تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-12-2020

سمارٹ ہونا پڑے گا

ایک سال ہونے کو آیا ہے کہ کورونا کی وبا جان نہیں چھوڑ رہی۔ یہ وبا چونکہ عالمگیر ہے اس لیے ہم لاتعلق بھی نہیں رہ سکتے۔ جو کچھ باقی دنیا کر رہی ہے وہ سب کچھ ہمیں بھی کرنا ہے اور کہیں کہیں کر بھی رہے ہیں۔ وبا پر قابو پانے سے متعلق اقدامات کے حوالے سے دنیا بھر میں مختلف طرز ہائے فکر اپنائی گئی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کا معاملہ زیادہ بُرا نہیں رہا مگر ہم جیسے ممالک کے لیے یہ وبا تازیانے کی صورت وارد ہوئی ہے۔
کورونا کی وبا سے نپٹنے کے لیے جو کچھ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک نے کیا ہے اُس کے اثرات کو بالعموم کھٹے میٹھے قرار دیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اِن میں کھٹاس کا تناسب زیادہ ہے۔ سب سے واضح مثال بھارت کی ہے۔ مودی سرکار نے کورونا کی وبا کی روک تھام کے لیے ملک گیر پیمانے پر جو اقدامات کیے اُن میں قوم کی بھلائی کم اور موقع سے فائدہ اٹھانے کی ذہنیت زیادہ کارفرما تھی۔ مودی سرکار نے خود کو مغربی طاقتوں کی زیادہ مطیع و فرمانبردار بلکہ بغل بچہ ثابت کرنے کی کوشش میں وہ سب کچھ کر ڈالا جو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لاک ڈاؤن نافذ کرکے وبا کی روک تھام کے نام پر لاکھوں افراد کو اُن کے آبائی اور مستقل سکونت والے علاقوں سے دور کردیا گیا۔ بہار، مدھیہ پردیش، تامل ناڈو، اڑیسہ، مغربی بنگال اور دیگر مشرقی، شمال مشرقی اور جنوبی ریاستوں سے کروڑوں افراد مستقل نوعیت کے ذریعۂ معاش کی خاطر ملک بھر میں اور بالخصوص، دہلی، ممبئی، احمد آباد وغیرہ میں آباد ہیں۔ سخت لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے سے لاکھوں افراد کے لیے فوری طور پر اپنے پیاروں کی طرف لوٹنا ممکن نہ ہوسکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند بڑے اور درجنوں چھوٹے شہروں میں لاکھوں ''پردیسی‘‘ بُری طرح پھنس کر رہ گئے۔ اپنے ہی ملک کی حدود میں در بدر ہو جانے والے اِن بدقسمت لوگوں کو لاک ڈاؤن کے باعث تمام صنعتی و تجارتی سرگرمیاں تھم جانے سے شدید مالی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مودی سرکار نے محض یہ دکھانے کے لیے کہ وہ ایک عالمگیر وبا کی روک تھام کے حوالے سے عالمی برادری کے ساتھ ہے بلکہ اُس کے تلوے چاٹنے کے لیے بھی بے تاب ہے، اپنے ہی شہریوں پر ستمِ بے جا کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ لاک ڈاؤن کے دوران بین الریاستی سفر پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ایسے میں اگر کسی نے اپنے پیاروں تک پہنچنے کی کوشش کی تو اُسے ریاستی مشینری کی طرف سے شدید مزاحمت اور بعض حالات میں تو ذلت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ مودی سرکار کا رویہ لاک ڈاؤن نافذ کرتے وقت اور اُس کے دوران ایسا تھا گویا عوام سے کسی پرانی رقابت کا بدلہ لینے کا موقع ہاتھ آگیا ہو۔ جن کے لیے زندگی پہلے ہی ایک بڑی آزمائش سے کم نہیں اُن کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا بھی جاں گُسل مرحلے میں تبدیل کردیا گیا۔
پاکستان میں لاک ڈاؤن ملی جلی کیفیت کا حامل رہا ہے۔ 22 مارچ کو نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے دوران ملک بھر میں لوگوں کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑا مگر یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے لاک ڈاؤن کے نام پر، مودی سرکار کی طرح، عوام سے پُرانی دشمنی کا بدلہ لینے جیسا سلوک روا نہیں رکھا۔ لاکھوں گھرانوں کو مالی امداد بھی فراہم کی گئی۔ ملک بھرمیں مخیر افراد نے پریشان حال افراد کی اِس طور مدد کی کہ وہ لاک ڈاؤن کے مختلف مراحل سے بخوبی گزرنے میں کامیاب ہوئے۔ بھارت میں مودی سرکار نے لاک ڈاؤن کے نام پر جو حماقت کی تھی اُس کے انتہائی منفی بلکہ بھیانک نتائج اب بھارت بھر میں کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ملکی یا ریاستی بنیاد پر تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج اس وقت بھارت کے طول و عرض میں ہو رہا ہے۔ بھارت بھر میں حکومتی کوششوں کے باوجود کسانوں کے حالات اچھے نہ تھے۔ قرضے لے کر فصلیں اگانے والے کسان خراب موسم کے ہاتھوں فصل کے تباہ ہونے پر خود کشی بھی کرتے رہے ہیں۔ ایسے میں لاک ڈاؤن نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ یہ تازیانہ سَروں پر پڑا تو بھارتی کسان دو وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے۔ اب ملک بھر میں کم و بیش 22 کروڑ کسان، یومیہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور اور دکانوں کے ملازم ریلیوں، جلسوں اور ہڑتال کے ذریعے حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کورونا کی وبا کی دوسری لہر کے دوران لاک ڈاؤن کے نام پر غریب عوام کا جینا حرام نہ کرے۔ فروری سے اب تک ملک بھر میں 70 کروڑ سے زائد بھارتی باشندے انتہائی مشکل حالات میں جی رہے ہیں۔ یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ بھارت میں عمومی سطح پر غربا کی مدد کرنے کا کلچر ویسا مضبوط نہیں جیسا ہمارے ہاں ہے۔ پاکستان میں لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں نے ایک دوسرے کی بھرپور مدد کی۔ اللہ کا کرم ہے کہ پاکستان میں اگر کسی کے گھر کا چولھا ٹھنڈا ہو جائے تو اُسے دوبارہ جلانے میں مدد دینے والوں کی کمی نہیں۔ لاک ڈاؤن میں حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ عوام کے باہمی رویے نے بھی معاملات کو انتہائی خطرناک حد تک بگڑنے سے روکا۔ بھارت میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں لوگوں میں کسی کے دکھ یا پریشانی کو دیکھ کر ملول ہونے اور اُس کی مدد کے لیے آگے آنے کا جذبہ خاصی نچلی سطح پر ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب افلاس بھی ہے مگر صرف افلاس کو موردِ الزام ٹھہراکر ایک بڑی معاشرتی خرابی سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔
کورونا کی وبا دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ اس مرحلے میں بھی لاک ڈاؤن کا نفاذ لازم ہے۔ دنیا بھر میں یہی عمومی طریقِ کار اختیار کیا جارہا ہے۔ پاکستان لاک ڈاؤن کے معاملے میں معقولیت کی حدود میں رہنے کو ترجیح دیتا آیا ہے اور اب بھی حکومت کی یہی کوشش ہے کہ ایسا لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے گریز کیا جائے جس کے نتیجے میں لوگوں کے لیے گزارے کی سطح پر بھی جینا مشکل ہو جائے۔ عالمی برادری جو کچھ کر رہی ہے وہ ہمیں بھی کرنا ہے مگر ہمیں اپنے حالات پر ہر حال میں نظر رکھنی ہے۔ کورونا کی دوسری لہر پر قابو پانے کا معقول ترین طریقہ ہے سمارٹ لاک ڈاؤن۔ بھارت کے کیس نے ہم جیسے پسماندہ و ترقی پذیر ممالک کو اچھی طرح بتادیا ہے کہ سخت گیر نوعیت کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے کتنے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں دانش کا تقاضا ہے کہ ترقی یافتہ کی اندھی تقلید اور اُن کی چاپلوسی سے گریز کرتے ہوئے میانہ روی اختیار کی جائے۔ ترقی یافتہ دنیا کورونا کی روک تھام کے نام پر ایسے ایس او پیز تیار کر رہی ہے جن پر مکمل اور غیر لچکدار عمل کی صورت میں پسماندہ ممالک کا مُردہ مزید خراب ہو۔ عمران خان پر ملک کے بیشتر معاملات میں نامعقول رویہ اپنانے کا الزام عائد کرنے والوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن کے حوالے سے بالکل معقول اور متوازن طرزِ فکر و عمل اختیار کرکے قوم کو یقینی تباہی سے بچایا ہے۔ اگر مودی سرکار کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے ہماری حکومت نے بھی مغرب کو خوش کرنے کی کوشش کی ہوتی تو آج ملک ایسے بحران کی زد میں ہوتا جس پر قابو پانا کسی کے بس میں نہ ہوتا۔
ایک طرف حکومت کو سمارٹ ہونا ہے یعنی معقولیت کی حدود میں رہنا ہے اور دوسری طرف اپوزیشن کو بھی قوم کے بہترین مفاد میں سمارٹ سٹریٹیجی اپنانی ہے یعنی حکومت کے خلاف جانے کے معاملے میں معقولیت دکھانی ہے تاکہ ملک اور قوم دونوں کے لیے مشکلات نہ بڑھیں۔ سماجی فاصلے کا پرچار کرنے والی دنیا جب ہمارے ہاں حکومت مخالف ریلیاں اور جلسے دیکھے گی تو کیا سوچے گی‘ یہ اپوزیشن کو ضرور سوچنا چاہیے۔ جو کچھ ہمیں ویسے ہی کرلینا چاہیے تھا وہی کچھ کرنے پر اگر دنیا مجبور کر رہی ہے تو مان لینے میں کیا ہرج ہے؟ اچھا ہے کہ ہم ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ سہی، تھوڑے بہت سمارٹ ہو جائیں۔ دنیا ہمیں تبدیل ہونے کا موقع فراہم کر رہی ہے تو اِسے جھپٹ لینا ہی سمارٹ ہونے کی دلیل ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved