ہٹلر کے پروپیگنڈا وزیر گوئبلز نے سچ ہی کہا تھا کہ جھوٹ اس قدر کثرت اور ڈھٹائی سے بولتے جائو کہ جھوٹ کو بھی یقین ہو جائے کہ اس کی کوکھ سے جو کچھ نکل رہا ہے‘ وہ سچ ہی ہے۔ یہی سبق پی پی پی اور نواز لیگ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ ''سلیکٹڈ سلیکٹڈ‘‘ کی رٹ لگانے والوں کو کونڈو لیزا رائس کے کہنے پر این آر او ملنے کے بعد سلیکٹ کیا گیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان پہنچتے ہی کہنا شروع کر دیا کہ امید ہے کہ مشرف 2008ء کے انتخابات کو صاف اور شفاف بنانے کا وعدہ بھی پورا کریں گے۔ ان کی انتخابی مہم کے دوران ہی نجانے کہاں سے حکم آیا کہ سندھ میں مسلم لیگ نواز کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرو‘ جس کے بعد ان کے بیانات اور مطالبات میں اچانک تبدیلی آ گئی اور پی پی پی نے دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ ان ا نتخابات کو وہ اسی صورت میں شفاف تسلیم کرے گی اگر نتائج میں پیپلز پارٹی پہلے اور مسلم لیگ نواز دوسرے نمبر پر آئی‘ یعنی ووٹرز کو کسی تیسری سیاسی جماعت کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں۔ کیا کسی جمہوری معاشرے میں یا جمہوری روایات میں اس قسم کی شرائط رکھی جا سکتی ہیں؟ یہ کیسی جمہوریت تھی جس میں پی پی پی انتخابات میں ایسا رزلٹ چاہتی تھی جس میں اس کے ہر امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد مسلم لیگ نواز اور ق لیگ کے امیدواروں سے زیادہ ہو؟ تاریخ اور سچائی کا ایک ایک حرف گواہ ہے کہ 90ء میں کس کی سلیکشن ہوئی، پھر اکتوبر 93ء میں بھی ایک سلیکشن ہوئی تھی، پھر 97ء میں بھی سلیکشن ہوئی۔ یہ لوگ کسی دوسرے کو کس منہ سے سلیکٹڈ کہتے ہیں جب خود ان کے سیاسی خمیر سلیکشن کے مرہونِ منت ہیں۔ کیا نواز لیگ سابق صدر آصف علی زرداری پر انگلیاں اٹھا ئے گی کہ انہوں نے الیکشن 2013ء کے بعد‘ بطور صدر صحافیوں سے ملاقات میں کیوں یہ کہا کہ 2013ء کا الیکشن سلیکٹڈ تھا جسے ریٹرننگ افسران (آر اوز) نے پایہ تکمیل تک پہنچایا؟ آج کل پی ڈی ایم بالخصوص مسلم لیگ نواز پاکستان کے مختلف شہروں میں جلسوں کا ایک سلسلہ شروع کر چکی ہے۔ گوجرانوالہ، کراچی، کوئٹہ، سوات، لاڑکانہ، مانسہرہ اور پشاور، پھر واپس پنجاب میں ملتان میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا اور اب ہر روز لاہور میں ریلیاں نکال کر اور کبھی کارنر میٹنگ، پبلک میٹنگ، موبلائزنگ ریلی، فنڈ ریزنگ اور نجانے کس کس طرح عوام کو اپنی جانب متوجہ کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں کورونا کی بڑھتی ہوئی وبا کے پیش نظر انتظامیہ اس کی اجازت دینے سے انکار کر چکی ہے اور اس سلسلے میں پی پی اور مسلم لیگ نواز کی مرکزی اور مقامی قیادت سے بار بار درخواست کی جاتی رہی ہے کہ وہ کورونا جیسے موذی مرض کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے جلسوں کا پروگرام کچھ عرصے کیلئے ملتوی کر دیں مگر اپوزیشن نے حکومتی تجویز پر کان دھرنے کے بجائے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اپوزیشن کے جلسوں سے تحریک انصاف خوفزدہ ہو گئی ہے۔ اس پر سوائے قہقہے لگانے کے‘ اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ جی بی سمیت مختلف شہروں میں اب تک آپ 30 کے قریب جلسے کر چکے ہیں، ان جلسوں نے حکومت یا تحریک انصاف کا کیا بگاڑ لیا ہے۔ جب آپ لوگ اقتدار میں تھے تو کبھی ڈاکٹر طاہر القادری کے بلیو ایریا میں دھرنے ہوتے تو کبھی ڈی چوک میں جبکہ ملک بھر میں تحریک انصاف کے جلسوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں تو کیا پی پی اور نواز لیگ کی حکومتیں ان جلسوں کی وجہ سے گھر چلی گئی تھیں؟
2008ء کے انتخابات میں جب بی بی شہید‘ مرضی کے نتائج کی وارننگز دے رہی تھیں تو اس وقت کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے کے مراحل کو ریوائنڈ کریں تو ایک نئی کہانی سامنے آئے گی۔ میڈیا سمیت الیکشن کمیشن آفس کا ریکارڈ آج بھی چیک کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت ریٹرننگ افسران سابقہ حکمران جماعت (ق لیگ )کے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مختلف وجوہ پر مسترد کر رہے تھے جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ حکومتی مشینری پی پی اور نون لیگ کیلئے کام کر رہی تھی۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ 2008ء کے انتخابات سے قبل امریکی نائب صدر نے اپنے وفد کے ہمراہ ق لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی سے ان کی رہائش گاہ پر خصوصی ملاقات کرتے ہوئے صاف اور واضح طور پر انہیں کہا تھا کہ آپ اپنی توانائیاں ان انتخابات میں ضائع مت کریں۔ اس بات کی تصدیق آج بھی چودھری برادران سے کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب ملتان کے جلسے میں جو کچھ ہوا‘ وہ نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن یہی تو پی ڈی ایم کی حکمت عملی تھی جس میں وہ کامیاب رہی۔ حکومت کو نجانے کس نے مشورہ دیا تھا کہ وہ حافظ آباد اور سوات میں جلسے کرے۔ نجانے وہ کون سے مشیر تھے جنہوں نے یہ نامناسب فیصلہ کرایا کیونکہ اپوزیشن کو جب بھی جلسوں سے روکا جائے تو ان کی توجیہ یہی ہوتی ہے کہ حکمران جماعت نے خود جلسے کیوں کیے؟ کسی نادان دوست کے کروائے گئے فیصلوں سے پی ٹی آئی حکومت جب پی ڈی ایم کو جلسوں سے روکنے کے احکامات جاری کرتی ہے تو اس کی یہی غلطی اسے بیک فٹ پر جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔
کورونا کی حالیہ لہر میں شدت آنے سے پہلے تک ملک میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ہر قسم کے جلسے جلوسوں کی آزادی میسر تھی‘ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کا دھرنا اس کی واضح مثال ہے جہاں انہیں ہر قسم کی آزادی میسر تھی بلکہ حکومت کی طرف سے ناقابل یقین قسم کی سہولتیں بھی شرکائے دھرنا کو مہیا کی جاتی رہیں‘ تو اس دھرنے سے حکومت کا کیا بگڑ گیا؟ اس وقت تو وہ پہلے سی صورت حال بھی نہیں جب حکومت نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو اپنے ''نرغے‘‘میں لیا ہوتا تھا۔ آج انہیں مکمل آزادی حاصل ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ آج بعض میڈیا چینل کسی بھی جماعت سے اپنی وابستگی کو استعمال کرتے ہوئے مطلوبہ جماعت کی کمپین کرنے اور دوسروں کے خلاف پروپیگنڈا کی مہم چلانے میں بھی مکمل آزاد ہیں۔ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں حکومت مخالف جماعتیں کھل کر‘ پوری آزادی سے سب کچھ کہہ رہی ہیں اور وزیر اعظم کے خلاف انتہائی نامناسب زبان عام استعمال کی جا رہی ہے۔ ان سے یہی امید کی جا سکتی ہے کیونکہ ابھی کل کی ہی بات ہے جب ہم سب نواز لیگ کے ایک مرکزی رہنما اور پی پی کی ایک خاتون رہنما کی ایک ٹی وی ٹاک شو میں استعمال کی گئی زبان اور شریف فیملی کی خواتین کے خلاف گندے الزامات کی گردان دیکھ اور سن چکے ہیں۔ اب ظاہری سی بات ہے کہ 1985ء سے نواز لیگ اور پی پی کے لیڈران اور کارکنان اپنے جلسوں، جلوسوں میں ایک دوسرے کے خلاف تیس برس تک جو پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں‘ وہ عادت اتنی جلدی کیسے چھوٹ سکتی ہے؟
اگر چند چینلز کے پروگرامز اور اینکرز کی جانب سے ملک کے اداروں کے خلاف استعمال کی جانے والی زبان اور جھوٹ کے داغے جانے والے گولوں پر نظر دوڑائی جائے تو پہلی نظر میں یہی لگے گا کہ شاید کسی کٹر بھارتی چینل سے پاکستان مخالف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود زبان بندی اور پابندیوں کا غوغا بلند کیا جاتا ہے تاکہ کثرتِ گردان سے جھوٹ کو سچ ثابت کیا جا سکے۔ آئین پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں سمیت ہر شہری کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملکی سلامتی، عدلیہ اور افواجِ پاکستان کے بارے کوئی ایسی بات نہیں کرے گا جن سے ان کی عزت اور وقار پر حرف آتا ہو۔ اس کے با وجود پی ڈی ایم اور مخصوص سیاسی رہنما قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر تے ہوئے اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ انہیں نہ ملک کے دفاع سے غرض ہے اور نہ ہی اس کے وقار اور احترام سے مطلب۔ قومی اسمبلی میں ایک اپوزیشن رہنما کی جانب سے دیا جانے والے بیان کی مثال ہی یہ حقیقت سمجھانے کو کافی ہونی چاہیے۔