''کیا بھارت ایک فاشسٹ ریاست کا روپ دھار چکا ہے؟ کیا بھارت میں بسنے والی اس کی اقلیتیں، اس کے سرحدوں سے منسلک تمام ہمسایہ ممالک میں بھارتی مداخلت، دہشت گردی اور ہر کمزور سوسائٹی کے حقوق اور وسائل پر پابندیاں نریندر مودی کے فلسفے کی داستانِ اول بنتی جا رہی ہیں؟ بھارت میں ریاستی طاقت کا وحشیانہ استعمال‘ جو دلت، عیسائی اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اب سکھوں کے خلاف بھی شروع ہو گیا ہے‘ کہاں جا کر دم لے گا؟‘‘
یہ آسٹریلیا، بھارت، برطانیہ اور امریکا سے سول سوسائٹی کے کارکن، تعلیم اور تحقیق کے شعبوں کے ماہرین، سینئر جرنلسٹس اور سیاستدانوں پر مشتمل ایک گروپ کی ہونے کانفرنس میں زیر بحث آنے والے وہ موضوع تھے جن پر وہاں موجود تمام شرکا نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے بھارت کا سیکولر ازم اور عدلیہ کی آزادی کا وہ بت‘ جسے دنیا بھر میں گاندھی کے فلسفے کے نام سے سراہا جاتا تھا‘ اب انتہا پسند ہندو قیا دت کے ہاتھوں پاش پاش ہو چکا ہے اور اب تو دنیا بھر میں یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ انڈین سپریم کورٹ اپنا ہر فیصلہ امیت شاہ سے پوچھ کر سناتی ہے۔ گاندھی کا بھارت تو کب کا قصۂ پارینہ ہو چکا ہے کیونکہ خود گاندھی کو قتل کرنے والے شخص اور اس کے خاندان کو شاید بھارت میں گاندھی کی جگہ پر دیوتا کا درجہ دیا جا چکا ہے۔ گاندھی کے قتل میں استعمال ہونے والے پستول کو بھی متبرک سمجھ کر بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر کئے جانے والے رام مندر میں جگہ دی جا رہی ہے۔
بھارتی ممبر پارلیمنٹ اور سینئر سیاستدان ڈیوڈ شوبرج نے اس کانفرنس کے افتتاحی خطاب میں کہا کہ جمہوریت اور شہری آزادیوں کا تصور اب بھارت میں ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ آسٹریلیا کی سابقہ سینیٹر لی رہیا نن نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی جمہوریت اور سیکولر ازم کا معیار خطرناک حد تک گر چکا ہے اور میں خود سے بار بار یہ سوال پوچھتی ہوں ''کیا مودی حکومت بھارت میں فاشزم کے پرچار کیلئے کسی بھی قانونی اور اخلاقی حد کو اسی طرح روندتی جا ئے گی؟‘‘۔ انہوں نے کہا: مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ مودی حکومت بھارت میں فسطائی نظریے کو فروغ دے رہی ہے؟ میں سمجھتی ہوں کہ لوگ یہ سوال کیوں کرتے ہیں۔ نئے قوانین کے تحت غیر قانونی شہری سمجھے گئے لاکھوں افراد کے لیے بھارت میں بڑے حراستی مراکز بنائے گئے ہیں۔ اس عالمی ورچوئل سیمینار میںآسٹریلیا کی تنظیم دی ہیومنزم پروجیکٹ، انڈین مسلم امریکن کونسل، ہندوز برائے ہیومن رائٹس اور امریکا و آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اراکن بھی شامل تھے۔ ان سب نے جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے اور اس کے خلاف سپریم کورٹ کے مبہم فیصلے اور بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں80 لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کے خلاف کریک ڈائون، کشمیریوں کو سیٹلائٹ، انٹرنیٹ اور روزگار کی سہولتوں سے محروم کرنے اور نریندر مودی کے ناجائز اقدامات کے خلاف پُرامن احتجاج کرنے والے کشمیری مرد و خواتین پر بھارتی فوج کے وحشیانہ تشدد کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے اسے جمہوریت اور بنیادی حقوق کی بدترین تذلیل قرار دیا اور اسکے خلاف دنیا کے ہر فورم پر آواز اٹھانے کا اعادہ کیا۔
ایف اے ٹی ایف کے دہرے معیار کو دیکھتے ہوئے دنیا یہ کہنے پر مجبور ہو رہی ہے کہ 2001ء سے 2020ء تک کے عرصے میں پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں 19130 دہشت گردانہ حملے کئے گئے‘ جن میں 83 ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے، 32 ہزار سے زائد افراد شدید زخمی اور ہمیشہ کے لیے معذور ہوئے جبکہ لاکھوں متاثرین اس کے علاوہ ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار، حرکت الانصار، بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ریپبلکن آرمی اور ملا فضل اﷲ گروپ سمیت درجنوں تنظیموں کا ایک مشترکہ اتحاد بنا کر انہیں منظم انداز میں پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اس سلسلے میں جتنے بھی شدت پسند اور عسکریت پسند گروہ ہیں‘ ان سب کا تعلق 2018ء میں بننے والی ''بلوچ راجیے اجوئی سانگر‘‘ سے رہا ہے۔ ان سب کو اٖفغانستان میں بھارتی سفارت خانے میں تعینات انڈین آرمی کے انٹیلی جنس افسر کرنل راجیش کے ذریعے ہینڈل کیا جا تا رہا جو پاکستان میں کرائی جانے والی دہشت گردی کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کو ثبوت کے طور پر اس کا فارسی زبان میں لکھا گیا وہ خط بھی دیا گیا ہے جس نے بھارت کی دہشت گردی پر مہر ثبت کرتے ہوئے اس کا چہرہ ننگا کر رکے رکھ دیا ہے۔ اس خط کو پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ کرانل راجیش نے ان تمام دہشت گرد تنظیموں‘ جنہیں کالعدم قرار دیا گیا ہے‘ کے ہر کمانڈر سے چار مرتبہ رابطہ کیا تاکہ کوئٹہ، کراچی، لاہور اور پشاور میں نومبر‘ دسمبر میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکے۔
بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی را اس وقت تحریک طالبان پاکستان کی طرح داعش کے نام سے بعض لسانی سیاسی جماعتوں کے ذریعے لوگوں کو بھرتی کر رہی ہے جنہیں ریاست کے خلاف استعمال کیا جائے گا اور اس سلسلے میں بھارتی داعش کے 30 مسلح دہشت گردوں کو بھارت سے لا کر پاک افغان سرحد کے قریب کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ بلوچستان کے ایک انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق‘ اس وقت قندھار میں بھارت کا سپیشل سروسز گروپ 1500 کے قریب دہشت گردوں کو سخت گوریلا تربیت دے رہا ہے، ان میں سے پانچ سو دہشت گردوں کو بلوچستان میں داخل کیا جا چکا ہے جو اب تک ایف سی، پولیس سمیت شہری آبادیوں اور فوج پر حملے کرتے ہوئے شدید جانی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ دہشت گردوں کا یہ گروہ سی پیک کو نشانہ بنانے کیلئے تیار کیا گیا ہے اور اس فورس کیلئے بھارت 6 کروڑ ڈالر فراہم کر چکا ہے۔ گوادر میں ایک فائیو سٹار ہوٹل پر حملے کی تمام منصوبہ بندی بھارتی را کے افسر انو راگ سنگھ نے کی تھی اور اس کیلئے ایک دہشت گرد گروپ کو پانچ لاکھ ڈالر بھی مہیا کئے گئے تھے۔ اس حملے میں چار دہشت گرد اور پانچ شہری ہلاک ہوئے تھے۔
بلوچ لبریشن فرنٹ کے لیڈر اور سینکڑوں افراد کے قاتل ڈاکٹر اﷲ نذر جیسے دہشت گردوں کی آڈیو ریکارڈنگز بھی ان دستاویزات میں شامل ہیں جن میں وہ چینی سفارت خانے پر حملے میں ملوث اسلم اچھو سے حملے سے متعلق گفتگو کر رہا ہے اور جو دہشت گرد گوادر ہوٹل پر حملے میں شامل تھے‘ ان کا بھی ڈاکٹر اﷲ نذر سے مسلسل رابطہ تھا۔ اب یہ تمام ثبوت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس سمیت اقوام عالم کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں۔ یہ تمام حالات واضح کر رہے ہیں کہ بھارت کا مقصد سی پیک اور گوادر پورٹ جیسے منصوبوں کو سبوتاژ کر کے پاکستان کے اندر دہشت گردی کو فروغ دینا اور اسے معاشی طور پر مفلوج کرنا ہے۔ سب سے حیرت انگیز اور قابل افسوس بات یہ ہے کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کرانے کیلئے انسانی حقوق کے نام پر قائم بعض نام نہاد تنظیموں کو بھی استعمال کر رہا ہے اور تمام فنڈز ان تنظیموں کے ذریعے دہشت گردوں کو مہیا کیے جاتے رہے۔
اس وقت پاکستان دنیا کے سامنے ناقابل تردید ثبوت رکھ چکا ہے جن سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ تنظیمیں‘ جن میں سے ایک تنظیم کو دو کروڑ 33 لاکھ اور بلوچستان کی ایک قوم پرست جماعت کو 50 لاکھ ڈالر ملک میں شورش برپا کرنے کیلئے فراہم کئے گئے، کراچی کی ایک لسانی تنظیم کو بھی 32 لاکھ ڈالر فراہم کئے گئے ہیں جس کا سراغ پاکستان کے حساس ادارے لگا چکے ہیں‘ کس ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ کراچی سٹاک ایکسچینج اور چینی قونصل خانے پر کئے گئے حملوں کے بعد ہونے والی گرفتاریوں نے سارا عقدہ کھول کر رکھ دیا ہے کہ بھارت نے سی پیک سمیت پاکستان کے اندر دہشت گردی کرانے کیلئے 6 گروپ تشکیل دیے ہیں اور اس سلسلے میں را کے دو ایجنٹوں کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب عالمی ادارے‘ بھارت پر‘ دہشت گردی میں ملوث ہونے پر‘ پابندیاں لگائیں گے یا یہ پابندیاں عالمی طاقتوں کی راہ میں مزاحم پاکستان جیسے ممالک کا ہی مقدر ہیں؟