تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     07-12-2020

سانحہ بابری مسجد کے 28 برس اور انصاف کا قتل… (2)

6 دسمبر 1992ء کو انتہاپسند بلوائیوں کی جانب سے شہید کی جانے والی بابری مسجد کی شہادت کے سانحے کو آج 28 برس گزر چکے ہیں‘ ان اٹھائیس برسوں میں اس ایک مسجد کے نام پر بھارت بھر میں جس قدر خونِ مسلم بہایا گیا‘ وہ مذہبی رواداری اور انسانی حقوق کے منہ پر اور اس کا پرچارکرنے والی دنیا بھر کی دو درجن سے زائد تنظیموں کے چہرے پر بھارت کا مارا جانے والا وہ طمانچہ ہے جسے انڈین سپریم کورٹ کے بابری مسجد پر سنائے جانے والے ''فیصلے‘‘ نے کلنک میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس حقیقت سے سبھی آگاہ ہوں گے کہ آج کی برسر اقتدار انتہا پسند مسلم دشمن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا جنم کانگریس کے وجود سے ہی ہوا تھا‘ اس لئے اس جماعت میں اسی سوچ اور انتہا پسندی کا غلبہ ہے جو قیام پاکستان کے وقت سے انتہاپسندانہ سوچ رکھنے والوں کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ بھارت کی اس وقت کی حکمران جماعت اور اس کے لیڈران بشمول سونیا گاندھی اور کانگریس رہنما‘ دنیا بھر کو یہی بتاتے چلے آ رہے تھے کہ وہ سیکولر ہونے کی وجہ سے بابری مسجد گرانے کے خلاف تھے اور دنیا بھی یہی سمجھتی رہی ہے کہ بابری مسجد کو شہید کرنے میں صرف اس وقت کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، کلیاں سنگھ، امیت شاہ، یوگی ادتیا ناتھ اور ان کی ہمنوا شدت پسند بھارتی تنظیمیں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، آر ایس ایس اور جن سنگھ وغیرہ ملوث تھیں لیکن سچ یہ ہے کہ بابری مسجد کے خلاف مذہبی نفرت کی آگ بھڑکانے کی ابتدا کانگریس نے یہ جانتے بوجھتے ہوئے کی تھی کہ 1528ء سے 1949ء تک‘ بابری مسجد ایودھیا میں باقاعدہ نماز پنجگانہ ادا ہوتی رہی۔ البتہ پاکستان بننے کے ڈیڑھ سال بعد 22، 23 دسمبر 1949ء کی شب مقامی کانگریس رہنمائوں کی زیر نگرانی چند شر پسندوں نے مسجد کے اندر ٹھیک منبر کی جگہ پر رام کی مورتی رکھ کر بابری مسجد شہید کرنے کی بنیاد رکھی تھی۔ بی جے پی کا تو اس وقت دور دور تک کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ کانگریس ہی تھی جس نے 1949ء میں انتہا پسندی کا زہر بھارت بھر کے ہندوئوں میں گھولتے ہوئے انہیں پہلا نعرہ دیا ''بچہ بچہ رام کا... جنم بھومی کے کام کا‘‘۔ اور 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد شہید کرنے کیلئے نئی دہلی سے روانہ ہونے سے پہلے ہندوئوں کے سب سے بڑے مہنت وید ناگو کی زیر قیادت سادھوئوں کے ایک گروپ نے اس وقت کے کانگریسی وزیراعظم نرسمہا رائو سے ملاقات کی اور ان سے با قاعدہ اشیرباد لینے کے بعد ہی بابری مسجد شہید کرنے کی بھارت بھر میں کال دی گئی۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے بھارت بھر سے دو لاکھ کے قریب 'متبرک اینٹیں‘ جمع کی گئیں اور ملک کے کونے کونے سے لاکھوں کی تعداد میں جنونی اور انتہا پسند افراد سرکاری سرپرستی میں ایودھیا کی طرف چل پڑے اور راستے میں آنے والی مسلم آبادیوں اور عبادت گاہوں کو نذرِ آتش کرتے گئے۔ اس وقت بھی دنیا بھر سے سوال اٹھایا گیا تھا کیا یہ سب تیاریاں کسی بھی صوبائی یا مرکزی حکومت سمیت بھارت کی فوجی اور سول خفیہ ایجنسیوں کی نظروں سے اوجھل رہ سکتی تھیں؟ جب بھارت کے24 بڑے بڑے مہنتوں، سادھوئوں اور پجاریوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی سات سات فٹ گہری بنیادیں بھرنے کا آغازکیا تو اس وقت بھارتی سرکار اندھی اور گونگی‘ بہری ہو چکی تھی ؟ جان بوجھ کر ایودھیا میں بابری مسجد شہید کرنے اور وہاں رام مندر کی بنیادوں کو بھرنے کیلئے پورے بھارت میں ہفتہ وار عام تعطیل کا دن منتخب کیا گیا۔بابری مسجد اور رام مندر کی حقیقت یہ ہے کہ دالمیک رشی نے مہاراجہ رام چندر جی کی کہانی رام کتھا کو رامائن کے نام سے قلمبند کیا ہے‘ اس طرح رام چندر ہندوئوں کے دیوتا بن گئے لیکن ان کے پیروکار 18ویں صدی عیسوی میں نمایاں ہوئے اور راما نندی فرقہ نے اس زمانہ میں عروج حاصل کیا‘ اسی نے چند دہائیوں قبل یہ نظریہ پیش کیا کہ رام چندر جی ایودھیا میں پیدا ہوئے تھے۔
22 دسمبر 1949ء کی شب‘ جب بھارت پر سیکولر اور یک قومی نظریہ کے داعی گاندھی اور ان کے جانشین نہرو کی حکومت تھی‘ ہندو فرقہ پرستوں نے بابری مسجد کے اندر کچھ بت توڑ کر رکھ دیے اور اعلان کر دیا کہ کہ وشنو کے اوتار رام چندر جی نے خودکو اپنی جنم بھومی میں ظاہر کر کے ثابت کر دیا ہے کہ یہی جگہ رام جی کی جنم بھومی ہے اور اسی شب اس مسجد میں رکھے گئے بتوں کی پوجا شروع کر دی گئی۔ ہر طرف شور مچ گیا ہندوئوں اور مسلمانوں میں کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی‘ جس پر مسلمانوں نے عدالتوں کا رخ کیا تو عدالت نے ہندوئوں کو محدود تعداد میں بابری مسجد میں رکھے اپنے بتوں کی پوجا کرنے کی اجا زت دے دی۔ بابری مسجد میں ہندوئوں کو کھلے عام پوجا کی اجا زت دنیا بھر میں جمہوریت اور سیکولرازم کا پرچار کرنے والی کانگریس اور نہرو کے نواسے راجیو گاندھی کے دور میں دی گئی۔اس کے بعد فرقہ پرست ہندو سرکاری سرپرستی میں ہر طرف سے ایودھیا کی طرف امڈتے چلے آئے۔ ایسے میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلم دشمنی کے نام پر خونیں کھیل کا آغاز کر دیا اور نتیجتاً چھوٹے صوبوں کے ساتھ ساتھ پہلی دفعہ بھارت کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش کی حکمران بھی بن گئی۔7 اکتوبر1991ء کو یو پی حکومت کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا‘ جس کے مطابق بابری مسجد کے پلاٹ نمبر 159، 160، 171 اور 172 کو صوبائی حکومت کی ملکیت میں دے دیا گیا تھا، یعنی اس سے اتر پردیش کی صوبائی حکومت بابری مسجد کی 12 ایکڑ اراضی حاصل کرنے کے قابل ہو گئی؛ اگرچہ یہ نوٹیفکیشن 14 اگست1991ء کے الٰہ آباد ہائیکورٹ کے حکم کے منا فی تھا جس میں کہا گیا تھا کہ فریقین اس جگہ میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کر سکیں گے اور جون 1991ء سے زیر بحث اس جائیداد کی نوعیت تبدیل نہیں کی جائے گی؛ تاہم اتر پردیش کی حکومت نے عدالتی فیصلوں کے وقار کو پائوں تلے روندتے ہوئے متنازع زمین کے اردگرد لگائی جانے والی باڑ کو ہٹا دیا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ نے اس متنازع علا قہ کا دورہ کر کے وہاں رام مندر کی تعمیر کا حلف اٹھا کر اپنے مسلم کش گھنائونے عزائم کا اظہار کیا۔ 26 اکتوبر1991ء کو ایک خصوصی سہ رکنی عدالت نے اتر پردیش حکومت کو ہدایت کی کہ وہ مسجد کی جگہ پر مستقل ڈھانچے کو روکے، 16 نومبر کو سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ وہ پرانی مسجد کی جگہ نئے مندر کی تعمیر نہ کرے اور جب تک ریاستی ہائیکورٹ فیصلہ نہ کر دے‘ اس جگہ کی موجودہ صورت حال برقرار رکھی جائے۔ سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو مسجد کے تحفظ کا ذمہ دار قررا دیا لیکن سپریم کورٹ کے سخت حکم کے با وجود اتر پردیش کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اور فرقہ پرست ہندوئوں کی زیر نگرانی 9 جولائی1992 کو بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر شروع کر دی گئی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ساتھ ہی وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے ذریعے بابری مسجد سے 200 میٹر جنوب مشرق میں رام چند کے چھوٹے بھائی لکشمن کے نام پر ایک علیحدہ مندر کی تعمیر بھی شروع کرا دی۔ اس وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی‘ وہ اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو روک سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔
480 سالہ پرانی تاریخی بابری مسجد ویسے تو 6 دسمبر 1992ء کوشہید کی گئی مگر اس پر پہلا پتھر نہرو‘ دوسرا اس کے نواسے اور تیسراپتھر کو سیکو لر کہلوانے والی جماعت کانگریس کے وزیراعظم نرسمہا رائو نے پھینکا۔ 2009ء میں بابری مسجد کی شہادت کے جب سترہ سال مکمل ہوئے تو اس پر قائم کئے گئے لیبر ہان کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایل کے ایڈوانی، جوشی اور کلیان سنگھ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ جس پر کلیان سنگھ نے کہا ''مجھے بابری مسجد کے انہدام پر ذرہ برابر بھی افسوس نہیں‘‘ اسے دکھ یہ تھا کہ ابھی تک رام مندر کی تعمیر مکمل کیوں نہیں ہو سکی؟ اس جگہ رام مندر کی تعمیر کا سہرا نریندر مودی نے اپنے سر سجایا جنہوں نے کورونا لاک ڈائون میں کشمیر کرفیو کا ایک سال مکمل ہونے پر فاتحانہ انداز میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنا ایک اور انتخابی وعدہ پورا کر دیا ہے، اس کے بعد بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی حقیقت کو سمجھنے میں دیر نہیں لگنی چاہیے۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved