ہمارے معاشرے میں ظلم اس وقت اپنے پورے عروج پر نظر آتاہے۔ آئے دن اخبارات میں پُرتشدد واقعات سے متعلق خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ بعض اوقات کسی معصوم بچے یا بچی کی ساتھ جنسی تشدد کی خبر پڑھنے کو ملتی ہے۔ بسا اوقات معمولی تنازعات کی وجہ سے بات لڑائی جھگڑے سے ہوتی ہوئی قتل وغارت گری تک پہنچ جاتی ہے۔ گاہے گھریلو تنازعات کی خبریں بھی پڑھنے کوملتی ہیں۔کئی مرتبہ شوہر کے ہاتھوں بیوی پر تشدد اور کئی مرتبہ بیوی کے گھر چھوڑ کر فرار ہونے کی اطلاعات بھی ملتی رہتی ہیں۔ معاشرے میں حد سے بڑھی ہوئی بے امنی اور ظلم پر غور کرنے کے بعد مختلف وجوہات سامنے آتی ہیں‘جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔خود پسندی اور انانیت: حد سے بڑھی ہوئی انانیت کی وجہ سے انسان دوسرے لوگوں کو حقیر جاننا شروع ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو بہتر اور افضل سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس خبط کے تدارک کے لیے والدین، اساتذہ اور علما کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور لوگوں کو قرآن وسنت کی تعلیمات سے آگاہ کرنا چاہیے کہ تمام انسان برابر ہیں اور کوئی انسان خواہ اس تعلق کسی بھی قبیلے سے کیوں نہ ہو‘ فقط اپنی قبائلی نسبت کی وجہ سے دوسرے انسان کی حق تلفی نہیں کر سکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنوں کے بھائی چارے کا ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر10 میں ارشاد فرماتے ہیں:''یقینا صرف مومن (تو ایک دوسرے کے) بھائی ہیں۔ پس صلح کرا دو اپنے دونوں بھائیوں کے درمیان اور اللہ سے ڈروتاکہ تم رحم کیے جاؤ‘‘۔ اسی طرح قرآن مجید میں اس حقیقت کو بھی واضح فرمایا کہ قبائل میں انسانوں کی تقسیم در حقیقت پہچان کے لیے ہے جبکہ اللہ کی نزدیک عزت والا وہی ہے جو زیادہ ڈرنے والا ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر 13میں ارشاد فرماتے ہیں:''اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا ایک مرد سے اور ایک عورت (سے) اور ہم نے بنادیا تمہیں قومیں اور قبیلے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا (وہ ہے جو) تم میں سے زیادہ تقویٰ والا ہے‘‘۔
2۔ بے صبری: ہمارے معاشرے میں تشدد کی ایک بہت بڑی وجہ بے صبری بھی ہے۔ ہمارے معاشرے کے لوگ بالعموم جلد بازی سے کام لیتے ہیں اور یک لخت کسی واقعہ کا اضافی ردّعمل دینے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔ مشکلات پر صبر کرنا یقینا بہت بڑی عظمت والا کام ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی اس امر کی تلقین کی ہے کہ ہمیں ہر مصیبت کو اسی کی طرف سے سمجھنا چاہیے اور اسی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 51میں ارشاد فرماتے ہیں:''کہہ دیجئے ہرگز نہیں پہنچے گا تمہیں (کوئی نقصان) مگر جو لکھ دیا ہے اللہ نے ہمارے لیے، وہ ہمارا رب ہے، اورا للہ پر (ہی) پس چاہیے کہ بھروسا رکھیں ایمان والے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لقمان کی نصیحت کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی۔ انہوں نے جہاں بہت سی قیمتی باتوں کی نصیحت کی وہیں پر اپنے بیٹے کو صبر کی بھی تلقین کی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ لقمان کی آیت نمبر 17میں ارشاد فرماتے ہیں:''اور صبر کر اس (تکلیف ) پر جو تجھے پہنچے بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔
3۔ نا انصافی : ہمارے معاشرے میں تشدد کے اضافے کی بڑی وجہ ناانصافی بھی ہے۔ لوگ ظالم کا ساتھ قرابت داری کی بنیاد پر دیتے ہیں اور اس سلسلے میں اس کے ظلم کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مظلوم کا ساتھ فقط اس لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ مخالف دھڑے یا پارٹی کا ہوتا ہے۔ اگر ہم قرآن مجید کی تعلیمات پر غور کریں تو ہمیں اس بات کا سبق ملتا ہے کہ ہمیں ہر حالت میں عدل سے کام لینا چاہیے اور قرابت یا کسی دوسرے سبب کی وجہ سے نا انصافی کے راستے پر نہیں چلنا چاہیے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 135میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو !ہو جاؤ انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دینے والے اللہ کی خاطر اور اگر چہ اپنے آپ کے خلاف ہی ہو یا والدین اور قریبی رشتہ داری کے (خلاف ہی کیوں نہ ہو) اگر ہو وہ امیر یا فقیر تو اللہ تعالیٰ (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے اُن دونوں کا تو نہ پیروی کرو خواہشِ نفس کی کہ تم عدل (نہ ) کرو اوراگر توڑ مروڑ کر بات کرو گے (گواہی دیتے ہوئے) یا منہ موڑو گے (گواہی دینے سے) تو بے شک اللہ (اُس) پر جو تم عمل کرتے ہو خوب خبردار ہے‘‘۔ سورہ مائدہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو بیان فرمایا کہ اگر کسی قوم یا قبیلے سے دشمنی بھی ہو تو انسان کو ان سے نا حق عداوت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 8میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! ہو جاؤ قائم رہنے والے اللہ کے لیے گواہی دینے والے انصاف کی جانب اور ہرگز آمادہ نہ کرے تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ زیادہ قریب ہے تقویٰ کے اور اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ‘‘۔
4۔ ظلم کو نظر انداز کرنا: معاشرے میں ظلم کے بڑھنے کی ایک بہت بڑی وجہ ظلم کو دیکھ کر خاموش رہنا بھی ہے۔ بہت سے لوگ ظالم کے شر سے بچنے کے لیے ظلم ہوتا ہوا دیکھ کر بھی خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر لوگ اس مسئلے میں مفادِ عامہ کو مدنظر رکھ کے ظلم کے خلاف آواز کو اُٹھانا شروع کر دیں تو اس سے بڑی حد تک ظالم کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ظالم کی مذمت کو خواہ وہ عِلانیہ کیوں نہ ہو ‘نا پسند نہیں فرماتے۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 148 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ نہیں پسند کرتا علانیہ بری بات کہنا مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو اور اللہ ہے خوب سننے والا، خواب جاننے والا۔‘‘اسی طرح نبی کریمﷺ کی احادیث مبارکہ سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ظالم شخص کو اس کے ظلم سے روکنا چاہیے۔ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ ابن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو (یہی اس کی مدد ہے)۔
5۔جرم وسزا کا کمزور نظام: ہمارے معاشرے میں ظلم کے بڑھنے کی ایک بہت بڑی وجہ جرم وسزا کا کمزور نظام بھی ہے۔ مجرم بالعموم اثرورسوخ، رشوت اور سفارش کے ذریعے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ شہادتوں اور گواہیوں کے مکمل ہو جانے کے باوجود بھی مجرم کو بالعموم قرار واقعی سزا نہیں ملتی جس سے ظالم کی حوصلہ افزائی اور مظلوم کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ذمہ داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور نبی کریمﷺ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے کہ کس طرح آپﷺ کے عہد مبارک میں ظلم کا مظاہرہ کرنے والوں کو کڑی سزائیں دی گئی تھیں اس ضمن میں دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ (قبیلوں) کے مدینہ میں آئے اور بیمار ہو گئے۔ رسول اللہﷺنے انہیں لقاح میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں (بطور دوا)اونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ چنانچہ وہ لقاح چلے گئے اور جب اچھے ہو گئے تو رسول اللہﷺکے چرواہے کو قتل کر کے جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔ علی الصبح رسول اللہﷺکے پاس (اس واقعہ کی) خبر آئی۔ تو آپﷺ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے۔ دن چڑھے وہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں پکڑ کر لائے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر دی گئیں اور (مدینہ کی) پتھریلی زمین میں ڈال دیے گئے۔ (پیاس کی شدت سے) وہ پانی مانگتے تھے مگر انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ یہ سزا ان کو ان کے سنگین جرائم کی وجہ سے دی گئی تھی۔
2۔صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا تھا۔ (اس میں کچھ جان باقی تھی) اس سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے، فلاں نے؟ جب اس یہودی کا نام آیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا (کہ ہاں) یہودی پکڑا گیا اور اس نے بھی جرم کا اقرار کر لیا، نبی کریمﷺنے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
نبی کریمﷺ کی سیرت سے اس بات کی بھی رہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ مجرم خواہ کتنا ہی با اثر کیوں نہ ہو‘ اس کی سفار ش کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کر لی تھی۔کوئی اس کی سفارش کی جرأت نہیں کر سکاآخراسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے اس کی سفارش کی تو آپﷺنے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں یہ دستور ہو گیا تھا کہ جب کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹتے۔ اگر آج فاطمہ (رضی اللہ عنہا) نے چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا۔
مندرجہ بالا نکات پر عمل کرنے سے معاشرے سے ظلم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے سے ظلم کا خاتمہ کرکے اسے ایک پُرامن معاشرے میں تبدیل فرمائے۔ آمین !