1983ء میں ایس ایس سی یعنی میٹرک کرنے کے بعد جب ہم نے اپنے نوجوانی کے شوق معلوماتِ عامہ کے ہاتھوں مجبور ہوکر ریڈیو پاکستان کے کراچی سینٹر کی حدود میں قدم رکھا تو ہماری معلوماتِ عامہ بہت حد تک معلوماتِ خاصہ، بلکہ معلوماتِ خواص میں تبدیل ہوئیں! ریڈیو پاکستان کراچی سینٹر سے ویکلی کوئز شو ''ذہانت شرط ہے‘‘ ہوا کرتا تھا جس کی میزبانی محمد نقی مرحوم کیا کرتے تھے۔ یہ پروگرام ختم ہوا تو عظیم سرور کی میزبانی میں ''کوئز شو‘‘ شروع ہوا جس میں ہم نے کئی بار دوسری‘ تیسری پوزیشن حاصل کی اور ایک بار فاتح بھی ٹھہرے۔
خیر! جب ہم نے فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا تو ریڈیو پاکستان کراچی سینٹر سے نشر ہونے والا پروگرام ''بزمِ طلبہ‘‘ نئی نسل میں غیر معمولی مقبولیت سے ہم کنار تھا۔ اس پروگرام نے ریڈیو، ٹی وی اور فلم کو کئی بڑے صداکار و اداکار دیے تھے۔ پروگرام کے پروڈیوسر قمر بھائی یعنی قمر جمیلؔ مرحوم تھے۔ اُن کا کمرہ ہر وقت فنکاروں، ادیبوں اور طلبہ و طالبات سے بھرا رہتا تھا۔ بزمِ طلبہ کی ریکارڈنگ میں حصہ لینے کے لیے آئے ہوئے طلبہ و طالبات قمر بھائی کے کمرے میں تیاری کیا کرتے تھے۔ پہلا مرحلہ تھا قمر بھائی کو سکرپٹ دکھانا۔ دوسرا مرحلہ تھا اُن کے سامنے سکرپٹ پڑھنا۔ پھر وہ اصلاح دیتے تھے یعنی اغلاط کی نشاندہی کرکے اُنہیں دور کرتے تھے۔ تیسرا مرحلہ تھا ریکارڈنگ۔ اس مرحلے میں یعقوب غزنوی اور عزیر احمد مدنی کی انٹری ہوتی تھی۔ پروگرام کو نشر کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار کرنا اِن دونوں کی تکنیکی ذمہ داری تھی۔ قمر بھائی کا کمرہ ویسے تو بزمِ طلبہ کے حوالے سے تیاریوں کے لیے مختص تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ اِسے دل کی بھڑاس نکالنے کے مقام کے طور پر زیادہ جانا جاتا تھا! چند بڑی شخصیات وہاں تشریف فرما ہوتی تھیں اور پھر اُن سے فیض پانے والوں کی آمد شروع ہوتی تھی۔ یہ یومیہ محفل بہت سوں کے لیے لَت کی شکل اختیار کرگئی تھی۔ 1983ء میں جب ہم نے قمر بھائی کے ''کنے‘‘ بیٹھنا شروع کیا تب سلیم احمد مرحوم کو بھی دو تین بار خاصے پُرجوش انداز سے مختلف ادبی موضوعات اظہارِ خیال کرتے ہوئے دیکھنے کا سنہرا موقع نصیب ہوا مگر افسوس کہ وہ اُسی زمانے میں یعنی اگست 1983ء میں دنیا چھوڑ گئے۔
محترم سلیم احمد کے انتقال کے بعد بھی قمر بھائی کے کمرے کی رونق برقرار رہی۔ جسے وقت اچھی طرح گزارنا ہوتا وہ بھی قمر بھائی کے کمرے کا رخ کرتا تھا اور جو اپنا اور دوسروں کا وقت قتل کرنے کے درپے ہوتا تھا وہ بھی قمر بھائی ہی کی طرف چلا آتا تھا۔ قمر بھائی کا کمرہ ادب کے اکھاڑے کا سا درجہ رکھتا تھا اور ہم تماشائیوں میں ہوا کرتے تھے۔ قمر بھائی کے کمرے میں ہم نے بحث و تمحیص کی دنیا کے کئی ''نو گزے پیر‘‘ دیکھے۔ اُن سے باضابطہ طور پر مستفیض ہونے کا موقع تو خال خال ہی مل سکا کیونکہ ہم تو ادبی شخصیات کے قد کاٹھ سے مرعوب ہوکر ہونٹوں پر چُپ کی مہر لگائے رہتے تھے۔ قمر بھائی بالعموم دن کے دو بجے ریڈیو پاکستان پہنچتے تھے اور اُن کی آمد کے ساتھ ہی ادب سے وابستہ شخصیات کی آمد بھی شروع ہوتی تھی۔ کالجوں کے لیکچررز اور جامعہ کراچی کے پروفیسرز بھی قمر بھائی کے کمرے ہی کو اپنے لیے بہترین گوشۂ عافیت سمجھتے تھے۔ جو کچھ ہم بیان کر رہے ہیں وہ ''جہاں چار یار مل جائیں وہیں رات ہو گلزار‘‘ والا معاملہ تھا۔ جب بولنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہوچکتی تھی تب قمر بھائی کچھ کہہ کر بحث کا ڈول ڈالتے تھے۔ جواب میں کوئی کچھ کہنا شروع کرتا تھا تو بات سے بات نکلتی چلی جاتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے قمر بھائی کا کمرہ اچھے خاصے ادبی اکھاڑے کا منظر پیش کرنے لگتا تھا۔ بحث کے شرکا اپنا مؤقف درست ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے میں کوئی جھجک یا عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ اس ادبی اکھاڑے میں قمر بھائی عموماً ریفری کا کردار ادا کرتے تھے مگر کبھی جب موڈ میں ہوتے تھے تب وہ مدعی بھی ہوتے تھے اور منصف بھی۔ ہم نے قمر بھائی کی ادبی چوکھٹ پر بہت سوں کو شہید ہوتے دیکھا اور چند ایک کا تو ''جھٹکا‘‘ بھی نظر سے گزرا!قمر بھائی نے ادب کی ایک بڑی خدمت یوں انجام دی کہ خود اُنہیں بھی اِس کا شاید ہی احساس ہوا ہو۔ معاملہ یہ ہے کہ قمر بھائی کے ادبی اکھاڑے کا ماحول اور بہت سوں کی درگت دیکھ کر نئی نسل سے تعلق رکھنے والوں نے اور کچھ سیکھا ہو یا نہ سیکھا ہو، اِتنا ضرور سیکھا کہ ڈھنگ سے جینا ہے تو ادب کو اوڑھنا بچھونا بنانے سے گریز اور پرہیز کیا جائے! ہم (یعنی بزمِ طلبہ کے شرکا) نے بہت سے شعرا اور ادیبوں کو اِس حال میں دیکھا کہ وہ ادب کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا باعث تھے اور ادب اُن کی زندگی کو درہم برہم کیے رہتا تھا۔ اِن ادیبوں کی کیفیت صاف کہتی تھی ؎
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
بزمِ طلبہ میں باقاعدگی سے شریک ہونے والوں میں ہم سمیت بہت سوں کو شعر گوئی کا عارضہ لاحق ہوچکا تھا۔ یعقوب غزنوی، عزیر احمد مدنی، خالد عمران مطہرؔ، صبیحؔ رحمانی، حسن امام ہاشمی، ذاکر حسین ذاکرؔ ... غرض کئی نوجوان تھے جو شعر گوئی کے پانیوں میں جیسے تیسے تیرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ قمر بھائی خاصا غیر متوازن مزاج رکھتے تھے۔ کبھی وہ اچھے موڈ میں ہوتے تھے تو کسی نوجوان کو معمولی سے اشعار پر بھی اِس طور داد دیتے تھے کہ وہ خود کو ساتویں آسمان پر محسوس کرنے لگتا تھا۔ اور پھر کسی دن خراب موڈ کے ہاتھوں قمر بھائی اُسی ''نَو سِکھیے‘‘ کی ایسی خبر لیتے تھے کہ بے چارہ کسی اور کو تو کیا منہ دِکھاتا، آئینے کے مقابل کھڑا ہونے سے بھی ڈرنے لگتا تھا! وہ جو کہتے ہیں نا! قطب مینار پر چڑھاکر سیڑھی ہٹالینا۔ قمر بھائی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ ہم اُنہیں اپنے اشعار سُناتے وقت ماحول کے سیاق و سباق پر نظر رکھتے تھے یعنی جب اُن کا موڈ اچھا ہوتا تھا تبھی ہم اپنی طبع کے نتائج اُن کے گوش گزار کرتے تھے! قمر بھائی کے مزاج کے نشیب و فراز اور اُن کے کمرے میں باقاعدگی سے منعقد کیے جانے والے ادبی ملاکھڑوں نے کئی نوجوان شعرا کو شعر گوئی کی راہ پر زیادہ آگے جانے سے روکا اور یوں وہ عملی زندگی کو ترجیح دینے کے قابل ہو پائے۔ ہم اس معاملے میں تھوڑے سے سخت جان (بعض ''حاسدانِ کرام‘‘ کی نظر میں ڈھیٹ اور ہٹ دھرم!) ثابت ہوئے یعنی بہت کچھ دیکھنے کے بعد بھی باز آنے سے گریزاں رہے۔ باقاعدگی سے شعر بھی کہتے رہے، کالم نگاری کے میدان میں بھی طبع آزمائی جاری رکھی اور عملی صحافت کو اپناتے ہوئے اخبارات کے مین نیوز ڈیسک کا حصہ بھی بنے۔ طبع آزمائی کا دریا آج بھی لہریں مار رہا ہے۔ بہت سوں کو خواہ مخواہ ادب کی طرف آنے سے روک کر قمر بھائی نے‘ غیر محسوس طور پر‘ متعلقہ افراد اور ادب کی ایسی خدمت کی ہے کہ تادیر یاد رہے گی! اُس دور کے کراچی میں ایسی کئی محافل تھیں جن میں بیٹھنے والے خواہ مخواہ ادب کی طرف متوجہ ہوئے اور رجحان و لیاقت کے نہ ہوتے ہوئے بھی ادب سے یوں چمٹے کہ ادب کی جان چھوڑی نہ اپنی۔ ایک تیر سے خواہ مخواہ دو نشانے لگالیے، گویا ع
دونوں کے مقدّر میں خسارہ ہی خسارہ
کراچی میں خالص ادبی ماحول کو پروان چڑھانے میں سلیم بھائی یعنی سلیم احمد مرحوم کا کردار نمایاں رہا۔ سلیم بھائی بھی بزم آرائی کے شوقین تھے مگر اُن کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ ادب پر گفتگو درست ترین تناظر میں ہو اور حقیقت پسندی کا دامن تھام کر بات کی جائے۔ اُن کا مزاج یومیہ بنیاد پر یا پل بھر میں بدل جانے والا نہ تھا۔ وہ کسی کو جذباتی نوعیت کی ستائش کے ذریعے قطب مینار پر چڑھاتے تھے نہ بے جا بے توقیری سے کسی کے ذوق و شوقِ ادب کی کمر توڑتے تھے۔ قمر بھائی نے بھی ادب کی ''خدمت‘‘ کی تھی۔ اُس کی ضرورت اب نہیں رہی۔ ہاں! سلیم بھائی نے جیسی کی تھی ویسی خدمتِ ادب وقت کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل میں خال خال پائے جانے والے ادب پسند ذہن ذرا منظم ہوکر زبان و ادب کی طرف آئیں۔