تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     07-12-2020

سوشل میڈیا اور اخبار

موجودہ سائنسی دور میں جب ٹی وی چینلز پر کسی خبر کے ٹِکرز چلنے سے بھی پہلے کوئی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی سی تیزی سے وائرل ہو کر زبان زدِ عام ہوجاتی ہے‘ قومی اخبارات کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بعض اوقات ریٹنگ اور ایک دوسرے پر پہل کے چکر میں بعض چینلز سے غیر مصدقہ خبر بھی نشر ہو جاتی ہے اور خبر کی تصدیق کا انتظار کرنے کے بجائے ''ذرائع‘‘ کا لفظ استعمال کرکے ٹِکرز چلا دیے جاتے ہیں اور پھر جوں جوں معلومات وصول ہوتی جاتی ہیں تو ان کے مطابق ٹِکرز تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ قومی ٹی وی چینلز کا چونکہ باقاعدہ ایک نیٹ ورک موجود ہوتا ہے لہٰذا اگر کوئی غلط خبر بھی چل جائے توکچھ دیر میں اس کی تصحیح کر دی جاتی ہے مگر سوشل میڈیا پر تو کسی تصدیق یا تصحیح کا رواج ہی نہیں ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا کے دانشوروں میں اتنا شعور ہے کہ کسی بھی افواہ کی سچائی یا گہرائی تک پہنچ سکیں اورتصدیق یا تردید کے بعد اسے آگے پھیلائیں بلکہ وہاں تو یہ دیکھنے میں آیا کہ ادھر سے کسی نے ایک جھوٹ گھڑا اور اُدھر جھٹ پٹ میں لاکھوں بے شعور 'دانشوروں‘ کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا کروڑوں لوگوں تک پہنچ گیا جبکہ اخبار میں خبر کی اشاعت تک اس کی تصدیق یا تردید کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہوتا ہے اور ایک مستند خبر ہی قارئین تک پہنچتی ہے۔
اگرچہ سوشل میڈیا کے بعض اچھے پہلو بھی ہیں اور یہ آج کے مصروف ترین دور میں رابطے اور معلومات کا ایک سستا، تیز اور آسان ذریعہ بھی ہے، فیس بک کے ذریعے ایک دوسرے کی خبر‘ خیریت ملتی رہتی ہے، غمی وخوشی اور آمد ورفت کی معلومات کے ساتھ ساتھ ہماری سالہا سال کی یادداشتیں بھی اس میں محفوظ رہتی ہیں، ہماری تصاویر اور وڈیوز کا ذخیرہ بھی جمع رہتا ہے‘ اسی طرح وٹس ایپ کے ذریعے پیغام رسانی کا عمل نہایت ارزاں و سہل ہو گیا ہے۔ آج کل سنجیدہ لوگ زیادہ تر ٹویٹر استعمال کرتے ہیں جس کے ذریعے اپنی بے شمار مصروفیات کے باوجود وہ اپنی بات، تصویر، وڈیو، پیغام یا تقریب کو بہ آسانی دوسروں کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صرف اپنی بات اور پیغام شیئر کریں اور اِدھر اُدھر کی سنی سنائی افواہیں آگے پھیلانے سے پہلے ان کی تصدیق ضرور کریں۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر سوشل میڈیا کے فوائد بے شمار ہو جائیں گے لیکن موجودہ حالات و واقعات دیکھ کر اس امر کی توقع کرنا بے معنی سا لگتاہے کیونکہ دنیا بھر میں اور خصوصاً ہمارے معاشرے میں کسی بھی افواہ کو تصدیق کے بغیر فوری آگے پھیلانا عام سی بات ہے۔ ہمارے خودساختہ دانشور لاشعور طور پر صرف لائکس، کمنٹس اور ویوز کے چکر میں اُوٹ پٹانگ چیزیں زیادہ شیئر کرتے ہیں کیونکہ ایسی چیزوں کو سوشل میڈیا پر زیادہ تیزی سے رسپانس ملتا ہے اور یہی ان کا مقصد ہوتا ہے۔ بعض تصویریں اور تحریں گزشتہ کئی سالوں سے سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں مگر لوگ آج بھی انہیں تازہ سمجھ کر شیئر کرتے جا رہے ہیں مثلاً بعض بچوں کی تصاویر کے ساتھ یہ پیغام لکھا ہوتا ہے کہ یہ بچہ گم ہو گیا ہے اور اس وقت فلاں تھانے میں موجود ہے‘ اس کی تصاویر شیئر کریں تاکہ یہ اپنے والدین تک پہنچ جائے۔ وہ بچہ جوان بھی ہو چکا ہوتا ہے لیکن یہ میسج اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر واقعی کوئی بچہ اپنے اہل خانہ سے بچھڑ جائے تو لوگ اسے بھی پرانی خبر سمجھ کر آگے شیئر نہ کریں‘ اس لیے ایسی چیزوں کو شیئر کرنے سے پہلے تصدیق لازم ہے اور یہ کوئی بڑا کام نہیں‘ اکثر ایسی تصاویر کے کمنٹس میں یہ معلومات مل جاتی ہے‘ پھر تصویر کی تاریخ سے بھی علم ہو سکتا ہے کہ یہ پہلی بار کب شیئر کی گئی اور سب سے بڑھ کر شیئر کرنے والا، اگر پولیس یا اس قسم کے دوسرے اداروں کے آفیشل پیجز سے ایسی چیز شیئر ہو تو اس کی حقیقت میں کوئی شک نہیں رہتا۔ 
چند روز قبل بعض چینلز پر سابق وزیراعظم پاکستان میر ظفراللہ جمالی صاحب کے انتقال کی غلط خبر 'بریکنگ نیوز‘ کے طور پر چلائی گئی، جسے دیکھتے ہی فوراً سوشل میڈیا حرکت میں آ گیا اور اس جھوٹی خبر کو چند لمحوں میں پورے ملک میں پھیلادیا گیا لیکن اس بار کسی عام آدمی نے نہیں بلکہ محترم صدرِ پاکستان ڈاکٹرعارف علوی صاحب نے یہ خبر دیکھتے ہی فوراً اپنے ٹویٹر اکائونٹ سے تعزیتی پیغام جاری کر دیا۔ صدرِ مملکت کا ٹویٹ دیکھتے ہی کئی وزرا اور مشیران نے بھی کسی تصدیق کرنے کے بجائے فوراً اپنا حصہ ڈالا اور اس خبر کو مزید آگے پھیلا دیا۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ ان تمام افراد کے پاس جدید ترین ذرائع اور رابطے موجود ہیں جن سے وہ ایک منٹ سے پہلے اس خبر کی تصدیق کی جا سکتی تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا اور سنی سنائی افواہ کو فوراً فارورڈ کر دیا گیا اور چند لمحوں میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ملک کے کونے کونے تک پھیل گئی۔ چند منٹوں کے بعد ہی کسی نے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی صاحب کو بتایا کہ جناب نے جو سابق وزیراعظم کے انتقال پر تعزیتی پیغام ٹویٹ کیا ہے‘ وہ تو زندہ ہیں اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں جس کے بعد صدر صاحب نے تصدیق کے لئے جمالی صاحب کے بیٹے کو فون کرکے میر صاحب کی خیریت دریافت کی تو علم ہوا کہ میر ظفراللہ جمالی صاحب وینٹی لیٹر پر ہیں؛ البتہ زندہ ہیں، یہ سن کر صدرصاحب نے اپنا پہلا ٹویٹ ڈیلیٹ کیا اور دوبارہ ٹویٹ کیاکہ میرظفراللہ جمالی صاحب کے انتقال والی خبر غلط (جھوٹی) معلومات پر مبنی تھی لہٰذا میں نے اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا ہے اور انہوں نے اس عمل پر جمالی صاحب کے اہلِ خانہ اور قوم سے معافی بھی مانگی۔ بلاشبہ صدرِ مملکت کا اس طرح اپنی غلطی کا اعتراف اور معافی مانگنا ان کے بڑے پن کا ثبوت ہے لیکن جس طرح انہوں نے ٹویٹ کرنے کے بعدجمالی صاحب کے بیٹے کو فون کیا اور خبر کی تصدیق چاہی‘ اگر وہ پہلے ہی فون پر اس کی تصدیق کر لیتے تو غیر ضروری شرمندگی سے بچا جا سکتا تھا اور لاکھوں لوگوں تک یہ جھوٹی خبر نہ پھیلتی۔ اسی ایک افواہ کی مثال ہی کافی ہے کہ ایک ٹی وی چینل پر غلط خبر نشر ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی لاکھوں لوگوں نے یہ خبر شیئر کردی جس کی وجہ سے سابق وزیراعظم کی بیماری کے باعث پریشان جمالی خاندان کو مزید دکھ اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ خبر کسی قومی تو دور‘ مقامی اخبار میں بھی شائع نہیں ہوئی بلکہ سب نے مصدقہ تصحیح شدہ خبر نشر کی جس میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا موقف بھی شامل تھا۔ 
اس واقعے کے دو دن بعد جب واقعی جمالی صاحب کا انتقال ہوا تو اس وقت پچھلی خبر کے پیشِ نظر کوئی بھی اس پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا اور الگے دن اخبارات میں خبر پڑھ کر لوگوں کو خبر کی حقانیت کا یقین آیا۔ کوئی خبر چوبیس گھنٹے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بار بار نشر ہونے کے باوجود لوگ اس کی تصدیق اور تفصیلات کے لئے صبح سویرے اخبار کے منتظر ہوتے ہیں اور جب تک صبح اخبار پر ایک نظر نہ پڑ جائے‘ اس وقت تک اکثر لوگوں کو ناشتہ بھی ہضم نہیں ہوتا۔ اسی لئے اس جدید ڈیجیٹل سائنسی دور میں بھی اخبارات کی اہمیت کم نہیں ہوئی اور سوشل میڈیا پر لوگوں کے اعتماد میں کمی نے مطالعہ اور کتب بینی کے شوق کے بھی دوبارہ زندہ ہونے کی امید اجاگر کر دی ہے۔
اللہ اور اس کے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیﷺ کا حکم بھی یہی ہے کہ کوئی بھی بات تصدیق کے بغیر آگے نہ پھیلائو، جھوٹ سے بھی بار بار منع فرمایا گیا ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ محض ریٹنگ کے چکر میں کسی غلط خبر یا افواہ کو نہ پھیلائیں اور کسی بھی خبر کو آگے شیئر کرنے سے پہلے اس کی دستیاب وسائل اور ذرائع سے تصدیق ضرور کریں تاکہ معاشرتی سطح پر اس کے نقصانات سے بھی بچا جا سکے اور ذاتی طور پر بھی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved