تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     11-12-2020

جماعت اسلامی کا پی ڈی ایم سے کیا اختلاف ہے؟

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے 8 دسمبر کے سربراہی اجلاس کے بعد اپنے اتحاد کے آئندہ لائحہ عمل کا تفصیلی اعلان کر دیا۔ اس لائحہ عمل میں پارلیمنٹ سے استعفوں سے لے کر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال تک بہت کچھ شامل ہے۔ اس تحریک کے اہداف بڑے واضح ہیں، یعنی نااہل حکومت سے چھٹکارا اور مڈٹرم فیئر اینڈ فری انتخابات۔ انہی دنوں پی ڈی ایم کے بعض قائدین نے اتحادوں کی پرانی حلیف جماعت اسلامی کو اپنی تحریک میں شامل ہونے کی ایک بار پھر دعوت دی ہے۔
جماعت اسلامی اس لحاظ سے بہت خوش نصیب ہے کہ اس کی دیانت و امانت کی گواہی منصفوں سے لے کر سیاست کے ایوانوں تک اور گلی کوچوں سے لے کر کھیتوں اور کھلیانوں تک دی جاتی ہے۔ جماعت پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں جب کبھی کسی بھی حیثیت میں برسراقتدار آئی‘ اس کی دیانتدارانہ حسن کارکردگی کا اعتراف دوستوں نے ہی نہیں جماعت کے سیاسی مخالفین نے بھی کیا۔ میرے احباب اور قارئین کو جماعت اسلامی کے ساتھ میرے تعلقِ خاطر کا بخوبی علم ہے اس لیے آج کل مجھ سے بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی پالیسی کیا ہے؟ ان لوگوں کے خیال میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کی حکومت پر تنقید اور پی ڈی ایم کے قائدین کی تنقید میں کوئی جوہری فرق نہیں۔ امیر جماعت کے بعض بیانات تندی و تیزی میں مولانا فضل الرحمن کے بیانات سے بھی آگے جاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں مگر پی ڈی ایم حکومت سے چھٹکارے کا باقاعدہ روڈ میپ دے رہی ہے جبکہ جماعت کی طرف سے ایسے کسی پروگرام کا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔ جناب سراج الحق سے جب پوچھا جاتا ہے کہ پی ڈی ایم کے اتحاد میں شمولیت کیوں نہیں اختیار کرتے تو جواب یہ ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم محض چہروں کی تبدیلی‘ ہم نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے ہمدردوں کی طرف سے ایک سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ اگر جماعت حکومت نہیں گرانا چاہتی اور مڈٹرم انتخابات کا انعقاد بھی نہیں چاہتی تو پھر بے سمت احتجاجی جلسے کیوں کررہی ہے؟ ایسی صورت میں تو جماعت اسلامی کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پرزور دینا چاہئے تھا اور اس کیلئے یونین کونسل کی سطح پر زبردست مہم چلانی چاہئے تھی۔ جماعت سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ بلدیات سے ہی قومی لیڈرشپ اُبھرتی ہے۔
عصرِ حاضر میں مولانا مودودیؒ اسلامی نظام کیلئے جمہوریت کو اتنا ہی ضروری سمجھتے تھے جتنا جسمِ انسانی کیلئے آکسیجن۔ 1960ء کی دہائی سے 1979ء میں اپنے انتقال سے پہلے تک بانیٔ جماعت نے بحالیٔ جمہوریت اور صاف شفاف انتخابات کیلئے جن اتحادوں میں شمولیت اختیار کی اُن میں لبرل، سوشلسٹ اور قوم پرست سبھی شامل تھے۔ جس طرح 1969ء کی تحریک کا مقصد ایوب خان کی آمریت سے نجات اور بالغ رائے دہی اور پارلیمانی نظام کی بحالی تھا اسی طرح 1977ء کی تحریک کا مقصد ذوالفقار علی بھٹو کی انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج اور نئے انتخابات کا انعقاد تھا۔ ان اتحادوں میں مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ خان، میاں طفیل محمد، پروفیسر غفور احمد، خان عبدالولی خان اور کئی قوم پرست رہنما شامل تھے۔ بحالیٔ جمہوریت کی اکثر تحریکوں میں جماعت کی شمولیت کسی نظام کی تبدیلی کیلئے نہیں جمہوریت کی حفاظت اور صاف شفاف انتخابات کیلئے تھی۔ جماعت سے امیدیں وابستہ کرنے والے بہت سے ووٹروں کو اُس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب اتنی جمہوریت پسند اور دیانتدار اسلامی جماعت کو عوامی پذیرائی اور انتخابی کامیابی نہیں ملتی۔ جماعت اسلامی کو خود بھی اس انتخابی ناکامی کا تجزیہ کرنا چاہئے اور اس کا کوئی حقیقت پسندانہ جواب تلاش کرنا چاہئے۔ جماعت کو اس بنیادی حقیقت کے ٹھوس اسباب تک رسائی حاصل کرنے کی سعی بھی کرنی چاہئے کہ اس کا ووٹ بینک جو کبھی چھ سات فیصد تھا اب ایک فیصد کے قریب کیوں ہو گیا ہے؟ ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ جماعت میں ایک سے بڑھ کر ایک متقی و پرہیزگار شخص موجود ہے اور سیاسی فہم و فراست میں بھی جماعت کے بعض قائدین یقینا ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں مگر بہی خواہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید جماعت اسلامی عام آدمی کی سوچ و اپروچ تک رسائی حاصل نہیں کر پاتی۔
کسی بھی دوست یا جماعت کا آپ پر یہ حق ہوتا ہے کہ آپ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق انہیں مشورہ دیں۔ 2008ء کے عام انتخابات کے موقع پر ہم نے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد سے بائیکاٹ کے فیصلے پر بصد ادب اختلاف کیا تھا اور دو کالموں میں ''نو بائیکاٹ‘‘ کے عنوان سے اپنی گزارشات پیش کی تھیں۔ قاضی حسین احمد کا ناچیز سے نہایت مشفقانہ رویہ تھا۔ انہوں نے اس اختلافِ رائے کا کوئی برا نہیں منایا۔ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ اگر جماعت اُس وقت بائیکاٹ نہ کرتی تو اس کی سیاسی ساکھ گھٹنے کے بجائے اور بڑھتی۔ ہم سینیٹر جناب سراج الحق کو باور کرائی گے کہ انہوں نے بھی 2018ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔ جماعت اسلامی بار بار اس حکومت کو نااہل، آمریت پسند قرار دے چکی ہے اور اسے کشمیر کا سودا کرنے کی ذمہ دار بھی ٹھہرا چکی ہے۔ اس پس منظر میں جماعت کے ہمدرد یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جماعت اپنی قوت کو صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد کی کل جماعتی تحریک کے پلڑے میں کیوں شامل نہیں کررہی۔ اگر جماعت کو فیئر اینڈ فری انتخاب کا موقع ملتا ہے تو وہ یقینا نظام میں تبدیلی لاسکتی ہے۔ کسی اور طریقے سے نظام کی تبدیلی جماعت اسلامی کے منشور میں موجود نہیں اورنہ ہی عملاً ایسا ممکن ہے۔ اس لیے جب اسلامی نظام کے قیام کا ذریعہ اور راستہ صاف شفاف جمہوری انتخاب کے علاوہ کوئی اور نہیں تو پھر اس جمہوری راستے کو محفوظ بنانے کیلئے متحدہ قوتوں کا ساتھ کیوں نہ دیا جائے؟ برسبیل مثال جماعت اسلامی کا موقف تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ اپنے جھنڈے تلے اور اپنے انتخابی نشان پر انتخاب لڑتی ہے تو اس تنہا پرواز کے ذریعے جماعت اسلامی کتنی نشستیں حاصل کرلے گی؟ اگر کسی سیاسی جماعت کی نمائندگی مناسب تعداد میں پارلیمنٹ میں نہیں ہوتی تو اُس کا عدم اور وجود دونوں برابر سمجھے جاتے ہیں۔
جماعت کے ہمدرد بار بار اکابر جماعت سے سوال کرتے ہیں کہ جماعت کی اتنی شاندار شہرت کے باوجود سیاسی میدان میں کیوں کامیاب نہیں ہوتی۔ جماعت کی طرف سے اس کی مختلف وجوہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے مگر جماعت کے لاکھوں ووٹروں کی رائے کے مطابق اس کا سبب جماعت کی غیر حقیقت پسندانہ تخیلاتی سوچ اور عدم تسلسل کی پالیسی ہیں۔ کبھی انتخاب کبھی بائیکاٹ اور کبھی انتخاب میں نیم دلانہ شرکت‘ جبکہ سیاست انتخابی اکھاڑے میں مسلسل زورِ بازو دکھانے کا نام ہے۔ جماعت اسلامی سے محبت رکھنے اور اسلامی نظام کے قیام کیلئے ان سے امیدیں وابستہ رکھنے والے پاکستانی صدقِ دل سے سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس وقت جماعت اسلامی کی احتجاجی سیاست کے ناوکِ نیم کش کے اہداف کیا ہیں۔ کیا محض شو آف پاور اِن احتجاجی جلسوں کا مرکزی ہدف ہے؟ اگر جماعت ماضی کی روایات کے برعکس اس وقت بحالیٔ جمہوریت اور بحالیٔ معیشت کی تحریک میں شامل نہیں ہوتی اور تنہا یہ شو آف پاور جاری رکھتی ہے تو اس کے کیا اسباب ہیں؟ جماعت کے ہمدردوں کا ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جماعت اس آئسولیشن میں رہتے ہوئے اگلے انتخاب میں کتنی نشستیں حاصل کر لے گی۔ ہم خود یہ بات نہیں سمجھ پائے کہ جماعت کا پی ڈی ایم سے کیا اختلاف ہے۔ اس صورت میں ہم اپنے قارئین کو کیا سمجھائیں گے۔ امید ہے اکابر جماعت اپنے نیازمندوں کو اس سوال کا ایسا جواب عنایت فرمائیں گے جس سے اُن کی تشفی ہو جائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved