پی ڈی ایم کی تحریک جب سے شروع ہوئی ہے، جلسوں، ریلیوں، میڈیا ٹاکس اور پریس کانفرنسز میں حکومت پر سخت بیانات کی مسلسل بمباری کی جارہی ہے۔ شروع میں حکومتی وزرا اور مشیران کرام کو سمجھ نہ آئی کہ ان حملوں کو روکنا کیسے ہے اور پھر ان کے جوابات کیسے دینے ہیں؟ کئی بار تو وزیراعظم عمران خان کو خود میدان میں اتر کر اپوزیشن اتحاد کو آڑے ہاتھوں لینا پڑا۔ ایسے میں صرف ایک آواز ایسی تھی جس نے تسلسل کے ساتھ عمران حکومت کا دفاع کیا۔ وہ آواز شیخ رشید کی تھی۔ بطور وزیر ریلوے وہ ہر ہفتے بغیر کسی ناغہ کے لاہور میں میڈیا کے سامنے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے جہاں کہیں موقع ملا عمران خان کے ساتھ دوستی نبھائی۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا تھا کہ وہ وزیر ریلوے نہیں بلکہ وزیر اطلاعات ہیں۔ میڈیا کے کئی حلقوں کی ان کے سابقہ ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے خواہش تھی کہ وزارت اطلاعات کا قلمدان شیخ رشید کو سونپ دیا جائے۔ ماضی میں دو مرتبہ وہ وزیر اطلاعات رہ چکے ہیں۔ میڈیا کی نبض کو خوب سمجھتے ہیں اور میڈیا کے مسائل کو بھی۔ اسی لئے میڈیا کے لوگوں میں یہ تاثر موجود ہے کہ ان کے آنے سے میڈیا کے اپنے حالات بھی شاید کچھ بہتر ہوجائیں۔
شیخ رشید احمد کا شمار پاکستان کے سینئر ترین پارلیمنٹیرینز میں ہوتا ہے۔ وہ 15 بار مختلف وزارتوں کو چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ گلی محلے کی سیاست میں نعرے لگانے والے شیخ رشید کا اعلیٰ ترین وزارتوں تک سفر ایک نہایت دلچست داستان ہے۔ آپ یہ داستان ان کی کتاب ''لال حویلی سے اقوام متحدہ تک‘‘ میں پڑھ سکتے ہیں۔ یہاں اس تذکرے کا مقصد ان کی تازہ وزارت کا قلمدان ہے۔ وزیر اعظم نے پی ڈی ایم کی تحریک کے عین اس وقت جب وہ کسی بڑے فیصلے کی جانب بڑھنے والی ہے‘ شیخ رشید احمد ایسے منجھے ہوئے سیاستدان کو وزیر داخلہ بنا دیا ہے۔ شیخ رشید جو بطور وزیر ریلوے فل بیک پوزیشن پر کھیل رہے تھے‘ اچانک انہیں سنٹر فارورڈ کا رول دے دیا گیا ہے۔ اب انہیں گول بچانے نہیں بلکہ مخالف ٹیم کی ڈی میں گھس کر گول کرنے ہیں‘ اور وہ اس فن میں طاق ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انہیں پی ڈی ایم کیلئے میدان میں اتارا گیا ہے یا اس کے اور بھی مقاصد ہیں؟ اور کیا پی ڈی ایم کی موجودہ تحریک کو ہینڈل کرنا آسان ہوگا؟ ایک جانب اگر شیخ رشید ہیں تو دوسری جانب 11 جماعتوں کے بڑے دماغ ہیں جو خود اس کھیل کے بڑے جغادری ہیں۔ اس لئے یہ آسان نہ ہوگا۔ انہوں نے وزارت سنبھالتے ہی پی ڈی ایم پر لفظی گولہ باری کا آغاز کردیا۔ کچھ بیانات ملاحظ فرمائیں۔ اپوزیشن کو پیغام دیا ہے کہ ''126‘‘دن کا دھرنا انہوں نے بھی دیا تھا لیکن کچھ نتیجہ نہیں نکلا تھا‘ لہٰذا یہ بھی آجائیں اسلام آباد اور اپنا شوق پورا کرلیں‘ جس ماہ کا آپ نے انتخاب کیا وہ شدید سردی کا ہے، ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ ناکام ہوگی، ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے فارن انویسٹمنٹ کی جارہی ہے جو لوگ اندر سے انتشار پھیلانا چاہتے ہیں ناکام ہوں گے‘‘۔ ایک طرف وہ اپوزیشن کو اسلام آباد آنے کی دعوت دے رہے ہیں دوسری طرف انہیں تنبیہ بھی کررہے ہیں کہ اس تحریک کے ڈانڈے کہیں اور ملتے ہیں۔ انہیں اپوزیشن کے جلسوں پر اعتراض نہیں‘ لیکن ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ''عمران خان آپ کے جلسے سے کہیں نہیں جارہے ہیں، کھلی اجازت ہے آپ جلسہ کریں آپ پر کوئی پابندی نہیں، ملتان میں کنٹینرز کا جو مسئلہ پیدا ہوا وہ اب نہیں ہوگا‘‘۔ سیاسی بیان بازی کے گرو شیخ صاحب بیان دیتے ہوئے تیکھا تڑکا لگانا نہیں بھولتے۔ کہتے ہیں ''اقتدار کے بھوکے اتوار بازار سجا رہے ہیں، آپ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان جلسے سے جارہا ہے تو یہ خیال است محال است‘‘۔ لاہور میں مریم نواز کا نام لئے بغیر ہی جلسے سے متعلق حکمت عملی کا پوسٹ مارٹم کردیا کہ سیاستدان کال دیتا ہے، گلی گلی دعوت نامے بانٹ کر خوار نہیں ہوتا، یہ سیاستدان دو ماہ سے کوچے کوچے جاکر مہم چلا رہے ہیں، لیکن ان کی امیدیں بر نہیں آئیں گی، ''عمران خان کی کاپی کرنے والے مینار پاکستان کی سیاست سے نیچے جائیں گے‘‘۔ ایک زیرک سیاستدان کی طرح جہاں وہ اپوزیشن کو سٹک سے آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں وہیں کیرٹ پالیسی کے ذریعے انہیں مذاکرات کی راہ بھی دکھا رہے ہیں۔ واضح پیغام دیا کہ ''عمران خان سے بات نہیں ہوگی تو بتائیں آپ کس سے بات کرنا چاہتے ہیں؟ عمران خان سے بات نہیں کریں گے تو دل کے اندر کی بات باہر لائیں کس سے بات کرنا چاہتے ہیں‘‘؟
یہ بہت واضح ہے کہ جہاں شیخ رشید کیلئے اتنی بڑی اپوزیشن کو سنبھالنا انتہائی مشکل ٹاسک ہے‘ وہیں اپوزیشن کی11 جماعتوں کیلئے بھی نئے وزیر داخلہ سے نمٹنا آسان نہ ہوگا‘ کیونکہ ایک طرف بدعنوانی کے کیسز میں پھنسی اپوزیشن ہے تو دوسری جانب ریاستی طاقت اور اداروں کے بھرپور حمایت یافتہ وزیر داخلہ۔ بہرحال ایک بات تو طے ہے کہ سخت میچ پڑنے والا ہے۔ حکومت پہلے ہی عندیہ دے چکی ہے کہ اسے جلسوں پر کوئی اعتراض نہیں‘ لیکن جلسہ منتظمین اور سہولت کاروں سے کورونا پالیسی کی خلاف ورزی پر سختی سے نمٹا جائے گا۔ ڈی جے بٹ کی چھترول کے ذریعے باقیوں کو پیغام دیا جا چکا ہے‘ لیکن حکومت بھی یہ بات سمجھتی ہے کہ اگر سختی حد سے زیادہ بڑھی تو اس کا فائدہ اپوزیشن کو ہوگا۔ اپوزیشن کو عوامی ہمدردی حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اگر عوام کثیر تعداد میں اس تحریک میں شامل ہوگئے تو پھر گیم حکومت کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اس لئے نئے وزیر داخلہ سٹک اینڈ کیرٹ پالیسی لے کر میدان میں اترے ہیں‘ جس کا واضح مقصد اپوزیشن کو سڑکوں سے میز پر لے کر آنا ہے۔ اگر حکومت کسی بھی طرح ایسا کرلے تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہو گی۔
اس وقت حکومت اور اپوزیشن میں خلیج اتنی بڑھ چکی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ فریقین 180 ڈگری پوزیشن پر اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ دونوں طرف سے ایک ہی بات کی جارہی ہے کہ این آر او نہیں دیں گے۔ حالانکہ دونوں ہی ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ حالات جتنے بھی بد تر ہوں، جنگوں کے فیصلے بھی آخرکار میز پر ہی کرنا پڑتے ہیں۔ یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب فریقین اپنے اپنے موقف پر لچک دکھاتے ہیں۔ حالات جیسے بھی ہوں مذاکرات کے دروازے بند نہیں کئے جاتے۔ انا کے کھیل میں حد سے آگے جانے والے کسی ایک شخص یا جماعت کا نقصان نہیں بلکہ پورے ملک کا ہوتا ہے۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مذاکرات کی میز پر کیسے آئیں گی؟ اسٹیبلشمنٹ یہ رول ادا کر سکتی ہے کہ دونوں فریقین ایک ایک قدم پیچھے ہٹیں اور اپنے موقف میں لچک پیدا کریں۔ پی ڈی ایم کا اگلا مرحلہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہے۔ لانگ مارچ سے پہلے اور لانگ مارچ کے بعد سب سے بڑا مسئلہ امن وامان کا ہوگا۔ اگر پی ڈی ایم کی قیادت کو گرفتار کرلیا جاتا ہے تو بھی سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کا ہی ہوگا۔ ایسے میں اسٹیبلشمنٹ زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہ سکے گی۔ ماضی میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا تھا تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بروقت مداخلت سے جمہوری حکومت کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ 2014ء میں عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو اس وقت مذاکرات اسٹیبلشمنٹ نے ہی کیے تھے۔ فیض آباد میں تحریک لبیک کے دھرنے کے دوران بھی مذاکرات اسی نے کیے تھے۔ بادی النظر میں لگتا یہی ہے کہ اس بار بھی موجودہ جمہوری حکومت کو فوج کے ایسے ہی کردار کی ضرورت آن پڑی ہے۔ اس طرح لال حویلی کے وزیر داخلہ کی مشکل بھی آسان ہو جائے گی۔