لاہور کا جلسہ فیصلہ کُن‘ حکومت کے دن گنے جا چکے: مریم
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''لاہور کا جلسہ فیصلہ کُن ہو گا، جعلی حکومت کے دن گنے جا چکے‘‘ تاہم اگر 13 دسمبر حکومت کا آخری دن ہو گا تو پھر ارکانِ اسمبلی سے استعفے لینے کا کیا مقصد ہے، اس لیے فیصلہ کن ان معنوں میں کہا ہے کہ اس بات کا فیصلہ ہو گا کہ آئندہ کا پروگرام لانگ مارچ ہو گا یا ریلیاں، علاوہ ازیں چچا جان اور برادرم حمزہ سے استعفیٰ اس لیے نہیں لیا کہ انہوں نے دینا ہی نہیں تھا اور اگر دے بھی دیا تو دیگر کئی معززین اپنے استعفے واپس لے لیں گے، اس لیے استعفے لگتا ہے کہ واقعی لطیفے بن چکے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک ریلی سے خطاب کر رہی تھیں۔
اب آر ہو گا نہ پار، صرف قانون کا وار ہو گا: فردوس عاشق
وزیر اطلاعات پنجاب فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''مریم نواز کو پیغام ہے، اب آر ہو گا نہ پار، صرف قانون کا وار ہو گا‘‘ اور قانون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اندھا ہوتا ہے اس لیے اس کی لاٹھی بھی اَنّے وا چلے گی، اس لیے ہم جلسوں کو روکیں گے نہیں بلکہ جلسہ کرنے والوں کی خبر اچھی طرح سے لیں گے۔ پیشتر اس کے کہ وہ ہماری خبر لینا شروع کر دیں اور جس کا سارا انتظام ہم نے کر لیا ہے اور جو پی ڈی ایم والوں کو حیران اور پریشان کر کے رکھ دے گا، نیز ہماری حکومت جتنی بھی کمزور سہی‘ پی ڈی ایم سے زیادہ کمزور نہیں ہے جبکہ حکومت خواہ جتنی بھی کمزور ہو‘ آخر کو حکومت ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
عمران خان کو استعفیٰ دینے کی بات سمجھ میں
آ جانی چاہیے: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو استعفیٰ دینے بات کی سمجھ میں آ جانی چاہیے‘‘ کیونکہ استعفوں کی نوبت ہی نہیں آئے گی کیونکہ پیپلز پارٹی پہلے ہی اس پر تیار نہیں ہے اس لیے کہ ہم تو اسمبلیوں سے استعفے دیں گے لیکن پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت بھی چھوڑنا پڑے گی اور وہ بیوقوف نہیں کہ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارے جبکہ وہ اچھی طرح سے سمجھتی ہے کہ استعفوں کا فائدہ صرف نواز لیگ کو ہو گا جس کے لیے پیپلز پارٹی ہرگز تیار نہیں ہو گی بلکہ پیپلز پارٹی کے علاوہ کسی بھی پارٹی کو حکومت نہیں چھوڑنا پڑے گی، اس لیے انہیں استعفے دینے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے استعفوں کا یہ لطیفہ اپنے آپ ہی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
پی ڈی ایم فیصلہ کر لے تو ہم بھی
استعفوں کا سوچ سکتے ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم فیصلہ کر لے تو ہم بھی استعفوں کا سوچ سکتے ہیں‘‘ تاہم سوچنے اور کرنے میں کافی فرق ہوتا ہے اور ہم استعفے دے بھی کتنے سکتے ہیں یعنی گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا اور اگر ہمیں پی ڈی ایم والوں کے طریق کار سے اتفاق ہوتا تو ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے اور اپنی تحریک الگ سے شروع نہ کرتے، ویسے بھی، جلسوں سے حکومت کو گرانے سے زیادہ احمقانہ بات اور کوئی نہیں ہو سکتی جبکہ استعفوں سے حکومت کو گھر بھیجنا اس سے بھی زیادہ بیوقوفانہ بات ہے کہ یہ لوگ استعفے دے کر ہمیشہ کیلئے فارغ ہو جائیں گے۔ آپ اگلے روز لوئر دیر میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ڈنڈے کی رجسٹریشن ہوتی ہے نہ لائسنس: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ڈنڈے کی رجسٹریشن ہوتی ہے نہ لائسنس‘‘ کیونکہ یہ تو بالکل بے ضرر چیز ہے اور پنجابی محاورے کے مطابق اپنی چارپائی کے نیچے پھیرنے کے کام آتا ہے یا زیادہ سے زیادہ اس سے کسی کا سر پھاڑا جا سکتا ہے، اس لیے اس پر اعتراض کرنا ایک بچکانہ سی بات ہے اور حکومت کو بچکانہ باتوں کے بجائے بالغ نظری کا ثبوت دینا چاہیے، دوسری جانب ہماری جماعت کے ایک اہم بندے کو دوسری بار طلب کر لیا گیا ہے حالانکہ اگر وہ ایک بار بلانے سے نہیں آئے تھے تو ظاہر ہے کہ کسی معقول وجہ سے نہیں آئے ہوں گے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کل کلاں ہمیں بھی طلب کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک اعلامیہ جاری کر رہے تھے۔
وزیراعظم سے استعفیٰ لیں گے چاہے ہمیں بھی دینا پڑیں: کائرہ
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم سے استعفیٰ لیں گے چاہے ہمیں بھی دینا پڑیں‘‘ اور نواز لیگ والوں کے لیے میرا یہ بیان کافی اطمینان بخش ہونا چاہیے، اگرچہ یہ محض ایک بیان ہی ہے اور ہماری پارٹی پالیسی نہیں ہے کیونکہ میں تو پالیسی بیان دے ہی نہیں سکتا‘ یہ صرف زرداری صاحب دیتے ہیں؛ تاہم کوئی ایسا فارمولا وضع کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ہم استعفے بھی دے دیں اور سندھ میں ہماری حکومت بھی قائم رہے ورنہ ہم علامتی استعفے ہی دے سکیں گے جو استعفوں کے علاوہ باقی سب کچھ ہو گا کہ لینا ایک نہ دینا دو۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں حبیب احمد کی غزل اور جو اپنے آپ کو حبیب سعید بھی لکھتے ہیں:
حق ہے تجھے جسے بھی تُو چاہے غلط سمجھ
کم تر مگر کسی کو مرے یار مت سمجھ
چلتا ہے کاروبارِ وفا اعتبار پر
جو کہہ دیا گیا ہے اسے دستخط سمجھ
پسپا ہوئے محاذ سے ہم جان بُوجھ کر
یہ بزدلی نہیں ہے اسے مصلحت سمجھ
مروا دیا ضمیر نے کہہ کہہ کے یہ مجھے
کہہ ٹھیک کو تُو ٹھیک، غلط کو غلط سمجھ
سر کی گرفت ہی سے تو گرتا نہیں بدن
دیوار خود پہ چھت کو کبھی بار مت سمجھ
تعریف زندگی کی اگر چاہیے تجھے
آبِ رواں پہ بلبلے کے خال و خط سمجھ
پائوں کی زد پہ آئے تو اطلاع ہو تجھے
اس فرشِ پائمال کی تکلیف چھت سمجھ
دیکھا تو ہر وجود تھا دراصل بے وجود
اب اپنے اس وجود کی خود منزلت سمجھ
کیوں دے نہیں رہا تُو فریبِ نظر کو دوش
کس نے کہا تھا آسماں کو اپنی چھت سمجھ
اندر خیال و خواب کے آباد ہیں جہاں
سو اس بدن کو ایک نہیں اَن گنت سمجھ
حالِ سفر تمام بتائے گا یہ حبیبؔ
نقشِ کفِ قدم کو بھی اِک رسمِ خط سمجھ
آج کا مطلع
معمول کے خلاف محبت زیادہ ہے
یا آج کل جناب کو فرصت زیادہ ہے