تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     11-12-2020

سیاست‘ سیاستدان اور الزام تراشیاں

مال بنانے والے اور ملک کو لوٹنے والے کون؟ سیاستدان۔ کرپشن کرنے اور جعلی اکائونٹس کھولنے والے کون؟ سیاستدان۔ نااہل اور اقربا پرور کون؟ سیاستدان۔ ملک اور قوم کے غدار کون؟ سیاستدان۔ جرائم کے مرتکب اور مافیا چلانے والے کون؟ سیاستدان۔ منی لانڈرنگ کرنے والے اور ملک سے باہر جائیدادیں بنانے والے کون؟ سیاستدان اور صرف سیاستدان۔ گزشتہ پانچ چھ برسوں سے پاکستان میں جس بیانیے کی بھرپور تشہیر کی جا رہی ہے‘ یہ ہے کہ ملک کے تمام مسائل کی جڑ اور قوم کو درپیش تمام بحرانوں کے ذمہ دار صرف سیاستدان ہیں‘ جنہوں نے اقتدار میں آکر قوم کی دولت لوٹنے اور کرپشن پھیلانے کے سوا اور کوئی کام نہیں کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑے بڑے دانشور بھی جب اپنا زورِ قلم صرف کرتے ہیں تو ان کا ٹارگٹ صرف سیاستدان ہوتے ہیں اور وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جمہوریت کے نام پر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا اور اس وقت ملک جن سیاسی مسائل اور مالی مشکلات کا شکار ہے‘ ان سب کی ذمہ داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے‘ حالانکہ آزادی کے 73 برسوں میں سے آدھے سے زیادہ عرصہ اس ملک پر براہ راست آمروں نے حکومت کی‘ لیکن بہت کم لوگ ایوب خان کے دور میں ہونے والی کرپشن اور پروان چڑھنے والی اقربا پروری کا ذکر کرتے ہیں۔ رشوت خوری‘ کرپشن اور اقربا نوازی جیسی خرابیاں قیام پاکستان کے ساتھ ہی وجود میں نہیں آ گئی تھیں۔ ان کی موجودگی اور ان کی وجہ سے قوم کی سیاسی‘ معاشی اور سماجی زندگی پر پڑنے والے مضر اثرات کا احساس پاکستان کے سیاسی حکمرانوں کو شروع سے ہی تھا۔ اس کا ثبوت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی 11 اگست 1947 کی وہ تقرر ہے جس میں انہوں نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ان برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی تلقین کی تھی۔لیکن جب ایوب خان کے دور میں بڑھتی ہوئی کرپشن کی طرف انگلیاں اٹھنے لگیں تو اس کا یہ کہہ کر دفاع کیا گیاکہ یہ ترقی کے عمل کی نہ صرف بائی پروڈکٹ ہے بلکہ ترقی پر گامزن معاشروں میں ناگزیر بھی ہے‘ لیکن ملک میں جب کبھی لنگڑی لولی جمہوریت بحال ہوئی اور سیاسی پارٹیوں کی حکومت قائم ہوئی تو کرپشن کے ایک نہیں درجنوں سکینڈل سامنے آنا شروع ہو گئے‘ اور اس کے ساتھ ہی سیاستدانوں اور ان کی حکومتوں کو کرپٹ‘ نااہل اور سکیورٹی رسک ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسا کرتے ہوئے کسی بھی سیاسی دور کو نہیں بخشا گیا بلکہ پاکستان کی گزشتہ 73 برس کی تاریخ میں سیاستدانوں کو وقفے وقفے سے اقتدار کی پینگیں جھولنے کے جو مواقع میسر آئے‘ ان میں سے ہر دور کی سیاسی حکومت کو ملک کے بدترین دور کے طورپر پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے ابتدائی سال (1947-1958) کو ہی لے لیجئے۔ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس ملک کی سیاسی تاریخ کو پڑھنے اور پڑھانے میں گزارا ہے۔ میری نظر سے کوئی ایسی کتاب نہیں گزری‘ جس میں اس دور میں وقوع پذیر ہونے والے اہم سیاسی واقعات‘ جنہوں نے ملک کے سیاسی عمل کا رخ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا‘ کا درست اور حقیقت پسندی پر مبنی سیاق و سباق میں تجزیہ کیا گیا ہو‘ مثلاً کسی مصنف نے اپریل 1953 میں گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی چائے کے کپ پر بلا کر اچانک برطرفی کا اس کے مضمرات کے ساتھ پوری طرح تجزیہ نہیں کیا۔ خواجہ ناظم الدین نے لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد وزیر اعظم کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تھا‘ لیکن دو سال سے بھی کم مدت کے بعد انہیں بغیر کسی پیشگی اطلاع یا وجہ بتائے برطرف کر دیا گیا۔ وہ پورے پروٹوکول کے ساتھ گورنر جنرل ہائوس آئے تھے‘ لیکن ایک عام شہری کی حیثیت سے واپس اپنی رہائش گاہ گئے۔ اکتوبر 1954 میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ملک کے پہلے آئین کا مسودہ تیار کر لیا تھا‘ جسے 25 دسمبر 1954 کو باقاعدہ نافذ کیا جانا تھا‘ مگر 24 اکتوبر 1954 کو گورنر جنرل نے اچانک اسمبلی تحلیل کر دی اور یوں ملک کے پہلے آئین کو اس کی پیدائش سے پہلے ہی ختم کردیا گیا۔ نصابی کتب میں گورنر جنرل کے اس اقدام کا سرسری ذکر کیا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ بتایا جاتا ہے کہ گورنر جنرل کو آئینی مسودے کی بعض شقوں سے اختلاف تھا‘ خاص طور پر جن شقوں کے تحت گورنر جنرل کو 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت خصوصی اور ہنگامی اختیارات حاصل تھے‘ لیکن اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا کہ گورنر جنرل کو کن قوتوں کی حمایت حاصل تھی‘ جس کی بنا پر انہوں نے یہ اقدام کیا۔ اسمبلی کی تحلیل کے بعد قانونی جنگ میں جس طرح گورنر جنرل کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کو جائز ثابت کرنے کیلئے انصاف اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں‘ وہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے‘ مگر اس پر کوئی کھل کر بات نہیں کرتا۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کی ذمہ داری بھی سیاستدانوں پر ڈال دی جاتی ہے‘ حالانکہ یہ سیاستدان ہی تھے‘ جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود قوم کو 1956 کا آئین دیا۔ ہماری درسی کتب میں‘ جنہیں کالج سے لے کر یونیورسٹی تک سیاسیات کے طلبہ استعمال کرتے ہیں‘ 1956 کے آئین کا ایک ہی متن شامل ہے‘ جس میں صرف آئین (1956) کے اہم خدوخال‘ صدر‘ وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے اختیارات کا موازنہ اور پھر اس کی ناکامی کے اسباب بیان کئے جاتے ہیں‘ اور اختتامیہ میں اس کی ناکامی کی ذمہ داری بھی سیاستدانوں پر ڈال دی جاتی ہے‘ حالانکہ 1956 کا آئین دو حصوں پر مشتمل قومی اتحاد کا مظہر تھا۔ یہ درست ہے کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی بعض سیاسی جماعتیں اس میں درج صوبائی خود مختاری کو ناکافی سمجھتی تھیں‘ اور برابری کے اصول کو ون مین ون ووٹ کے جمہوری اصول کی نفی قرار دیتی تھیں‘ مگر حسین شہید سہروردی جیسے رہنمائوں نے اس پر مکمل اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس کی پوری پوری حمایت کی اور اس طرح مشرقی پاکستان میں ان عناصر کو خاموش کرا دیا جو زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کے مطالبے کے مطابق مرکز کو صرف دفاع‘ خارجہ امور اور کرنسی کے محکمے دینے پر آمادہ تھے‘ لیکن سہروردی کی خدمت اور حب الوطنی کا کیا بدلہ دیا گیا؟ ایوب خان نے 1958 میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر سابق وزیر اعظم کو ''ایبڈو‘‘ کے تحت کرپشن کے الزام میں جیل میں ڈال دیا۔ 
1956 کے آئین کے بارے میں ایک امریکی سکالر ایلن میکگراتھ اپنی کتابThe Destruction Of Pakistan's Democracy میں لکھتے ہیں کہ اس کی تشکیل ایک کرشمے سے کم نہ تھی‘ کیونکہ دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ لوگوں کے دو گروپوں کو‘ جو مذہب کے سوا باقی ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے نہ صرف مختلف بلکہ ایک ہزار میل کے فاصلے پر تھے‘ کو جوڑ کر ایک قوم بنا دیا گیا ہو۔ ایلن میکگراتھ کا بیان ہے کہ جن لوگوں نے 1956 کے آئین کی تشکیل کی‘ ان کا امریکہ کے فائونڈنگ فادرز سے بھی بڑا کارنامہ تھا‘ مگر آمرانہ قوتوں نے اسے زبان سے دو الفاظ نکال کر ختم کر دیا۔ 1956 کا آئین متحدہ پاکستان کی علامت تھا۔ 1958 کے مارشل لا نے اسے منسوخ کرکے دراصل پاکستان کے قومی اتحاد کی بنیاد مسمار کی‘ لیکن اس کو اتنے بڑے جرم کا سزاوار قرار دینے کے بجائے الٹا سیاستدانوں کو قصوروار ٹھہرایا گیا۔ حقیقت یہ تھی کہ سیاستدانوں نے مشکلات اور پیچیدگیوں کے باوجود مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین اختلافات کو دور کرکے ایک متحدہ پاکستان کی تشکیل کی‘ پاکستان کے پہلے مارشل لا نے اس کی بنیاد پر ایسی ضرب لگائی کہ یہ عمارت کبھی نہ رہی‘ مگر الزامات صرف سیاستدانوں پر لگائے جاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved