں تو جو منظر دیکھنے میں آیا وہ ضیاالحق تو کیا خود بینظیر بھٹو کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ لاہور ائیرپورٹ سے لے کر مینار پاکستان تک سر ہی سر تھے۔ لاکھوں افراد نے بے نظیر بھٹو کا تاریخی استقبال کیا۔ کسی نے ہجوم کا تخمینہ 2 لاکھ لگایا تو کسی نے اسے 10 لاکھ بتایا۔ حقیقت یہی ہے کہ عوام کے رکے ہوئے جذبات کا یہ طوفان اس قدر حقیقی اور بے ساختہ تھاکہ اسے اعدادوشمار میں بیان کرنا مشکل تھا۔ نواز شریف اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب تھے مگر اس روز ان کی حکومت وزیر اعلیٰ ہاؤس کے اسی کمرے تک محدود تھی‘ جو ان کا دفتر تھا۔ لاہوریوں نے تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پراپنا پورا وزن جمہوریت کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ نتیجتاً 1988ء میں بے نظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ عمران خان نے جب 2011ء مینار پاکستان پر بہت بڑا جلسہ کیا تو پہلی بار انہیں سیاسی دھارے میں سنجیدگی سے ایک بڑے پلیئر کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ 2013ء کے الیکشن میں اگر عمران خان لاہور میں جلسے کے بعد سٹیج سے گرکر حادثے کا شکار نہ ہوتے تو شاید اس الیکشن میں تحریک انصاف کو مزید سیٹیں مل جاتیں۔ عمران خان نے 2014ء میں اپنے دھرنے کا آغاز بھی لاہور سے کیا تھا‘ جس نے نواز حکومت کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ اسی طرح 2018ء کے الیکشن میں مینار پاکستان پر آخری جلسہ کرکے اپنے حریفوں پر نفسیاتی برتری حاصل کر لی تھی۔ اب تحریک انصاف کی اسی حکومت کیخلاف اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم، شہر شہر جلسوں اور بعد میں ریلی اور دھرنوں کی حکمت عملی لے کر میدان میں اتر چکا ہے۔ پی ڈی ایم، وزیر اعظم عمران خان سے دسمبر تک حکومت چھوڑ کر نئے الیکشن کرانے کا مطالبہ کرچکی ہے۔ گوجرانوالہ، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور ملتان کے بعد اب لاہور میں جلسہ رکھا گیا ہے۔ لاہور کے جلسے کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے دسمبر کا مہینہ حکومت کیلئے ڈیڈ لائن ہے۔ اس جلسے کے ذریعے اپوزیشن حکومت کو یاد دلانا چاہتی ہے کہ ''سنو دسمبر آ گیا ہے‘‘ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب اپوزیشن لاہور میں بہت بڑا اور کامیاب شو کرسکے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن کے لئے 13 دسمبر کو ہونے والا لاہور کا جلسہ ایک بڑا امتحان ہوگا۔ لاہور کو چونکہ مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے‘ اس لئے مسلم لیگ ن اس بار اپنی اس عوامی حمایت کو ثابت بھی کرنا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنماء رانا ثنااللہ کے مطابق مسلم لیگ ن کی یہ کوشش ہے کہ صرف لاہور شہر سے ایک لاکھ افراد اس جلسے میں شریک ہوں۔ 
دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کے اس بیان نے حکومت حکمت عملی واضح کر دی ہے کہ اپوزیشن کو جلسوں سے نہیں روکیں گے لیکن منتظمین کے خلاف کارروائی ہو گی‘ یعنی کان اس طرف سے نہیں دوسری طرف سے پکڑنا ہے۔ مسلم لیگ ن کا سخت امتحان اس لئے بھی ہے کہ اسے ثابت کرنا ہے کہ لاہور اب بھی اس کا قلعہ ہے۔ اس وقت پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ 30 نومبر کو ملتان میں پی ڈی ایم کے جلسے کو کورونا ایس او پیز کے تناظر میں سخت مراحل سے گزرنا پڑا۔ مقامی اتنظامیہ اور پولیس نے جیالوں اور متوالوں سے جیلیں بھردیں لیکن حکومت نے کسی صورت پی ڈی ایم کو قاسم باغ سٹیڈیم میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ مجبوراً پی ڈی ایم کو گھنٹہ گھر چوک میں میلہ لگانا پڑا۔ پنجاب حکومت کو اس حکمت عملی پر مرکز سے شاباش بھی مل چکی ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی ایک بڑی پیشرفت یہ بھی ہے کہ پنجاب حکومت بیوروکریسی کو کافی حد تک اپنے کنٹرول میں کرچکی ہے۔ لیگی رہنما رانا ثنااللہ تو یہ الزام بھی عائد کرچکے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر لاہور ان سے تعاون نہیں کررہے‘ لیگ کے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی صورت میں پنجاب حکومت کے پاس پولیس میں بھی تابعدار سپورٹ موجود ہے۔ حکومتی کیمپ میں لاہور کے تگڑے سیاسی کھلاڑی علیم خان، میاں اسلم اقبال، میاں محمودالرشید اور خود گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور پوری انتظامی طاقت کے ساتھ کسی صورت بھی پی ڈی ایم کے جلسے کی میزبان مسلم لیگ ن کوکھل کر کھیلنے کیلئے سازگار میدان نہیں دیں گے۔ لاہور جلسے کی مانیٹرنگ اسلام آباد سے براہ راست کی جارہی ہے۔ حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ کورونا صورتحال کے نتیجے میں اس کے پاس این سی او سی کے وضع کردہ ایس او پیز کی صورت میں قانونی جواز اور عدالتی ہدایت موجود ہے‘ جسے استعمال کرتے ہوئے وہ اپوزیشن کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔ ان تمام حالات کے باوجود اگر اپوزیشن کوئی اچھا شو کرنے میں کامیاب ہوگئی تو یہ ایک غیر معمولی بات ہو گی۔ مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز نیب کی قید میں ہیں۔ حمزہ شہباز پارٹی میں پنجاب اور خصوصاً لاہور کی نچلی سطح پر بہت زیادہ اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں مریم نواز کیلئے پی ڈی ایم کی میزبانی دُہرا چیلنج ہو گا۔
پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام کراچی اور ملتان میں پی ڈی ایم جلسوں میں میاں نواز شریف کو خطاب کا موقع نہیں مل سکا‘ لیکن اب جب علاج کی غرض سے لندن میں موجود سابق وزیر اعظم کو اسلام آباد ہائیکورٹ بھی اشتہاری قرار دے چکی ہے‘ تو ایسے میں کیا مسلم لیگ ن کی میزبانی میں ہونے والے جلسے میں انہیں خطاب کرنے کا موقع دیا جائے گا؟ 13 دسمبر کو لاہور کے اس جلسے میں سب سے اہم خطاب میاں نواز شریف کا ہی ہوگا۔ ان کا یہی خطاب مسلم لیگ ن کی مستقبل کی سیاست کا رخ بھی متعین کرے گا۔ 
پی ڈی ایم کی جانب سے استعفوں کے آپشن کی بھی بازگشت ہے مگر اس حوالے سے پیپلزپارٹی کو کافی اعتراضات ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری اس ضمن میں میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ فوری طور پر استعفوں کی بات شاید عوامی توجہ حاصل کرنے اور پی ڈی ایم کی سنجیدگی ظاہر کرنے کیلئے کی جا رہی ہے۔ پی ڈٰی ایم میں شامل پیپلزپارٹی اس آپشن کے بارے میں باکل سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔ پیپلزپارٹی سندھ حکومت کسی بھی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں۔ حکومتی وزرا اسی صورتحال کو بھانپ کر اپوزیشن کو بار بار استعفوں کیلئے اکساتے رہے ہیں۔ اگر متحدہ اپوزیشن لاہور کے جلسے سے کوئی بڑی تحریک پیدا نہ کر سکی تو آنے والے دنوں میں بحرانوں سے نکلتی حکومت کو روکنا اپوزیشن کے بس میں نہیں رہے گا۔ سینیٹ میں حکومتی اکثریت کے بعد احتساب کا عمل مزید تیز ہو جائے گا۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ن کو ہوگا۔ شاید اسی لئے میاں شہباز شریف ایک بار پھر مفاہمتی بیانیے اور مکالمے کی بات کرتے دکھائی دئیے۔ واقفان حال کے مطابق انہوں نے اپنی بھتیجی اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کو بھی ایک بار پھر یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ استعفے دینے کے آپشن کو سب سے آخر میں رکھا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved