تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-12-2020

یونہی نہیں مٹ پائے گی کرپشن

اب ایسا بھی نہیں ہے کہ حکمرانوں کے منہ سے کام کی کوئی بات نکل ہی نہیں سکتی۔ یہ عوامی شکوہ بجا کہ وہ عام طور پر اپنے مطلب کی باتیں کرتے ہیں مگر کبھی کبھی کوئی ایسی بات بھی اُن کے منہ سے نکل جاتی ہے جو عوام کے مفاد کی ہوتی ہے اور جس کی بنیاد پر کسی حد تک شعور بیدار ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ منشیات اور کرپشن کے ذریعے دولت حاصل کرنے والوں کا معاشرے میں تسلیم کیا جانا بدقسمتی ہے۔ دو دن قبل اینٹی نارکوٹکس فورس کے ہیڈ کوارٹرز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستانی معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ناجائز طریقوں سے دولت حاصل کرنے کو بُرا سمجھا ہی نہیں جاتا اور اِس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ناجائز طریقوں سے بڑے پیمانے پر دولت کا حصول ممکن دیکھ کر عام آدمی اپنے افکار و اعمال میں کجی پیدا کرنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ ناجائز طریقوں سے دولت کے انبار لگانے والوں کو قبول کرلینے سے معاشرے میں خرابی کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے بلا شبہ خاصی معقول‘ بلکہ خدا لگتی بات کہی ہے۔ یورپ، امریکا، جاپان اور سنگاپور کے معاشروں میں کرپشن کرنے والوں کو کسی بھی حال میں قبول یا برداشت نہیں کیا جاتا۔ چین میں بھی عمومی سطح پر کرپشن کے لیے اب تک زیرو ٹالرنس ہے یعنی لوگ کرپشن کو قبول یا ہضم کرنے کی طرف مائل نہیں پائے جاتے۔
پاکستانی معاشرے کا ایک عجیب مخمصہ یا تضاد یہ بھی ہے کہ لوگ بُرائیوں کو ہدفِ تنقید بھی بناتے ہیں اور اُنہیں اپنانے کے لیے بے تاب بھی رہتے ہیں۔ لوگوں نے کم و بیش ہر سطح پر بُرائیوں کو ایسی حقیقتوں کی حیثیت سے تسلیم کرلیا ہے جن سے نہ صرف یہ کہ جان نہیں چھڑائی جاسکتی بلکہ بھرپور کامیابی کے لیے اُنہیں گلے لگانا بھی لازم ہے! یہ تضاد معاشرے کی شکست و ریخت میں تیزی لانے کا باعث بن رہا ہے۔ 73 سالہ قومی زندگی میں بیشتر وقت ہم نے بے بنیاد رجحانات اپنائے ہیں۔ ایک زمانے سے اہلِ دانش قوم کو مختلف طریقوں سے پیغام دیتے آئے ہیں کہ جو ہم گزارتے آئے ہیں وہ زندگی نہیں۔ ہمیں اس طور جینا ہے کہ جینے کا حق کسی حد تک تو ادا ہو مگر کم ہی لوگ اُن کی بات سننے پر آمادہ پائے گئے ہیں۔ ایک زمانے سے پاکستان میں کرپشن کا رونا رویا جارہا ہے۔ نجی محفل ہو یا کوئی باضابطہ تقریب‘ جہاں چند افراد مل بیٹھتے ہیں وہاں بات کہیں سے بھی شروع ہونے کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے کرپشن تک پہنچ جاتی ہے۔ کسی نہ کسی طور بہت کچھ حاصل کرنے کی طمع اور ہوس نے پوری قوم کی نفسی ساخت کو بُری طرح جکڑ رکھا ہے۔ کرپشن کے خلاف وہ لوگ بھی خاصے پُرجوش انداز سے بات کرتے ملتے ہیں جن کی زندگی سَر سے پاؤں تک کرپشن سے عبارت ہے! خود کرپٹ ہوتے ہوئے کرپشن کو بُرا کہنا صریح منافقت ہے مگر صاحب! جب کرپشن ہی کو بُرا نہیں سمجھا جاتا تو منافقت کو بُرا سمجھنے کی زحمت کیوں گوارا کی جائے؟
بہت سے معاملات ایسے ہیں جو ہیں تو بہت بُرے مگر ہم نے بالکل نظر انداز کر رکھے ہیں اور اگر کوئی متوجہ کرنے کی کوشش بھی کرے تو ہم چند لمحات کی توجہ کے بعد دوبارہ پرانی روش پر گامزن ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نفسی اعتبار سے ثابت قدمی کھوچکے ہیں۔ جب خالص مادّی طرزِ حیات کو تمام معاملات پر ترجیح دی جانے لگے تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ آج کا پاکستانی معاشرہ خالص مادّہ پرستی کی لپیٹ میں ہے۔ دنیا پرستی وہ دلدل ہے جس میں ہم گلے تک دھنس چکے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی بُرائی اپنی اصل میں بُرائی نہیں لگتی۔ جب دل و دماغ پر صرف دنیا چھائی ہوئی ہو اور آخرت کا تصور ہی ذہن سے محو ہو جائے تب زندگی کا مقصد صرف یہ رہ جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول یقینی بنایا جائے اور زیادہ سے زیادہ عیش و آرام کے ساتھ جیا جائے۔
مملکتِ خداداد کے ابتدائی دور میں لوگ اول و آخر اصولوں کے ساتھ اور خشیتِ الٰہی کے سائے میں زندگی بسر کرتے تھے۔ دنیا کی بھی اہمیت تھی مگر اِتنی نہیں کہ اُسے ہر معاملے پر کُلّی ترجیح دی جاتی۔ یہی سبب ہے کہ ہمیں قیامِ پاکستان کے بعد پہلے عشرے کے دوران وسائل کی کمی اور مختلف جہتوں سے مشکلات کی بہتات کے باوجود ہر شعبے میں تھوڑی بہت پیشرفت دکھائی دیتی ہے۔ تب پاکستانی معاشرے کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ کرپشن مالی نوعیت کی ہو یا اخلاقی نوعیت کی‘ بیشتر کی نظر میں بُری ٹھہرتی تھی۔ لوگ ایسی ترقی اور خوش حالی نہیں چاہتے تھے جسے یقینی بنانے میں جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی کھپ جائے۔ زندگی کو پُرآسائش بنانے کی دُھن میں سب کچھ داؤ پر لگانے کو بہت بُرا سمجھا جاتا تھا۔ گلیوں اور مُحلّوں کی سطح پر بھی معاملہ یہ تھا کہ ناجائز طریقوں سے دولت حاصل کرنے والوں کو بُرا سمجھنے اور اُن سے گہرے روابط اُستوار کرنے کو معیوب سمجھنے کا رجحان عام تھا۔ یہ روش بچوں کے لیے اچھی تربیت کا ذریعہ تھی۔ بچے جب یہ دیکھتے تھے کہ اُن کے بزرگ کسی خاص بُرائی کے باعث کسی سے زیادہ میل جول پسند نہیں کرتے تو وہ بھی ایسا ہی کرتے تھے اور بُرے بچوں سے دور رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ اب معاملات اِتنے بگڑ گئے ہیں کہ ع
... پہچانی ہوئی دنیا بھی پہچانی نہیں جاتی 
اس معاشرتی کیفیت کے ذمہ دار بہت حد تک ہم خود ہیں۔ کوئی ایک گھرانا یا خاندان بھی ایسا نہیں جس میں کرپشن کی کمائی والوں کو بُرا گردان کر اُن سے مکمل قطعِ تعلق کی راہ پر گامزن ہونے کی زحمت گوارا کی گئی ہو۔ معاملات صرف گھرانوں اور خاندان تک نہیں بگڑے ہوئے بلکہ کم و بیش گھر کی سطح پر بھی کیفیت یہی ہے۔ آج کتنے والدین ہیں جو اپنی اولاد سے یہ سوال کرتے ہوں کہ وہ کس طور کماتے ہیں۔ والدین کو عموماً صرف اِس بات سے غرض ہوتی ہے کہ بیٹا کماکر لائے۔ وہ اولاد کے ذریعۂ معاش کی نوعیت کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اگر بیٹا اچانک زیادہ کمانے لگے تو اُنہیں بہت خوشی ہوتی ہے کیونکہ زندگی پُرآسائش ہوتی جاتی ہے۔ بیویوں کا بھی یہی حال ہے۔ اگر اُنہیں اندازہ ہو بھی جائے کہ شوہر اپنی ملازمت یا کاروبار کی نوعیت کی نسبت زیادہ کمارہا ہے تب بھی وہ کچھ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتیں۔ کسی بھی انسان سے اُس کی آمدن کی نوعیت کے بارے میں پوچھنے میں کچھ ہرج نہیں۔ بات معقول انداز سے کی جائے تو جواب مل سکتا ہے۔ کرپشن کو روکنے کی ایک معقول صورت یہ ہے کہ والدین سمیت اہلِ خانہ متعلقہ فرد کو یقین دلائیں کہ جو کچھ وہ حاصل کر رہا ہے اُس سے کہیں کم میں بھی گزارا ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی سرکاری یا گیر سرکاری ملازم اپنی تنخواہ سے کہیں زیادہ خرچ کر رہا ہو تو یہ سمجھنے کے لیے آئن سٹائن کا دماغ ہونا لازم نہیں کہ وہ ناجائز و حرام کمارہا ہے۔ ایسے میں معقولیت کی حدود میں رہتے ہوئے یعنی شائستگی سے اُسے یقین دلایا جاسکتا ہے کہ اُس کی جائز کمائی سے بھی گھر چلایا جاسکتا ہے۔ بیگمات اور والدین کو گھر کے کفیل کی حلال کمائی میں گزارا کرنے پر آمادہ رہنا چاہیے۔ کرپشن بالعموم اُس وقت بڑھتی ہے جب زیرِکفالت افراد جائز و حلال ذرائع سے ہونے والی آمدنی میں گزارے کے لیے تیار نہ ہوں۔
ناجائز یا شریعت کے بیان کردہ ممنوع طریقوں سے کمانے والوں کو قبول کیا جاتا رہے گا تو کرپشن کے خاتمے کی راہ ہموار ہوگی۔ حرام طریقوں سے کمانے والوں کو قبول کرنے سے انکار کرکے معاشرے میں ایک نئی روش کو جنم دیا جاسکتا ہے۔ اس روش پر گامزن رہنے سے اُن کی حوصلہ شکنی ہوگی جو کسی بھی طرح زیادہ سے زیادہ کمانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اخلاقی اور مالی دونوں طرح کی کرپشن کے مرتکب افراد کو قبول کرنے سے واضح انکار وہ روش ہے جس پر گامزن رہتے ہوئے ہم ایک ایسی قومی زندگی کی طرف بڑھ سکتے ہیں جس میں ہمارے لیے خیر کا پہلو زیادہ اور نمایاں ہو۔ کرپشن کا گراف اُسی وقت نیچے آئے گا جب ہم اُس کے بارے میں اپنا رویہ بدلیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved