قطر میں ہونے والے مذاکرات ابھی ابتدائی نوعیت کے ہیں۔ ان کے اعلان کے ساتھ جو بنیادی مسئلہ حل ہوا‘ وہ رابطے قائم کرنے اور مذاکرات کا ہے۔ تینوں فریق ایک دوسرے کی پوزیشن تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ امریکہ طالبان سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ طالبان کرزئی حکومت سے بات کرنے کے روادار نہیں تھے اور تینوں ایک دوسرے کے ساتھ کھلے رابطوں سے بھی گریزاں تھے۔ تقریباً 2 سال پہلے سہولت کاروں کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں‘ اس بات پر رضامندی ہو گئی کہ تینوں ایک دوسرے کو تسلیم کئے بغیر‘ باضابطہ مذاکرات کرنے کے لئے ‘ ایک ساتھ بیٹھیں گے اور ان میں بغیرکسی پابندی کے اظہارخیال ہو گا اور مذاکرات کے دوران جن نکات پر اتفاق ہوا‘ ان پر قدم بقدم آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ بات طے ہونے پر قطر میںطالبان کا رابطہ آفس قائم کیا گیا‘ جہاں طالبان کے نمائندوں نے اس کا انتظام سنبھالا اور وہاں سے امارات کے حکمرانوں اور ایرانی حکومت کے ساتھ رابطے قائم کئے۔ ابھی مذاکرات کا سلسلہ شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ کرزئی کی طرف سے اعتراضات آنے لگے ۔ پہلا اعتراض یہ تھا کہ طالبان نے دفتر کی عمارت کو ’’اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ کا آفس قرار دیا جبکہ افغانستان میں نام نہاد انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی حکومت موجود ہے۔ طالبان کے اپنے دور اقتدار میں‘ جب 90فیصد سے زیادہ رقبے پر ان کا کنٹرول تھا‘ اماراتِ اسلامی افغانستان کا نام چلتا تھا۔ اب پورے ملک میں کہیں بھی طالبان کی حکومت نہیں لہٰذاوہ اماراتِ اسلامی افغانستان کی نمائندگی نہیں کر سکتے اور ساتھ ہی عمارت پر ان کا پرچم لہرانے کی بھی مخالفت کی گئی۔ اس اعتراض پر پرچم اتار دیا گیا۔ لیکن عمارت پر لکھے ہوئے الفاظ جوں کے توں موجود ہیں۔ کرزئی حکومت کو مطمئن کرنے کی کوششیں ابھی جاری ہیں۔ امکان ہے ان کے بنیادی اعتراضات ختم کر دیئے جائیں گے۔ مگر خدشات دور کرنا مشکل ہو گا۔ کرزئی کو خطرہ ہے کہ قطر کے دفتر سے طالبان باقاعدہ سفارتی سرگرمیاں شروع کر دیں گے۔ وہ حکومتوں کے ساتھ رابطے قائم کریں گے۔ آزاد تنظیموں سے ملاقاتیں ہوں گی اور وہ اپنے آپ کو افغانستان کے نمائندوں کی حیثیت سے منوانے کی کوشش کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی حکومت کو پس منظر میں دھکیلا جا رہا ہے۔ جبکہ طالبان ایسے رابطوں کو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ کرزئی کی مخالفت کے باوجود‘ امریکہ اور طالبان رابطوں کو آگے بڑھانے کے لئے تیار ہیں۔ مذاکرات کے پہلے دور میں گوانتاناموبے کے 5 اہم قیدیوں اور 4سال سے طالبان کی حراست میں آئے ہوئے امریکی فوجی کی واپسی پر سمجھوتہ ہو گا۔ اس معاملے میں ابتدائی پیش رفت ہو چکی ہے۔ صرف ایک قیدی پر معاملہ اٹکا ہوا ہے۔ طالبان اس کی مکمل آزادی پر اصرار کر رہے ہیں۔ جبکہ امریکہ اسے قطر حکومت کے حوالے کرنے پر آمادہ ہے۔ حامد کرزئی کی طرف سے اماراتِ اسلامی افغانستان اور طالبان کے پرچم پر اعتراض کا پس منظر یہ ہے کہ 2011ء میں عید الفطر کو ملا عمر نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ وہ نان سٹیٹ ایکٹر کی حیثیت قبول کرنے کو تیار ہیں اور دیگر تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر افغانستان میں حکومتی انتظامات پر سمجھوتے کے لئے مذاکرات پر بھی آمادہ ہیں۔ کرزئی کے حالیہ اعتراضات اسی بنا پر ہیں۔ چنانچہ امید یہی ہے کہ طالبان اور حامدکرزئی کے درمیان بھی باضابطہ بات چیت جلد شروع ہو جائے گی۔ پاکستان کے مذہبی سیاستدان معاملات کو سمجھے بغیر ہی‘ حسب معمول بڑے بڑے نعرے لگا رہے ہیں اور دعوے کر رہے ہیں کہ امریکہ نے طالبان سے شکست کھا کر مذاکرات کی درخواست کی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اپنی فوجوں کی واپسی کا سلسلہ اس پروگرام کے تحت شروع کیا ہے کہ افغانستان کی مقامی سکیورٹی فورسز اپنا تحفظ کرنے کے قابل ہو گئی ہیں اور اب وہ ملک پر کنٹرول قائم کرنے اور برقرار رکھنے کی اہلیت حاصل کر چکی ہیں۔ اسی بنا پر پروگرام کے عین مطابق گزشتہ روز کابل کا دفاعی نظام مقامی فورسز کے سپرد کیا جا چکا ہے۔ افغانستان کی مقامی سیاست میں‘ طالبان اب بیرونی افواج کی آمد سے پہلے والی پوزیشن میں نہیں ہیں‘ جب تقریباً سارے ملک پر ان کی حکومت تھی۔ آج بیشتر علاقوںکے عوام جواتحادی افواج کے زیرانتظام رہ چکے تھے‘ آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں طالبان کا وہ دورحکومت بھی یاد ہے‘ جب مذہب کے نام پر ان کی شخصی آزادیاں سلب کی گئیں اور جبری پابندیوں میں انہیںایسی زندگی گزارنا پڑی‘ جس کی عام افغانوں کو عادت نہیں تھی۔ اب وہ اپنے طرززندگی کو تحفظ دینے کے لئے ہر طرح کی مزاحمت کے لئے تیار ہیں۔ دوسری طرف کرزئی کی پارٹی اور شمالی اتحاد والوں کے درمیان باہمی اختلافات ضرور ہیں لیکن اگر اتحادی افواج کی واپسی کے بعد‘ طالبان نے جنگ کی صورتحال پیدا کی‘ تو شمالی اتحاد اور حکومتی افواج مل کر ان کا مقابلہ کریں گے جبکہ اتحادیوں کے تمام جنگی وسائل ان کی دسترس میں ہوں گے۔ حال میں آپ نے پڑھا ہو گا کہ اتحادی‘ روس کے جنگی ہیلی کاپٹرز خرید کر افغان حکومت کے سپرد کرنے والے ہیں۔ یہ وہی گن شپ ہیں‘ جنہوں نے 1980ء کے عشرے میں افغانستان کے پہاڑی علاقوں کا کنٹرول پوری طرح سنبھال لیا تھا اور افغان مجاہدین ان کے سامنے عاجز آ چکے تھے۔ ان کی مزاحمتی جنگ دم توڑتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ ان کے مسلسل مطالبوں اور درخواستوں پر پاکستان نے صدر ریگن سے خصوصی درخواست کی تھی کہ وہ فوری طور پر مجاہدین کو سہارا دینے کے لئے سٹنگر میزائل مہیا کریں‘ ورنہ مزاحمتی جنگ جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ 1982ء کے اواخر میں سٹنگر میزائل مجاہدین کو ملے اور اتنے موثر ثابت ہوئے کہ جنگ کا پانسہ مجاہدین کے حق میں پلٹ گیا۔ سوویت ہیلی کاپٹر‘ سٹنگر میزائل کا سامنا کرنے سے گھبرانے لگے اور سوویت یونین کو واپسی کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ظاہر ہے اس کی دیگر کئی وجوہ بھی تھیں۔ لیکن افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی کے فیصلے کا فوری سبب سٹنگرمیزائل بنے۔ اب صورتحال مختلف ہے۔ طالبان کو اسلحہ فراہم کرنے کے لئے کوئی طاقت تیار نہیں۔ جبکہ دنیا کی تمام سپرپاورز کابل حکومت کی پوری حمایت کر رہی ہیں۔ طالبان نے گزشتہ دنوں چین کے ساتھ رابطے ضرور قائم کئے۔ لیکن جنگ میں تیزی آنے پر وہ‘ طالبان کی کوئی مدد نہیں کر پائے گا۔ملاعمر اور ان کے رفقا کو اس کا ادراک ہو چکا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ اتحادی فوجوں کی واپسی کے بعد بھی‘ افغانستان میں کوئی مقامی طاقت طالبان کی حمایت میں لڑنے پر تیار نہیں اور نہ ہی طالبان اس پوزیشن میں ہیں کہ افغانستان کے کسی حصے پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کر لیں اور عالمی برادری میںکوئی طاقتور ملک ان کی مدد کرنے لگے۔ روس کے ساتھ وہ خود لڑ چکے ہیں۔ وسطی ایشیا کی حکومتیں ان کی مخالف ہیں۔ ایران ‘ طالبان کے مخالفین سے تعاون کر سکتا ہے مگر ان کے ساتھ ہرگز نہیں اور اب پاکستان بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ کابل کی حکومت کے ساتھ جنگ میں طالبان کی مدد کر سکے۔ اس کے برعکس پاکستان کے اپنے خدشات ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے لیڈر کھلم کھلا ملا عمرکی حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور انہیں اپنا امیر کہتے ہیں۔ یہ خطرہ اپنی جگہ موجود ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد‘ پاکستان میں کارروائیاں کر کے افغانستان میں ملا عمر کے علاقوں میں جا کر پناہ لے سکتے ہیں۔ مذاکرات کی ضرورت امریکہ سے زیادہ‘ افغان طالبان کو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملاعمر نے 2سال پہلے اپنی تنظیم کی حیثیت بطورنان سٹیٹ ایکٹر قبول کر لی تھی اور جیسے جیسے مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھے گا‘ یہ حقیقت سامنے آتی جائے گی کہ طالبان فاتح اور امریکہ شکست خوردہ کی حیثیت سے مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھے۔ یہ مذاکرات اس بنیاد پر ہو رہے ہیں کہ تینوں فریق ایک دوسرے کو مغلوب کرلینے کی امید نہیں رکھتے اور لڑائی جاری رکھنے کی صورت میںایک طویل اور بے نتیجہ جنگ‘ ان کا مقدر ہو گی۔ یہی وہ اعتراف ہے کہ جس کے نتیجے میں مذاکرات کا فیصلہ ہوا اور یہی وہ حقیقت ہے‘ جس کی بنیاد پر حقیقت پسندانہ مذاکرات ممکن ہو سکیں گے۔پاکستان کے لئے ان مذاکرات میں کیا ہے؟ اس سوال پر پھر کسی روز بات کریں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved