اسلام ایک آفاقی دین ہے جو دنیا بھر کے تمام انسانوں کی ہرشعبہ زندگی میں رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات فقط مردوں کے لیے نہیں بلکہ اس کا ہمہ گیر پیغام خواتین کے لیے بھی برابر اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن کی دعوت بیک وقت مردوں اورعورتوں کے لیے ہے لیکن بہت سے مقامات پر مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کاعلیحدہ سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔ سورہ احزاب کی آیت نمبر35 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: '' بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اور ذکرکرنے والی عورتیں تیار کر رکھی ہے اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور اجرِ عظیم‘‘۔ اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے لیے بھی روحانی ترقی کے بھرپور امکانات رکھے ہیں۔ جب ہم تاریخ عالم کا مطالعہ کرتے ہیں تو جہاں پر بہت سے غیر معمولی مردوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سربلندی اور سماج میں مثبت تبدیلی کے لیے نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہیں پر بہت سی عظیم خواتین کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے بے مثال قربانیاں دیتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان میں سے چند اہم خواتین کا احوال مختصراً درج ذیل ہے:
1۔ حضرت آسیہ: آپ فرعون کی اہلیہ تھیں ‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دی تو انہوں نے بھی اس دعوت کو قبول کر لیا۔ قبولیت حق کی وجہ سے ان کو بہت سی ابتلاؤں‘ اذیتوں اور تکالیف کا نشانہ بننا پڑا لیکن حضرت آسیہ نے تمام تکالیف کو پوری خندہ پیشانی سے برداشت کیا یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے جام شہادت بھی نوش کر لیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت آسیہ کے آخری الفاظ کو سورہ تحریم کی آیت نمبر 11میں کچھ اس انداز میں بیان فرماتے ہیں: '' اورا للہ نے مثال بیان کی (ان لوگوں) کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی جب اس نے کہا (اے میرے) رب بنا میرے لیے ایک گھر جنت میں اور نجات دے مجھے فرعون اور اس کے عمل سے اور تو نجات دے مجھے ظالم لوگوں سے‘‘۔
2۔ حضرت مریم علیہا السلام: قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر بھی بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ سیدہ مریم کی والدہ نے اُنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کے لیے وقف کر دیا تھا۔ جب انہوں نے خلوص سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کو بے موسم کے پھل عطا فرمانے شروع کر دیے اور اُن کے یہاں پربن باپ بیٹے کی ولادت ہوئی۔ اپنے تقویٰ‘ زُہد‘ للہیت اور خلوص کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدہ مریم کو جہانوں کی عورتوں میں سے ایک نمایاں ترین مقام عطا فرما دیا۔ سید ہ مریم ؑکو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس قدر قبولیت سے نوازا کہ آج بھی دنیا بھر میں اہل اسلام اپنی بیٹیوں کا نام سیدہ مریم ؑکے نام پر رکھ کر اُن سے عقیدت اور وابستگی کا اظہار کرتے ہیں اور اس طرح آپ کو عملاً خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی بعض ممتاز خواتین کا کردار کھل کر سامنے آتا ہے۔ جن میں سے چند اہم کا کردار درج ذیل ہے:
1۔ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ: سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے ایک مثالی بیوی ہونے کاثبوت دیا اور زندگی کے ہر مرحلے میں بھرپور انداز میں آپﷺ کا ساتھ دیتی رہیں۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر وحی کا نزول فرمایا تو سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ نے اس موقع پر آپﷺ کو بہت خوبصورت انداز میں دلاسا دیا جس کو امام بخاری نے صحیح بخاری میں نقل فرمایا ہے۔ سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں عرض کیا تھا : '' آپ تو اخلاق ِفاضلہ کے مالک ہیں‘ آپ تو کنبہ پرور ہیں‘ بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں‘ مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں‘ مہمان نوازی میں آپ بے مثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امرِ حق کا ساتھ دیتے ہیں‘‘۔اور بعد ازاں وہ آپﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس بھی لے کر گئیں جنہوں نے نبی کریمﷺ پر نازل ہونے والی وحی کی بڑے ہی خوبصورت انداز میں تصدیق کی۔ اس واقعہ کی تفصیل صحیح بخاری میں اس انداز میں درج ذیل ہے: ''پھر مزید تسلی کے لیے خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں‘ جو اِن کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے؛ چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ (انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا۔ ورقہ اسی کو لکھتے تھے) وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپﷺ کے حالات بیان کیے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی! اپنے بھتیجے (محمد ﷺ ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجئے۔ وہ بولے کہ بھتیجے آپ نے جو کچھ دیکھا ہے اس کی تفصیل سناؤ؛ چنانچہ آپ ﷺ نے اوّل تا آخر پورا واقعہ سنایا‘ جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بولے کہ یہ تو وہی ناموس (معزز راز دان فرشتہ) ہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش میں آپ کے اس عہدِ نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ رسول اللہﷺ نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ (حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں) ورقہ بولے: ہاں یہ سب کچھ سچ ہے‘ مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امرِ حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں۔ اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔ مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے‘‘۔
اعلانِ نبوت کے بعد بھی حضرت خدیجۃالکبریٰؓ نے ہر موقع پر نبی کریمﷺ کا ساتھ دیا۔ جتنی تکالیف اور آزمائشیں آتی رہیں ان کو آپﷺ کی رفاقت میں خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتی رہیں اور رہتی دنیا تک کے لیے ایک مثال بن گئیں۔
2۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ :تاریخ اسلام میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کا کردار بھی بے مثال ہے۔جہاں پر آپ محبت کرنے والی رفیقہ حیات ثابت ہوئیں‘ وہیں پر آپ نے نبی کریم ﷺ کی رفاقت میں رہتے ہوئے علم کی تحصیل اور نشرواشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا اورآپؓ کے ذریعے سے ہزاروں احادیث اُمت تک منتقل ہوئیں۔ آپؓ کی ذات میں بطور معلمہ اور فقیہ ہمارے لیے بہت سے نمونے والے باتیں موجود ہیں۔
3۔ حضرت فاطمۃ الزہراؓ: نبی کریمﷺ کی چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہراؓ بھی ایک مثالی کردار کی حامل ہیں۔ آپ نے پردہ داری اور حیا داری کے اعتبار سے نمایاں کردار ادا کیا۔ دعوتِ دین کے دوران آنے والی آزمائشوں پر اپنے بابا کا بھرپور ساتھ دیتی رہیں۔ آپؓ کے ساتھ نبی کریم ﷺ خصوصی شفقت فرماتے اور خاندان میں آپؓ کو خصوصی عزت و تکریم سے نوازتے۔آپؓ نے شادی کے بعد بڑی سادہ اور محنت والی زندگی بسر کی۔ صحیح بخاری میں حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی پیسنے کی تکلیف کی وجہ سے کہ ان کے مبارک ہاتھ کو صدمہ پہنچتا تو نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک خادم مانگنے کے لیے حاضر ہوئیں۔ نبی کریم ﷺ گھر میں موجود نہیں تھے اس لیے انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا۔ جب آپﷺ تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریمﷺ ہمارے یہاں تشریف لائے ہم اس وقت تک اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے میں کھڑا ہونے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ بتا دوں جو تمہارے لیے خادم سے بھی بہتر ہو۔ جب تم اپنے بستر پر جانے لگو تو تینتیس (33) مرتبہ ''اللہ اکبر ‘‘کہو‘ تینتیس (33) مرتبہ ''سبحان اللہ‘‘ کہو اور تینتیس (33) مرتبہ ''الحمد اللہ‘‘کہو‘ یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے اور ایک روایت کے مطابق سبحان اللہ چونتیس (34)مرتبہ کہنے کا ذکر کیا گیا۔ ان خواتین کے ساتھ ساتھ حضرت سمیہ ؓ ‘ حضرت خنساء ؓ اورحضرت عفراء ؓ نے بھی دینِ اسلام کے لیے بے مثال قربانیاں دے کر ہمیشہ کے لیے امر ہو گئیں۔
ہم سب کو جہاں پر انبیاء علیہم السلام‘ حضرات صحابہ کرامؓ ‘ اہلبیت عظام اور آئمہ دین کی عظیم شخصیت سے تحریک اور رہنمائی حاصل
کرنی چاہیے وہیں پر ہمیں حضرت آسیہ‘ حضرت مریم علیہا السلام‘ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ‘ حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت فاطمۃ الزہراؓکے بے مثال کردار سے بھی رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور اپنی بیویوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کو اُن کے نقشِ قدم پر چلانے کی ترغیب دینی چاہیے۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری خواتین کو ان مثالی خواتین کے کردار سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین