تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     08-12-2020

افسوس

کورونا کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ ہونے کے بعد بیشتر طلبہ کی خوشی دیدنی تھی۔ جیسے ہی فیصلے کا اعلان ہو اتو اُنہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی خوشیاں بانٹنا شروع کردیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی بے شمار پوسٹس نظروں سے گزریں لیکن اِن پر دل میں صرف افسوس کے تاثرات ہی اُبھرتے رہے۔یہ خیالات بھی ستاتے رہے کہ ہرطرح کا کاروبارِ زندگی اگر معمول کے مطابق نہیں تو کم از کم کسی طور چل ضرور رہا ہے لیکن سارا نزلہ تعلیمی اداروں پر ہی کیوں گرتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں پہلے ہی ناخواندگی کا عفریت اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے، وہاں کے نوجوان اِس بات پر خوشیاں منا رہے ہیں کہ اب اُنہیں سکول، کالج یا یونیورسٹی نہیں جانا پڑے گا۔ اِن حالات میں اگر ہمارا کوئی بھی تعلیمی ادارہ دنیا کے 350 بہترین تعلیمی اداروں میں جگہ حاصل نہیں کرسکا تو اِس میں ہمارے لیے حیرت کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ سرکار ی سطح پر تو یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ملک میں شرح خواندگی 57فیصد ہے لیکن حقائق قدرے مختلف صورت حال پیش کرتے ہیں۔یہ بھی جان لیجئے کہ ہمارے ہاں خواندہ افراد کے زمرے میں وہ افراد بھی آتے ہیں جو اخبار پڑھ سکیں یا پھر کسی زبان میں کوئی تحریر لکھ سکیں‘ خواہ اپنا نام ہی۔ اِن سب افراد کو خواندہ قرار دینے کے بعد بھی اگرسرکار کا یہ دعویٰ تسلیم کرلیا جائے تو بھی یہ خطے کے دیگر ممالک سے کہیں کم ہے۔ اس خطے میں واقع تقریباً تمام ممالک شرح خواندگی کے حوالے سے پاکستان سے کافی آگے دکھائی دیتے ہیں۔ ایران اور بھارت میں یہ شرح 73فیصد، بنگلہ دیش میں92فیصد جبکہ سری لنکا اور مالدیپ میں یہ 99فیصد تک ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیجئے کہ شعبۂ تعلیم میں ہم کہاں کھڑے ہیں؛ البتہ خوش ہونے کی ایک تاویل ہمارے پاس ضرور موجود ہے کہ کم از کم ہم افغانستان سے تو آگے ہیں۔یہ بھی مقامِ شکر ہے کہ ہمارے پاس ہمیشہ دل بہلانے کا کچھ نہ کچھ سامان موجود ہوتا ہے۔ بھلے صورت یہ ہو کہ ؎ 
ایک ایسا بھی وقت ہوتا ہے
مسکراہٹ بھی آہ ہوتی ہے
چلئے تعلیم کے ساتھ اپنے سلوک کا تھوڑا سا مزید جائزہ لیتے ہیں! جب کوئی نوجوان اپنی روایتی تعلیم مکمل کرلیتا ہے تو بیشتر کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ افسوس کہ ہمارے ہاں صرف 9فیصد طلبہ ہی اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل کرپاتے ہیں۔اِ س حوالے سے بھی ہم خطے کے دیگر ممالک سے پیچھے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں یہ شرح 52فیصد،بھارت میں 25فیصداور سری لنکا میں 17فیصد ہے۔ اور تو اور بنگلہ دیش میں بھی یہ شرح ہم سے 4فیصد زیادہ ہے۔یہ بنگلہ دیش تو نجانے کیوں ہرمعاملے میں ہمارے سینوں پر مونگ دلنے لگا ہے۔ وہ بنگالی‘ جنہیں کبھی نکما اور ناکارہ سمجھا جاتا تھا‘ آج بیشتر شعبوں میں ہمارے کان مروڑ رہے ہیں۔کبھی مچھلی اور چاول کھانے کی اُن کی عادت کا تمسخر اُڑایا جاتا تھا لیکن آج ہم اُن سے آنکھیں نہیں ملا پارہے۔ کورونانے تو خیر پوری دنیا کو ہی اُلٹ پلٹ کرکے رکھ دیا ہے لیکن اِس سے پہلے بنگلہ دیش کی سالانہ شرح نمو7.8فیصد پہ مستحکم کھڑی تھی جبکہ ہماری شرح نمو 5.2 سے لڑھکتے ہوئے 4.5فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ خیر اِس وقت تو ملکی معیشت کے بارے میں نہ ہی بات کی جائے تو بہتر ہے کہ خوامخواہ دل برا ہوگا؛ اگرچہ ہم چیزوں کو دل پر نہیں لیتے لیکن پھر بھی احتیاط لازم ہے۔ یوں بھی جب ہم نے سوچنے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرنی تو پھر فکر کس بات کی۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر مجموعی طور پر ہم اخلاقیات سے عاری ہوتے جارہے ہیں‘ ہمارا کیا نقصان ہے اگر دنیا ہمارے بارے میں اچھا نہیں سوچتی‘ بس ریت میں سر ہی تو دبانا ہے‘ سو ہم بکثرت یہ مشق دہرائے چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی ہم پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ ہم خوابوں اور خیالوں کی خوب صورت دنیا میں رہنے کے عادی ہوچکے ہیں کہ جوہونا ہے وہ تو ہو کر ہی رہنا ہے تو پھر خوامخواہ اپنی صحت خراب کرنے کا کیا فائدہ۔ اِسی لیے تو ہم ہرحال میں خوش رہنے والی قوم ہیں، ہمیں بھلا کس بات کی فکر
بس انتہا ہے‘ چھوڑیے‘ بس رہنے دیجئے
خود اپنے اعتبار سے شرما گیا ہوں میں
اہم ترین شعبہ تعلیم بھی ہمارے اِنہی رویوں کی زد میں ہے۔اِن حالات میں اگر ہماری کوئی بھی جامعہ دنیا کی 350بہترین جامعات میں اپنی جگہ نہیں بنا سکی تو پھر اِس کے لیے کسی دوسرے کو کیا موردِ الزام ٹھہرانا۔ یہ فہرست ایک برطانوی ادارہ ہرسال مرتب کرتا ہے جس کی اِس سال سامنے آنے والی فہرست میں ہمارے لیے خود احتسابی کا کافی سامان موجود ہے۔ ہم ویسے تو ہمیشہ اپنا موازنہ دوسروں سے کرنے کے شوقین ہیں لیکن صرف اُن شعبوں میں جن میں ہمیں اپنا پلڑا کسی قدر بھاری نظرآتا ہے ؛ تاہم اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو اب ہمارے لیے ایسے شعبے تلاش کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے۔ تعلیم، تعلیم، تعلیم کی گردان کرتے ہم تھکتے نہیں لیکن عملاً صورتحال خون کے آنسو رلائے دیتی ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنا منصب سنبھالتے ہی سکول نہ جانے والے ڈھائی کروڑ بچوں کی بات کی تھی جس سے اُمید پیدا ہوئی تھی کہ نئی حکومت فروغِ تعلیم پر خصوصی توجہ دے گی کہ اس حکومت کو تعلیم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے، گزشتہ حکومتیں جو نہ کرسکیں‘ وہ یہ حکومت کردکھائے گی مگر یہ اُمید اس وقت دم توڑ گئی جب حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا سالانہ بجٹ 46ارب روپے سے کم کرکے 29ارب روپے کردیا۔ صرف اِس ایک اقدام نے ہی واضح کردیا تھا کہ آگے چل کر شعبۂ تعلیم کو کتنی اہمیت ملے گی۔یہ ایسے ہی اقدامات کا نتیجہ رہا کہ ہم اِس سال بھی دنیا کی بہترین جامعات کی فہرست میں کہیں نظر نہیں آتے جبکہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کی تین یونیورسٹیاں اِس فہرست میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔ چین، سعودی عرب اور ملائیشیا بھی ہم سے آگے نکل گئے اور ہم فقط منہ ہی دیکھتے رہ گئے۔ البتہ یہاں ایک مرتبہ پھر ہمارے پاس دل کی تسلی کا سامان موجود ہے کہ دنیا کی 5سو بہترین جامعات کی فہرست میں ہماری تین جامعات اپنی جگہ بنانے میں ضرور کامیاب رہی ہیں۔
بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی کہ کچھ تو اشک شوئی کا سامان ہوا‘ ورنہ تو دل بیٹھ سا گیا تھااور اُفسردگی چھا گئی تھی۔اللہ کرے کہ تعلیم کی دگرگوں صورتِ حال دیکھ کر دل کا یہ بیٹھنا جلد ختم ہوجائے۔ ویسے یہاں تو ایسی حکومتیں بھی گزری ہیں جنہوں نے ہائرایجوکیشن کمیشن کو اس لیے عضو معطل بنا کر رکھ دیا تھا کہ کہیں یہ سیاسی رہنماؤں کی جعلی ڈگریوں کا پول نہ کھول دے۔کاش وہ وقت جلد آئے جب ہم حقیقی معنوں میں یہ جان لیں کہ تعلیم کے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہے۔ معلوم نہیں وہ وقت کب آئے گا‘ شاید تب جب تعلیمی ادارے بند ہونے پر طلبہ خوشیاں نہیں منائیں گے۔ خود میں نے اپنے بچوں کو اتنا خوش دیکھا کہ جیسے اُن کے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہو‘البتہ میری صاحبزادی قدرے اُفسردہ دکھائی دی لیکن چند روز بعد وہ بھی نارمل ہوگئی۔ آ ج یہ عالم ہے کہ شاپنگ مالز کھلے ہیں‘ مارکیٹوں میں بھی کھوے سے کھوا چھل رہا ہے‘ کھانے پینے کا کاروبار بھی حسبِ معمول چل رہا ہے، حکومت اور اپوزیشن کے جلسے بھی بلا روک ٹوک جاری ہیں لیکن تعلیمی ادارے سنسان پڑے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی مکمل بندش سے پہلے حکومت نے اچھی حکمت عملی اپنائی تھی کہ جو طلبہ ایک روز سکول یا کالج جاتے تھے‘ وہ دوسرے روز چھٹی کرتے تھے۔ بیشتر تعلیمی اداروں میں کوروناایس او پیز پر بھی قدرے بہتر انداز میں عمل ہورہا تھا‘ ایسے میں تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ کافی حیرت سمیٹے ہوئے تھا۔اگر ادارے بند کرنے کے بجائے ایس او پیز پر مزید بہتر طور پر عمل درآمد کرا لیا جاتا تو شاید زیادہ بہتر ہوتا۔ خیر حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں اور یقینا حکومت نے تمام معاملے کو وسیع تناظر میں دیکھا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved