تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     12-12-2020

سَند نہیں، شخصیت

اشرف کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو سکول سے یونیورسٹی تک تو غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں یعنی اچھے مارکس لے کر اگلے درجوں میں جاتے ہیں مگر عملی زندگی میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اس کا بنیادی سبب یہ نہیں کہ جو کچھ انہوں نے سکول سے یونیورسٹی تک سیکھا ہوتا ہے وہ دوسروں کے حاصل کردہ علم سے کمتر یا غیر متعلق ہوتا ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اشرف اور اُس جیسے دوسرے بہت سے لوگوں کا اصل مسئلہ سَند نہیں‘ شخصیت ہے۔ سکول سے یونیورسٹی تک اشرف نے ایسی شاندار کارکردگی دکھائی کہ سبھی اُس کے روشن مستقبل کی پیشگوئی کرتے دکھائی دیے۔ لوگوں نے اس کے بارے میں جو اندازہ لگایا وہ‘ معاملات کو دیکھتے ہوئے‘ غلط تھا نہ بے جا۔ اشرف نے حصولِ علم کے دوران ہر مرحلے پر قابلِ رشک کامیابی حاصل کی۔ اُس کی تمنا معلم بننے کی تھی مگر مزاج اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ بہتر مستقبل کی تلاش اُسے کاروباری نظم و نسق کی طرف لے گئی۔ ایم بی اے کرلیا تو ایک بڑے کاروباری ادارے میں اُسے انتظامی ڈھانچے میں بڑا منصب ملا۔ عام خیال یہ تھا کہ اشرف کو ''ڈریم جاب‘‘ ملی ہے۔ خود اشرف کو بھی یہ محسوس ہوا تھا کہ وہ اب اپنی منزل سے بہت قریب ہے۔ ایک بڑے کاروباری ادارے میں خاصا بڑا اور ذمہ داری والا منصب مل جائے تو اور کیا چاہیے؟ عملی زندگی شروع کرنے والوں کو یہی کچھ تو درکار ہوا کرتا ہے۔ اشرف کے دروازے پر بھی خوش نصیبی دستک دے چکی تھی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ اشرف میں پایا جانے والا جوش بھی قابلِ دید تھا۔
پھر یہ ہوا کہ اشرف راستے میں اٹک کر رہ گیا۔ اُس کی ملازمت زیادہ دن برقرار نہ رہ کی۔ اُس نے شاندار تعلیمی ریکارڈ کی بنیاد پر بہت جلد ایک اور بڑے کاروباری ادارے میں ملازمت حاصل کرلی مگر یہ ملازمت بھی زیادہ دن نہ چل سکی۔ لوگ حیران تھے کہ جس کا تعلیمی ریکارڈ اتنا شاندار رہا ہو وہ اِس طور ناکام کیونکر ہوسکتا ہے مگر خیر! جو کچھ ہوا وہ تو ہو ہی چکا تھا اور سب کے سامنے تھا۔ عملی زندگی میں اس نوعیت کی ناکامی سبھی کو حیرت زدہ کرتی ہے۔ بہت جلد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اشرف کے معاملے میں جو کچھ ہوا تھا اُس سے شاندار تعلیمی ریکارڈ کا کوئی تعلق نہ تھا۔ اشرف کی تعلیمی قابلیت پر کسی کو ذرا بھی شبہ نہ تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ وہ خود کو عملی زندگی کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ خود اشرف کے ذہن میں یہ خیال راسخ ہوچکا تھا کہ اس کا شاندار تعلیمی ریکارڈ ہی عملی زندگی میں کامیابی دلانے کے لیے کافی ہے۔ یہ سوچ غلط تھی! اُسے کسی نے نہیں بتایا کہ عملی زندگی میں تعلیمی کامیابی زیادہ دور تک ساتھ نہیں دیتی ۔ عملی زندگی ایسی بہت سی صلاحیتیں اور مہارتیں چاہتی ہے جو سکول، کالج اور یونیورسٹی میں نہیں سکھائی جاتیں۔ کسی بھی کاروباری ماحول میں انسان خود کو بہتر انتخاب اُسی وقت ثابت کرسکتا ہے جب اُسے متعلقہ معاملات کا بہتر علم ہو اور ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی طرزِ فکر و عمل کو اعتدال کی حدود میں رکھنے کا ماہر بھی ہو۔ حصولِ تعلیم کے میدان میں آئی کیو کام آتا ہے اور عملی زندگی میں ای کیو (ایموشنل کوشنٹ) یعنی جذبات کو قابو میں رکھنے کا ہنر۔ ہم اِسے عقلِ سلیم بھی کہہ سکتے ہیں۔
اشرف کے بارے میں یہ جان کر لوگ حیران رہ گئے کہ علم کی حد تک بہت کچھ جاننے کے باوجود وہ عمل کے معاملے میں خاصی محدود معلومات کا حامل تھا۔ اُسے یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ کسی بھی پُرجوش کاروباری ماحول میں دیگر ملازمین اور بالخصوص ماتحت افراد سے بات کس طرح کی جاتی ہے اور مختلف معاملات کو سلجھانے کے لیے کس نوعیت کی طرزِ فکر و عمل درکار ہوتی ہے۔ کسی بھی کاروباری ماحول میں بنیادی چیز ہے انسانوں کو سمجھنا۔ سرمائے کا اہتمام کرنے کے بعد مشینری اور دیگر ضروری اشیا خریدی یا حاصل کی جاسکتی ہیں مگر اُن سے کام لینا تو انسانوں ہی کا کام ہے۔ اگر انسانوں کو کام کرنے کی تحریک دینے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو سمجھ لیجیے کاروبار کسی بھی حال میں کامیابی سے ہم کنار نہ ہوسکے گا۔ مشینری کو آسانی سے درست کیا جاسکتا ہے، انسانوں کو درست کرنا ایسا آسان نہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان سوچنے والی مشین ہے۔ ہر انسان سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ صلاحیت اُس کے لیے نعمت بھی ہے اور مصیبت بھی۔ اگر وہ سوچنے کا ہنر جانتا ہو اور اُس کے مطابق اپنے عمل کو مطلوب حد تک درست رکھ پائے تو بات بن جاتی ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو یعنی انسان ڈھنگ سے سوچنا بھی نہ جانتا ہو اور اپنی طرزِ فکر و عمل کو درست رکھنے کا ہنر بھی نہ سیکھ پایا ہو تو سمجھ لیجیے ناکامی زیادہ دور نہیں۔
جین گریوز (اور شریک مصنف ٹریوِس بریڈ بیری) نے اپنی کتاب ''ایموشنل انٹیلی جنس‘‘ میں اس نکتے پر بحث کی ہے کہ کسی بھی انسان کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں یہ بات کلیدی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ ہر سطح کے تعلقات میں اعتدال برقرار رکھنے کا ماہر ہو اور کسی بھی معاملے میں بے جا طور پر نامعقول رویہ اختیار کرنے سے گریز کرے۔ یہ باضابطہ فن ہے جو سیکھا اور سکھایا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں کسی بھی کاروباری ادارے کے لیے حقیقی اثاثہ ملازمین ہوتے ہیں کیونکہ اُن کی بہتر کارکردگی ہی کاروبار کا گراف بلند کرتی ہے۔ مصنفین لکھتے ہیں کہ بیشتر افراد کے ذہن میں یہ تصور راسخ ہوچکا ہے کہ جذبات میں اعتدال یعنی ایموشنل انٹیلی جنس شخصیت کا ایسا طلسم ہے جو قدرت کی طرف سے ودیعت کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہنر ہے جو سیکھا جاسکتا ہے اور اِس کی سطح بھی بلند کی جاسکتی ہے۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کس طور کوئی بھی انسان اپنے وجود میں ایموشنل انٹیلی جنس کا گراف بلند کرکے بے مثال کامیابی یقینی بناسکتا ہے۔ کتاب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ تعلقات انسان کو بناتے بھی ہیں اور بگاڑتے بھی ہیں۔ ایک طرف تو ہمیں اپنے آپ سے واقف ہونا ہوتا ہے۔ پھر اپنے وجود کا بہتر نظم و نسق یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اِس کے بعد یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کو کس حد تک جانتے ہیں اور یہ کہ اُن سے ہمارے تعلقات کس نوعیت کے ہیں، کس درجے میں ہیں۔ 
کتاب کا تھیم یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنے اور دوسروں کے جذبات شناخت کرنے کا ہنر آنا ہی چاہیے۔ اس کتاب میں عمومی سطح پر پائے جانے والے اس واہمے کو چیلنج کیا گیا ہے کہ جس کا آئی کیو اچھا ہوتا ہے‘ وہ عملی زندگی میں بے مثال کامیابی حاصل کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محض ذہین ہونے اور عملی زندگی میں نمایاں کامیابی کا حصول یقینی بنانے میں بہت فرق ہے۔ کسی بھی انسان کی بھرپور اور قابلِ رشک کامیابی یقینی بنانے میں اُس کی شخصیت نمایاں ترین کردار ادا کرتی ہے۔ آئی کیو سے یہ پتا چلتا ہے کہ کسی کے پاس علم کتنا ہے اور وہ کتنی تیزی سے کسی بھی مسئلے کو کاغذ پر حل کرلیتا ہے جبکہ ای کیو (Emotional Quotient) سے پتا چلتا ہے کہ متعلقہ فرد تعلقات کی راہ پر کہاں کھڑا ہے۔ تعلیمی ادارے لکھنا، پڑھنا اور کسی حد تک سوچنا بھی سکھاتے ہیں مگر یہ نہیں سکھاتے کہ کسی بھی صورتِ حال میں لوگوں سے کس طور پیش آنا چاہیے۔ آئی کیو کا نتیجہ صاف دکھائی دیتا ہے، ای کیو کا نتیجہ بہت نزاکت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے اور اِس کا ارتقا غیر معمولی انہماک چاہتا ہے۔ محبت، اخلاص اور جذبۂ رحم انسان کو بہت حد تک بیان کرتے ہیں اور عملی زندگی میں آگے بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
انسان اچھی خاصی حد تک ذہن کا غلام ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جذبات بھی اُس کی جان نہیں چھوڑتے۔ غصہ، غم، خوشی وغیرہ وہ جذبات ہیں جو انسان کو ہر وقت گرفت میں لیے رہتے ہیں۔ اشرف جیسے لوگ بہت پڑھ لکھ کر بھی اس لیے ناکام رہتے ہیں کہ وہ جذبات کو سمجھنے کی اہمیت نہیں سمجھتے۔ جذبات کی سطح پر سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved