سردار شیرباز خاں مزاری بھی راہی ٔملکِ عدم ہوئے۔ 1930ء میں بلوچوں کے مزاری قبیلے کے سربراہ میر مراد بخش خاں مزاری کے گھر میں آنکھ کھولی۔ تین بھائیوں میں منجھلے تھے۔ ان سے بڑے بلخ شیر مزاری اور چھوٹے شیر جان مزاری۔ تین بیٹیاں بھی مراد بخش کے گھر کی رونق تھیں۔ صرف دوسال کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ باقی بہن بھائی بھی چھوٹے تھے۔ اس دور کے رواج کے مطابق انگریز نے مرحوم سردار کی اولاد کو ان کی بلوغت تک اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ (نواب زادہ نصر اللہ خاں بتایا کرتے تھے‘ ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا تھا) سرداروں‘ نوابوں اور وڈیروں کے بچوں کی طرح شیر باز کی تعلیم بھی لاہور کے ایچی سن کالج میں ہوئی‘ یہاں سے ڈیرہ دون(انڈیا) کے رائل ملٹری کالج کا رخ کیا جہاں جنرل فضل حق اور ایئر مارشل رحیم ان کے کلاس فیلو تھے۔ شیر باز کی دوبیگمات میں ایک نواب اکبر بگٹی کی ہمشیرہ تھیں اور دوسری کا تعلق حیدر آباد (دکن ) کی نواب فیملی سے تھا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد روجھان واپس آکر عملی سیاست کا آغاز کیا لیکن ان کی سیاست سرداروں‘ نوابوں اور وڈیروں کی روایتی سیاست سے مختلف تھی۔ یہ فیلڈ مارشل ایوب کا دور تھا‘مغربی پاکستان میں نواب آف کالا باغ امیر محمد خان ان کے گورنر تھے۔ بھاری بھرکم نوکیلی مونچھوں اور اونچے طرے کے ساتھ وہ صوبے میں رعب سے زیادہ‘ ہیبت کی علامت تھے۔ شیر باز اپنے علاقے کی یونین کونسل کے چیئرمین تھے۔ 2جنوری1965ء کے صدارتی الیکشن میں فیلڈ مارشل کے مقابلے مادرِملت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت (اور کھلی حمایت) کوئی آسان کام نہ تھا‘ شہروں میں معاملہ قدرے مختلف تھا لیکن ڈیرہ غازی خاں جیسے دور دراز علاقے میں یہ خود کو سوطرح کی مصیبتوں میں ڈالنے والی بات تھی‘ لیکن شیر باز بے خطر اس آگ میں کود پڑے۔ (نواب آف کالا باغ کے اپنے شہر میانوالی میں مولانا عبدالستار خاں نیازی نے سرہتھیلی پر رکھ لیا تھا۔ اپنے حفیظ اللہ نیازی کے بزرگ بھی اس دشت میں ان کے ہم سفر تھے)
1970ء کے الیکشن میں جب پنجاب (اور سندھ) میں بھٹو صاحب کا طوفان تھا۔ شیر باز آزاد امید وار کے طورپرقومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ ڈیرہ غازی خاں کی دوسرے نشست پر جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نذیر لغاری قبیلے کے سردار ‘محمد خان لغاری (فاروق لغاری کے والد) کے مقابل سرخرو رہے۔ سیاست کے قومی افق پر شیر باز تیزی سے ابھررہے تھے۔ مشرقی پاکستان میں یحییٰ خاں کے ملٹری آپریشن (1971ء)کے خلاف مغربی پاکستان سے جو چند آواز بلند ہوئیں ان میں شیر باز کی آواز بھی تھی۔ اہل سیاست میں ایئر مارشل (ر) اصغر خاں اور خان ولی خاں تھے اور شاعروں میں حبیب جالب۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ادھر بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا ‘ شیر باز سے ان کی دوستی تھی لیکن بلوچ سردار نے اقتدار کا چوغہ چگنے کے بجائے آزاد پرواز کو ترجیح دی۔ اسمبلی میں مولانا ظفر احمد انصاری ‘ حاجی مولا بخش سومرو اور نورمحمد ہاشمی جیسے بزرگ پارلیمنٹیرینز نے نوجوان شیر باز کوآزاد گروپ کا لیڈر منتخب کرلیا تھا۔ہمیں مئی1972ء میں ملتان کے قلعہ قاسم باغ میں سردار شیر باز مزاری کو پہلی بار دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر نذیر احمد اور حامد رضا گیلانی بھی مقررین میں شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں نے قومی اسمبلی کے باہر کونسل مسلم لیگ کے سردار شوکت حیات کے ساتھ بدسلوکی کی تھی‘ جس میں شوکت حیات کی آستین بھی پھٹ گئی ۔ (بعد میں شوکت حیات پیپلز پارٹی کو پیارے ہوگئے) ملتان کے جلسہ عام میں شیر باز نے اس پر بھٹو صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ڈاکٹر نذیر کا لہجہ بھی بہت جارحانہ تھا۔ انہوں نے عوام کی اس عدالت میں بھٹو صاحب کے خلاف ملک توڑنے کا مقدمہ پیش کیا۔یہ ان کی شہادت(8جون) سے دو‘ اڑھائی ہفتے پہلے کی بات تھی۔
1973ء کے آئین کومتفقہ بنانے میں سردار شیر باز مزاری اور ان کے آزاد گروپ نے اہم کردار ادا کیا۔بلوچستان میں مینگل حکومت کی برطرفی اور لیاقت باغ سانحہ کے زخموں کے باوجود ولی خان نے بھی اس کارِ خیر میں بھرپور حصہ ڈالا۔ فروری 1975ء میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی اور ولی خان سمیت اس کی قیادت کی گرفتاری کے بعدشیر باز نے نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی (NDP) کی بنیاد رکھی ۔یہ نیپ کے پسماندگان کے لیے نیا سیاسی پلیٹ فارم تھاکہ وہ مایوسی میں منفی ردِ عمل کاشکار نہ ہوں۔( لیاقت باغ فائرنگ کے بعد اجمل خٹک کا بل جابیٹھے تھے اور سردار دائود کی سرپرستی میں آزاد پختونستان کی تحریک چلا رہے تھے)بیگم نسیم ولی خاں این ڈی پی میں سردار صاحب کی ''دستِ راست‘‘ تھیں ۔ بھٹو صاحب کے خلاف پی این اے کے 9ستاروں میں شیر باز کی این ڈی پی بھی ایک ستارہ تھی۔ انتخابی مہم کے بعد احتجاجی تحریک میں بھی این ڈی پی کا کردار کسی سے کم نہ تھا۔ بھٹو صاحب نے تھک ہار کر پی این اے سے مذاکرات کا آغاز کیا تو شیر باز بھی ایئر مارشل اصغر خان اور مولانا نورانی کی طرح‘بھٹو پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے۔ انہیں یقین تھا کہ بھٹو اس میں سنجیدہ اور مخلص نہیں۔ وہ اسے بھٹو صاحب کا وقت گزاری کا حربہ سمجھتے تھے۔ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا‘ لیکن بھٹو صاحب مذاکرات کو ادھورا چھوڑ کر عرب ملکوں کے چھ روزہ دورے پر نکل گئے۔پروفیسر غفور نے ''پھر مارشل آگیا‘‘ میں لکھا:پی این اے کے بعض لیڈروں کو یقین نہ تھا کہ مسٹر بھٹو اپوزیشن کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے نفاذ میں مخلص ہوں گے۔ نفرت اور شکوک و شبہات سے بھری سیاست نے سیاست اور سیاسی بصیرت کو اس قدر دھندلادیا تھا اور طرفین کی مذاکراتی مہارت کو اتنا بے دست وپا کردیا تھا کہ نہایت اہمیت کے حامل معاملات بھی نہایت معمولی وجوہات کے سامنے دم توڑ گئے تھے۔ پروفیسر صاحب یہاں مفتی محمود اور بیگم نسیم ولی کی گفتگو کا حوالہ بھی لائے‘ جس میں سردار شیر باز خان مزاری بھی موجود تھے۔ ''بیگم صاحبہ نے مفتی محمود سے کہا کہ بھٹو پر (دوبارہ) انتخابات کرانے کے سلسلے میں اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ مارشل لا لگنے دیں۔ 90 دنوں میں انتخابات کی ضمانت صرف یہی اقدام دے سکتا ہے‘‘۔ اس سے قبل ایئر مارشل اصغر خان بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرچکے تھے۔
شیر باز خاں مزاری کی این ڈی پی ان جماعتوں میں تھی جنہوں نے ضیا الحق کی مارشل لاء حکومت کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا۔ پیر صاحب کی مسلم لیگ‘ نواب زادہ کی پی ڈی پی ‘ مفتی صاحب کی جے یو آئی اور میاں طفیل صاحب کی جماعت اسلامی نے مارشل لا میں وزرا تیں قبول کرلی تھیں۔ ان کے خیال میں انتخابات کے لیے فضا ساز گار بنانے کی خاطر ضیا الحق کو واقعی ان کے عملی تعاون کی ضرورت تھی۔ مارشل لا کے خلاف ایم آر ڈی میں بھی این ڈی پی شامل تھی۔ اس دوران عوامی نیشنل پارٹی بھی وجودمیں آچکی تھی‘ لیکن شیر باز نے ولی خاں سے بعض امور پر اختلافات کے باعث این ڈی پی قائم رکھی۔ شیر باز 1988ء کا انتخاب ہار گئے اور اس کے اتھ عملی سیاست سے بھی لاتعلقی اختیار کرلی۔ اب وہ کتابوں کی دنیا کے ہو کر رہ گئے تھے۔ وہ پاکستان کے ان چند سیاستدانوں میں تھے جنہیں کتابوں کا بے پناہ شوق تھا‘ مثلاً بھٹو صاحب ‘ پیر پگارا ‘ سردار اکبر بگٹی اور مخدم زادہ سید حسن محمود۔فرصت کے اوقات میں شیر باز نے A Journey to Disillusionment کے نام سے اپنی یاد داشتیں مرتب کرڈالیں‘ جو سیاسی کارکنوں اور سیاست کے طالب علموں کیلئے قابلِ قدر اثاثہ ہیں۔