تعلیم اور ترقی کا آپس میں گہرا ربط ہے۔ جب بھی تعلیم کے مقاصد پر بات ہوتی ہے تو ان میں تبدیلی، سوچ کی وسعت، تعصبات سے آزادی اور ڈویلپمنٹ کا ذکر آتا ہے۔ ڈویلپمنٹ کا مفہوم صرف معاشی ترقی تک محدود نہیں بلکہ اس میں سماجی ترقی (Social Development) کا پہلو بھی اہم ہوتا ہے۔ اس پہلو کی نشاندہی معروف ماہرِ معاشیات اور نوبیل انعام یافتہ امرتاسین نے کی تھی۔ پاکستان میں سوشل ڈویلپمنٹ کے سب سے بڑے وکیل معروف ماہرِ معاشیات محبوب الحق تھے‘ جن کا خیال تھا کہ معاشی ترقی کا تصور اس وقت تک نامکمل ہے جب تک اس کے ساتھ سماجی ترقی کا تصور نہ جڑا ہو۔ پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں تعلیم اور ڈویلپمنٹ کے باہمی ربط کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے میدان میں وہ مسائل جو روزِ اوّل سے ہمارے ساتھ تھے ابھی تک ہمارے ہمراہ چل رہے ہیں۔ ان بڑے مسائل میں شرحِ خواندگی کا کم ہونا، لڑکیوں کی تعلیم کے کم مواقع، اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کا فقدان، تعلیمی معیار کی کمی، ڈراپ آؤٹ طلبا کی بلند شرح اور آؤٹ آف سکول بچوں کی کثیر تعداد شامل ہے۔
ان تہتر برسوں میں متعدد تعلیمی پالیسیوں کا اجرا کیاگیا جن میں بلند بانگ دعوے اور خوش نما اہداف مقرر کیے گئے۔ ان اہداف کو پانے کے لیے ڈیڈ لائنز بھی دی گئیں لیکن یہ وعدے وہ دلکش خواب تھے جن کی تعبیر ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی۔ کچھ تجزیہ کار ان خوابوں کے حصول میں ناکامی کا ذمہ دار ہمارے غیرمستحکم سیاسی حالات کو قرار دیتے ہیں لیکن یہ بہت سی وجوہات میں سے صرف ایک وجہ ہے۔ اصل سبب مختلف حکومتوں کی تعلیم کے حوالے سے بے حسی کی حدوں کو چھوتی ہوئی لاپروائی ہے۔ اس کا ایک مظہر تعلیم کے لیے مختص کیے جانے والے فنڈز کی کمی ہے‘ جو جنوبی ایشیا کے ممالک میں کم ترین سطح پر ہے۔ آج ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں‘ جو علم اور مسابقت کی صدی ہے‘ جہاں تعلیم کی مرکزی اہمیت ہے‘ جہاں وہی قوم سرفراز ہو گی جس کے باشندے پڑھے لکھے اور جدید مہارتوں سے لیس ہوں گے۔ حالیہ بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقم جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی تعلیمی پالیسی‘ جو 2009ء میں پیش کی گئی تھی‘ میں یہ بھی بتایا گیا تھاکہ یہ شرح کم از کم 4 فیصد ہونی چاہیے۔ اس پالیسی میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھاکہ اگلے کچھ سالوں میں یہ شرح 7 فیصد ہو جائے گی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ گیارہ سال گزرنے کے باوجود یہ شرح زیادہ ہونے کے بجائے پہلے سے بھی کم ہو گئی۔
تہتر سال گزرنے کے بعد اور بلند بانگ دعووں اور دل فریب اہداف کے باوجود پاکستان کی شرح خواندگی 60 فیصد ہے یعنی اس وقت بھی پاکستان میں 40 فیصد افراد ناخواندہ ہیں۔ اکیسویں صدی میں‘ جب علم طاقت کا دوسرا نام ہے‘ اتنی بڑی تعداد میں نا خواندہ افراد کا ہونا باعثِ اضطراب ہے۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے پاکستان کے اڑھائی کروڑ بچے سکولوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ یوں آبادی کا ایک بڑا حصہ‘ جو قومی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے‘ تعلیم سے محروم ہو کر عضوِ معطل بن گیا ہے۔
پاکستان میں تعلیمی منظرنامے کا ایک اور پہلو عدم مساوات ہے جو صنف، علاقے اور کلاس کی بنیاد پر ہے۔ معاشرے میں ان تعلیمی امتیازات کو دیکھیں تو ایک تشویشناک صورت سامنے آتی ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں کے درمیان باہمی تعلیمی امتیازات بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً پاکستان کے چار صوبوں کی تعلیمی صورتحال پر نظر ڈالیں تو ہمیں واضح تفریق نظر آتی ہے۔ صوبہ بلوچستان باقی صوبوں کی نسبت پیچھے نظر آتا ہے اگرچہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کا رقبہ 347,190 مربع کلومیٹر ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ پاکستان کے کل رقبے کا 43 فیصد ہے‘ لیکن آبادی کے لحاظ سے یہاں پاکستان کی کل آبادی کے محض 6 فیصد لوگ بستے ہیں۔ ماضی میں رقبے اور آبادی کا یہی فرق ملک کے باقی حصوں میں بسنے والے لوگوں کے لیے پُرکشش تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں ایک بڑی تعداد ان اساتذہ کی تھی‘ جو دوسرے صوبوں سے یہاں آئے تھے۔ بلوچستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے بھی غیر ملکی این جی اوز کے لیے مرکزِ نگاہ رہا۔ ان کے تحت یہاں کئی تعلیمی پراجیکٹس شروع کیے گئے۔ مجھے بھی اس وقت بلوچستان کے پرائمری اساتذہ کی تربیت کے ایک پراجیکٹ پر کام کرنے کا موقع ملا جب میں کراچی میں آغا خان یونیورسٹی کے تربیتِ اساتذہ کے ایک ادارے کے ساتھ وابستہ تھا۔ اس دوران مجھے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جانے کا موقع ملا۔ کئی ماہ پر محیط اس پراجیکٹ میں میرا مشاہدہ تھا کہ یہاں کے مقامی طلبا ذہانت میں کسی اور سے کم نہیں‘ ان میں سیکھنے کی جستجو بھی ہے لیکن انہیں سیکھنے کے مواقع بہت کم ملتے ہیں اور یہ محرومی ساری عمر ان کے ساتھ چلتی ہے۔
پھر سیاسی حالات بدلنے لگے اور تعلیمی اداروں میں بے چینی بڑھنے لگی۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد حالات مزید بگڑ گئے۔ مقامی آبادی اور آبادکاروں میں باہمی آویزش بڑھنے لگی۔ وہ اساتذہ جو دوسرے صوبوں سے آئے تھے حالات کی نزاکت دیکھ بلوچستان کے تعلیمی ادارے چھوڑنے لگے کیونکہ انہیں جان عزیز تھی اور وہ دھمکیوں کے ماحول میں کام کرنے سے قاصر تھے۔ ایک اطلاع کے مطابق ان دنوں 70 فیصد اساتذہ نے تبادلے کے لیے درخواستیں جمع کرا دی تھیں۔ یک لخت اتنی بڑی تعداد میں اساتذہ کا تعلیمی اداروں سے رخصت ہو جانا بلوچستان کے تعلیمی نظام کے لیے شدید دھچکا تھا‘ جس کے اثرات دور رس تھے۔
آئیے اب بلوچستان کی تازہ ترین تعلیمی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں۔ پی ایس ایل ایم کی سرو ے رپورٹ 2018-19 کے مطابق اس وقت پاکستان کی شرح خواندگی 60 فیصد ہے: پنجاب 64 فیصد، جبکہ سندھ اور خیبر پختونخوا کی شرح خواندگی ایک جیسی یعنی 57 فیصد ہے۔ اس کے برعکس بلوچستان کی شرح خواندگی صرف 40 فیصد ہے‘ یعنی یہاں کی آبادی کی اکثریت‘ 60 فیصد ناخواندہ ہے۔ یہ صورتحال اور بھی تشویشناک نظر آتی ہے جب ہم لڑکیوں کی تعلیم کے اعدادوشمار دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں لڑکیوں کی شرح خواندگی 49 فیصد، پنجاب میں 57 فیصد، سندھ میں 44 فیصد، خیبر پختونخوا میں 40 فیصد ہے جبکہ بلوچستان میں یہ شرح سب سے کم یعنی 24 فیصد ہے۔ پرائمری سطح پر پاکستان کا نیٹ انرولمنٹ ریٹ (NER) 66 فیصد، پنجاب میں 73 فیصد، سندھ میں 58فیصد، خیبر پختونخوا میں 66 فیصد ہے جبکہ بلوچستان میں NER صرف 40 فیصد ہے‘ اور لڑکیوں کی شرح محض 35 فیصد ہے یعنی 65 فیصد بچیاں پرائمری سکول میں داخلہ نہیں لیتیں۔ اگر ہم5 سے 16 سال کی عمر کے ان بچوں کے اعداد و شمار دیکھیں جو سکول سے باہر (Out of School) ہیں تو پاکستان میں یہ تعداد 30.13 فیصد ہے‘ جبکہ بلوچستان میں 58.98 فیصد بچوں کی سکولوں تک رسائی نہیں۔
یہ اعداد و شمار پالیسی سازوں اور فیصلہ سازوں کے لیے چشم کشا ہونے چاہئیں کہ پاکستان کے رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کو مختلف ادوار میںکس بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ اگر ہم بلوچستان کو صحیح معنوں میں ترقی کی شاہراہ پر ڈالنا چاہتے ہیں تو تعلیم کے شعبہ پر قومی وسائل صرف کرنا ہوں گے۔ یہاں کے بچوں، بچیوں اور نوجوانوں، جو ذہانت میں کسی سے کم نہیں، کو تعلیمی مواقع دینا ہوں گے۔ اگر آج انہیں معیاری تعلیم ملے گی تو کل یہی نوجوان قومی ترقی میں ہراول دستے کا کردار ادا کریں گے۔