تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     09-12-2020

جمہوری جدوجہد کا استعارہ… شیر باز مزاری

ہمارے زمانوں کے صفِ اول کے زیادہ تر سیاست دان ایک ایک کر کے اس جہانِ فانی سے رخصت ہو چکے‘ جو بچے ہیں‘ وہ بھی تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ کیسے شاندار لوگ تھے وہ‘ اصول پسند‘ دیانت دار‘ مخلص‘ خدمت کے جذبے سے لبریز اور جمہوریت کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے والے۔ آج کل کے سیاسی میدان میں جن لوگوں کا پڑائو ہے‘ اور جو کھیل وہ چالیس سالوں سے کھیل رہے ہیں‘ نہ جانے انہیں کس زمرے میں شامل کیا جائے۔ نہ پہلے جیسی سیاسی قدریں‘ نہ وہ روایات‘ نہ جمہوریت اور نہ عوام کی ماضی جیسی توقیر۔ ہر طرف خوشامدیوں کے ٹولے‘ دھڑے بنائے‘ منہ کھولے‘ چلتی ہوائوں کے رخ کی خبر لیتے رہتے ہیں کہ کہیں سے کچھ مل جائے۔ دینے والے کچھ سیاسی جماعتوں پر قابض خاندان ہیں اور وہ بھی ارد گرد چکر لگانے والوں سے اپنی حمایت میں کام لینے کا گُر جانتے ہیں۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ہماری سیاسی منڈیوں میں بکائو مال کی کمی نہیں رہی اور نہ ہی خریداری میں مصروف سیاسی سرمایہ بنانے والوں کی۔ کئی دہائیوں سے ہم سب یہ کھیل دیکھ رہے ہیں۔ ایسی سیاست بازی کے حالات میں سردار شیر باز مزاری بھلا سیاست میں کیا آسودگی محسوس کر سکتے تھے؟ خاموشی سے مشاہدہ کرتے رہے اور آخر کار کنارہ کشی اختیار کر لی۔ انہوں نے چالیس سال تک جمہوریت کی بحالی‘ آئین کی حکمرانی اور صاف ستھری سیاست کے لئے جدوجہد کی۔ اصولوں کے خلاف کوئی عہدہ قبول نہ کیا اور نہ ہی کسی کے دبائو میں آئے‘ حالانکہ انہیں کئی بار ایسی پیشکشیں کی گئیں۔
جمہوری جدوجہد میں مزاری صاحب ایک روشن استعارہ تھے۔ وہ ان سیاست دانوں میں سے ہیں‘ جنہوں نے کسی کے کندھے کا سہارا اور کسی کے چھاتے تلے پناہ لینے کی کبھی کوشش نہیں کی‘ ہمیشہ اپنا راستہ خود بنایا۔ آج پاکستانی سیاست میں جن دو بڑے اور کئی کم بڑے خاندانوں کا غلبہ ہے‘ ان کی سیاسی زندگی کا آغاز آمریت کے دور میں ہوا۔ وہاں وہ پھلتے پھولتے رہے‘ اور ریاستی طاقت کے سہارے قومی افق پر ابھرے۔ مزاری صاحب ان منفرد سیاست دانوں میں سے تھے‘ جو روزِ اول سے جمہوریت اور آئین کی بالا دستی پر پختہ یقین رکھتے تھے اور آخری دن تک اپنی اس سوچ پر قائم رہے۔ انہوں نے اپنی عملی سیاست کا آغاز ایوب خان کے خلاف تحریک میں حصہ لے کر کیا تھا۔ یہ تحریک جب محترمہ فاطمہ جناحؒ کی قیادت میں ابھری تو مزاری صاحب اس کے ہراول دستے میں موجود تھے۔ انہوں نے ہر مقام پر کھل کر محترمہ فاطمہ جناحؒ کی حمایت کی اور ہر موڑ پر ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ آج کی سیاست میں مال بنانے والے سیاسی گھرانے اس وقت ایوب خان کے گن گایا کرتے تھے۔ جمہوریت اور عوام انہیں تب نظر آئے جب وہ ایوان اقتدار سے نکالے گئے۔ ایوب خان کے خلاف حزبِ اختلاف کی تحریک میں مشرقی اور مغربی پاکستان سے قد آور شخصیتیں حصہ لے رہی تھیں‘ جن کے نزدیک جمہوریت کی بحالی ملک کو متحد اور مضبوط کر سکتی تھی۔ اس سے کہیں زیادہ‘ جمہوریت‘ نظریاتی مسئلہ تھا کہ اس کے بغیر نہ حقوق کی پاس داری‘ نہ برابری کے اصول اور نہ انصاف کے حصول کی توقع کی جا سکتی ہے۔
قومی تاریخ گواہ ہے کہ سردار شیر باز مزاری ہر جمہوری تحریک میں پیش پیش رہے۔ انہوں نے کبھی اقتدار کی خواہش کو خود پر غلبہ نہ پانے دیا۔ 1970 کے انتخابات میں وہ بطور آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے۔ اس خاکسار کا تعلق ان کے حلقے سے ہے‘ اس لئے ان کی انتخابی مہم کے دوران انہیں کئی بار خطاب کرتے سنا اور عام لوگوں کے ساتھ ان کا برتائو بھی براہ راست دیکھا۔ اگرچہ سیاسی طور پر اس وقت میرا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ تھا‘ اور میں تب ان کے مخالف امیدوار کا پُر جوش حامی اور پولنگ ایجنٹ تھا‘ لیکن ان کی کرشماتی شخصیت‘ رواداری اور سچائی کا قائل تھا۔ نہ جانے کتنے امیدوار ان دنوں پیپلز پارٹی کی حکومت نے دبائو کے تحت اور لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لئے تھے‘ لیکن مزاری صاحب آخری حد تک اصول پسند رہے۔ کوئی ترغیب انہیں ان کے اصولوں سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ وہ آزاد امیدواروں کی طرف سے حزبِ اختلاف کے قائد منتخب ہوئے اور اس کردار میں بھی انہوں نے مثال قائم کی۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے بلوچستان کی حکومت کا غیر جمہوری طریقے سے تختہ الٹا اور پھر بلوچ اور پشتون رہنمائوں کے خلاف غداری کے مقدمات قائم کئے تو شیر باز مزاری صاحب نے ڈٹ کر اس عمل کی مخالفت اور مذمت کی‘ اور اپنا وزن اسیر رہنمائوں کے پلڑے میں ڈالا۔ ان رہنمائوں کی اسیری کے سالوں میں صوبائی حقوق اور جمہوریت کا جھنڈا اٹھائے رکھا۔ بلوچستان میں بھٹو صاحب نے فوج کشی کی تو اس کی مخالفت میں گنے چنے سیاست دان باہر نکلے‘ اور علمِ حق بلند کیا اور جو بھی وسائل انہیں میسر تھے‘ مظلوم بلوچوں کے حق میں استعمال کئے۔
اس سے قبل مزاری صاحب مشرقی پاکستان میں مسلح آپریشن کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔ وہ ان قائدین کی صف میں تھے‘ جو اقتدار عوامی لیگ کو منتقل کرنے پر زور دے رہے تھے۔ سیاسی حل تو یہی تھا‘ لیکن وہ نہ ہوا‘ اور جو کچھ اس ملک کے ساتھ ہوا‘ اس کو یاد کر کے شرم سے سر جھک جاتے ہیں۔ ضیاالحق کی فوجی حکومت بنی تو دو مرتبہ سردار شیر باز مزاری صاحب کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کی پیشکش ہوئی‘ جسے ٹھکرانے میں انہوں نے ذرا سے بھی تامل سے کام نہ لیا۔ جمہوریت کی بحالی کی تحریک چلی تو انہوں نے اپنی پوری قوت سے اس کا ساتھ دیا‘ اور اپنی جماعت کو جمہوری پارٹی کے نام سے موسوم کیا کہ ان کا نظریہ جمہوریت پر پختہ یقین تھا۔ کوئی اہلِ دانش‘ جدت پسند اور عالمی تاریخ و فلسفے کی سوجھ بوجھ رکھنے والا کسی دوسرے طرزِ حکمرانی کا قائل نہیں ہو سکتا۔ مزاری صاحب تو اہلِ علم بھی تھے۔ مطالعہ ان کا مشغلہ تھا۔ کتابوں سے ان کی دوستی تھی۔ دنیا بھر سے اچھی اچھی کتابیں منگوانا‘ انہیں اکٹھا کرنا‘ اور فرصت کے لمحوں میں انہیں کھنگالتے رہنا ان کا معمول تھا۔ ہمارے قدیم اور عصری سیاست دانوں میں کم ہی ہوں گے جنہوں نے ذاتی کتب خانے قائم کر رکھے ہوں۔ جن دوستوں کو مزاری صاحب کے کتب خانے کی زیارت نصیب ہوئی ہے وہ اسے عظیم ذخیرہ قرار دیتے ہیں‘ جو صرف صاحبِ ذوق‘ علم دوست ہی اکٹھا کر سکتے ہیں۔ 
عام لوگوں‘ یہاں تک کہ ہمارے دانش وروں کے ذہنوں میں بھی بلوچ قبائل کے بارے میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ میری پیدائش‘ پرورش اور زندگی کا بیشتر حصہ مزاری قبائل میں گزرا ہے۔ کثیراللسانی معاشرے میں اخوت اور بھائی چارے کا مشاہدہ کرنا ہو تو کبھی ادھر کا رخ کریں۔ ایک مضبوط‘ جڑے ہوئے اور ہم آہنگ سماج کی زندہ مثال۔ ہر جگہ مجھے اپنائیت‘ باہمی تعظیم اور حسنِ سلوک کے مظاہرے نظر آتے ہیں۔ قبائلی معاشروں کی روایات‘ مہمان نوازی‘ وفاداری‘ گرم جوشی‘ خدمت اور خلوص معاشرتی علوم کے ماہرین سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ سردار شیر باز مزاری ان دائمی روایات اور جدیدیت کا امتزاج تھے۔ حقیقی معنوں میں روشن خیال‘ روشن ضمیر اور جمہوری اقتدار کے فلسفے کے علم بردار اور امین۔ اپنی عملی سیاسی زندگی میں اعتدال کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ وہ بلوچوں اور دیگر لسانی گروہوں کی آئینی خود مختاری کے حامی تھے‘ مگر کبھی عسکریت پسندی کی حمایت نہیں کی‘ نہ ریاست اور نہ ہی لسانی گروہوں کی طرف سے۔ ایسے نادرِ روزگار سیاست دانوں کا خلا نہ جانے کب پُر ہو گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved