لاہور میں مریم نوازشریف کے نعرے گونج رہے ہیں، 13دسمبر کے جلسے میں شرکت کی دعوت دینے، وہ گنجان آباد علاقوں میں گئی ہیں، ریلیاں نکالی ہیں اور اپنی یہ صلاحیت (یا خصوصیت) منوا لی ہے کہ وہ ''کرائوڈ پُلر‘‘ (Crowd Puller) ہیں۔ اہل سیاست میں بہت کم خواتین و حضرات کو یہ شرف حاصل ہو پاتا ہے کہ ان کا نام سن کرلوگ انہیں دیکھنے اور سننے کے لئے جمع ہو جائیں۔ اصطلاحِ عام میں ان افراد کو ''عوامی لیڈر‘‘ کہا جاتا ہے۔ برصغیر کی تاریخ میں کئی ایسے رہنما گزرے ہیں، جنہیں دیکھنے یا سننے کیلئے بسوں اور ٹرکوں میں بھر کر سامعین اکٹھے نہیں کرنا پڑتے تھے، وہ جس شہر میں جاتے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے۔ میرے لڑکپن تک جلسوں کی حاضری شہر کے باسیوں تک محدود رہتی تھی۔ لاہور میں جلسہ ہوتا تو اس میں لاہوریے ہی شریک ہوتے، ملتان یا راولپنڈی والوں کو تکلیف نہ دی جاتی۔ آمرانہ ادوار میں حکمرانوں کے جلسوں میں شرکت کے لئے لوگوں کو دور دور سے لانے کا رواج ہوا۔ اور اب تو اس میں کوئی عار ہی نہیں سمجھی جاتی۔
میری آنکھوں نے خان عبدالقیوم خان کے بعد اور ذوالفقار علی بھٹو سے پہلے کسی ''کرائوڈ پلر‘‘ کو دیکھا ہے تو وہ محترمہ فاطمہ جناح تھیں، جب وہ صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابل معرکہ آرا تھیں تو جہاں جاتیں، انہیں دیکھنے کے لئے ہجوم جمع ہو جاتا۔ میں ان دنوں گورنمنٹ کالج ساہیوال کی انجمن طلبہ کا صدر تھا، ہم نے محترمہ کی حمایت کے لئے مادر ملت یوتھ کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی تھی، جس میں برادران سجاد میر اور (بعدازاں کرنل) قسور نصیر بھی سرگرم تھے، ہم سب گائوں گائوں، بستی بستی ان کا پیغام پہنچا رہے تھے۔ محترمہ نے کراچی جاتے ہوئے ساہیوال کے ریلوے سٹیشن پر چند الفاظ ادا کئے۔ طویل پلیٹ فارم پر ہر طرف سر ہی سر تھے، ہزاروں افراد کو جب انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کی تلقین کی تو پورا مجمع دم سادھ گیا۔ پن ڈراپ سائلنس... یہ معجزاتی منظر آنکھیں اب تک بھلا نہیں پائیں۔ خان عبدالقیوم خان کو بھی لوگ شوق سے سننے آتے تھے، سکندر مرزا کے خلاف ان کی گھن گرج آج بھی کپکپی طاری کر دیتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے پُرہجوم جلسوں کا نیا ریکارڈ قائم کیا تو ایئرمارشل اصغر خان بھی سیاست میں قدم رکھتے ہی مرجع خلائق بن گئے۔ بھٹو صاحب حوالۂ زنداں ہوئے تو ایئرمارشل کے جلسے ایوب خان پر ہیبت طاری کرنے لگے‘ ایئر مارشل کی مقناطیسی شخصیت برسوں خود کو منواتی رہی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو 1986ء میں بیرون ملک سے واپس آئیں تو ان کے استقبال کا منظر تاریخی تھا۔ نوازشریف آئی جے آئی کے سربراہ بنے تو ان کا حلقہ بھی وسیع ہوتا گیا اور نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد ''کرائوڈ پُلر‘‘ کے طور پر انہوں نے بھی خود کو منوا لیا۔ ان کی مقناطیسیت اب ان کی بیٹی کو منتقل ہو رہی ہے۔ جس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کو وراثت میں یہ وصف حاصل ہو گیا تھا بھٹو صاحب کی وجہ سے وہ مالا مال تھیں، اسی طرح مریم کو بھی نواز شریف کی سیاست منتقل ہو رہی ہے۔ ان کے انداز تکلم، الفاظ کی ادائیگی اور معنی خیز جملوں کی فراوانی نے ایک عوامی شخصیت کے طور پر ان کی دھاک بٹھا دی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی بھرپور محنت بھی رنگ لا رہی ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کو ایک نیا رنگ اور آہنگ دینے میں لگے ہیں، اگر انہیں محترمہ کی وراثت براہ راست منتقل ہوتی تو منظر مختلف ہوتا، اب ان کے والد گرامی سے ہوتے ہوئے ان تک پہنچی ہے تو ایک بڑی حد تک سمٹ چکی ہے۔ فراست اور چابکدستی میں تو زرداری صاحب کی پی ایچ ڈی مخدوم جاوید ہاشمی نے بھی تسلیم کر رکھی ہے، لیکن عوامی قبولیت کا معاملہ دوسرا ہے۔ بلاول نے عزم اور صبر سے سفر جاری رکھا تو میٹھا پھل ملنے کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔ ان کا مقابلہ وزیر اعظم عمران خان سے ہے‘ جو خود ایک بڑے 'کرائوڈ پُلر‘ کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکے ہیں۔ ان کی برسوں پر پھیلی جدوجہد نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا، ان کا وسیع ''فین کلب‘‘ (Fan Club) اب بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔
لاہور کا جلسہ تو بڑا ہو جائے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ جلسے کے بعد کیا ہو گا، مریم اور بلاول دونوں بات چیت کا دروازہ بند رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی بھی مانگ رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان بھی اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے شوق میں مبتلا دکھائی نہیں دیتے۔ وہ اسے مسلسل دھتکارتے اور پھٹکارتے رہے ہیں، اب اگرچہ مکالمے کی اہمیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اسے جمہوریت کے لئے ناگزیر قرار دے گزرے ہیں، لیکن عملی طور پر حکومت اس سمت بڑھتی نظر نہیں آتی۔ احسن اقبال حکومت کی طرف سے پیغام لانے والے وزرا کا تذکرہ کرتے ہیں‘ لیکن ان کا نام بتانے کو تیار نہیں۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نون لیگی رابطہ کاروں کے وجود کی خبر دے رہی ہیں، لیکن سنجیدگی کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ اگر فریقین اپنی اپنی ضد پر اڑے رہیں گے اور ایک دوسرے کی ناک رگڑنے کے شوق میں اپنی اپنی ناک کو بھول جائیں گے تو پھر ان کے ہاتھ کیا آئے گا اور کیا رہے گا؟ اس بارے میں تاریخ کی شہادت شادیانے بجانے کی اجازت نہیں دیتی۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں حقیقت ہیں۔ دونوں کی جڑیں عوام میں ہیں، دونوں کے ووٹ گنے جائیں تو کوئی بڑا فرق سامنے نہیں آتا۔ حکومت بیس ہے تو اپوزیشن انیس یا اٹھارہ، اس لئے دونوں کو ایک دوسرے کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ دستور پاکستان کا تقاضا یہی ہے اور پارلیمانی طرز حکومت کی روح بھی یہی ہے۔ ایک پہیے پر چلانے کی کوشش میں گاڑی الٹ جاتی ہے، فراٹے نہیں بھر سکتی۔
چند رخصت ہونے والے
اس دنیا سے رخصت ہو کر ابدی دنیا میں جا بسنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ان میں ایسے بھی ہیں جن سے دلی تعلق رہا، ایسے بھی ہیں، جنہیں کچھ فاصلے سے دیکھا۔ برادر عزیز سعود ساحر اسلام آباد اور راولپنڈی ہی نہیں ملک بھر کے صحافیوں کی جان تھے، اپنے بے باک لہجے اور قلندرانہ اسلوب کی وجہ سے پہچانے جاتے اور عزت کراتے تھے۔ بھائی عبدالقادر حسن کے کالم پڑھ کر بہت کچھ سیکھا، ان سے محبت کا تعلق عشروں پر پھیلا ہوا ہے۔ انہیں سیاسی کالم نگاری کا ''باوا آدم‘‘ کہا جا سکتا ہے، سردار شیر باز مزاری نے ایک بڑا بلوچ سردار ہونے کے باوجود عوام کے لئے سیاست کی، اشرافیہ کے بجائے عوام سے تعلق نبھایا اور اپوزیشن کو اپنے کردار سے مہکایا... ظفراللہ جمالی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے، اپنی سادگی، دیانتداری اور دوست داری کی وجہ سے اپنی پہچان بنائی اور عزت کمائی۔ سراج قاسم تیلی ایک بڑے بزنس مین تھے۔ کراچی چیمبر کے صدر رہے، بزنس مین گروپ کے سربراہ کے طور پر بیباکی سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ وطن عزیز کی معاشی ترقی کے خواب نے انہیں بے چین رکھا۔ اہل سیاست کو للکارتے پھٹکارتے رہے۔ سید ناظم حسین شاہ بھٹو مرحوم کے جیالے تھے، ملتان کے بڑے زمینداروں میں شمار ہوتا تھا، لیکن اپنے وسیع مطالعے اور فراخ دلی نے انہیں ہمیشہ اہلِ سیاست کے حلقے میں ممتاز رکھا۔ ان کی سلیقہ مند اور باشعور اہلیہ بھی چند ہی روز کے بعد ان سے جا ملیں۔ جگر کے یہ سب ٹکڑے اس قابل ہیں کہ ان پر تفصیلی اظہار خیال کیا جائے، ہفتے میں ایک کالم لکھنے کی خود ساختہ پابندی نے ہنوز یہ خواہش پوری نہیں ہونے دی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرمائے، ان کی لحد پر کھلیں جاوداں گلاب کے پھول۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]