تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     14-12-2020

مکالمہ کیسے ہو؟

یہ تو طے ہوا کہ کمزور سے کوئی مکالمہ نہیں کر تا۔
جب تک اپوزیشن نے اپنی قوت کا اظہار نہیں کیاتھا‘وہ تمسخر‘ ٹھٹھا‘ ایذا‘ توہین اورتذلیل کا نشانہ تھی۔پارلیمنٹ سے ٹی وی چینلز کے سٹوڈیوز تک‘ہر جگہ اس کی پگڑی اچھالی جاتی۔کوئی زبان کے تیر چلاتا تھا اور کوئی بوٹ لاکر میز پر رکھ دیتا تھا۔حکومت کے ساتھ مکالمے کے سب راستے بند دیکھ کر‘ اپوزیشن نے عوام سے براہ راست رابطے کا فیصلہ کیایا یوں کہیے کہ وہ اس پر مجبور ہوئی۔دکھوں کے مارے عوام اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔اب حکومت کو خیال ہوا کہ شہرِ سیاست میں ایک رواج ایسا بھی ہے جسے مکالمہ کہتے ہیں۔
اس نیت اوراس ذہن کے ساتھ ہونے والا مکالمہ کتنا نتیجہ خیز ہو سکتا ہے‘اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس کو مکالمہ نہیں‘ سیاسی چال کہتے ہیں۔یہ ایک مشکل گھڑی کو ٹالنے کی کوشش ہوتی ہے۔جیسے ہی حکومت دوبارہ طاقت کی جگہ پر آئے گی‘اپوزیشن کے ساتھ اس کا رویہ وہی ہوگا جو پہلے تھا۔اپوزیشن اس بات کو جان گئی ہے۔اس لیے اب وہ حکومت کو این آر او دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔مکالمہ ہونا چاہیے لیکن کسی اورکی میزبانی میں۔ مقتدرہ‘ حکومت اوراپوزیشن اب فریق ہیں۔ ان میں سے کوئی مکالمے کی میزبانی نہیں کرسکتا۔ اُس سیاسی نظم میں‘ جس کی بساط 2016ء میں بچھائی گئی اور جس پرجاری کھیل کا فیصلہ 2018ء میں ہوا‘ کسی فرد یا ادارے کی ساکھ باقی نہیں رہی‘ جس کی ریاست کیساتھ کوئی نسبت تھی۔ عاشقی میں عزتِ سادات رخصت ہوگئی۔
یہ تبدیلی‘ اس لحاظ سے بہت منفرد تھی کہ اس نے کسی کی ساکھ کو باقی نہیں رہنے دیا۔اربابِ حل وعقد نے اس ارادے سے گرد اڑائی کہ صرف مخالفین کا چہرہ خاک آلود ہو گا۔گردچھٹنا شروع ہوئی تو کوئی چہرہ پہچانانہیں گیا۔ہر کوئی نئی شناخت کے ساتھ نمودار ہوا۔اکثر کے لیے یہ شناخت ایسی تھی جو کسی طرح باعثِ عزت نہیں سمجھی جاتی۔ ایسی شناخت جس سے ہمارے بزرگ پناہ مانگا کرتے تھے۔
جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاالحق نے اس ریاست اور سماج کو جو نقصان پہنچایا‘اس کی تلافی آسان نہیں‘اس کے باوجود آج بھی بہت سے لوگ ہیں جو ان کا نام عزت کے ساتھ لیتے ہیں۔کوئی ایوب خان کے دور کے بڑے ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کرتاہے اور کوئی آج بھی جنرل ضیاالحق کو ایک ایسے تاریخ ساز کردار کے طور پرمانتا ہے جس نے دنیا کا نقشہ بدل ڈالا۔
جنرل مشرف نے ہماری ایک نئی تاریخ رقم کی۔سیاست میں ایک نئے کردار کا اضافہ ہوا۔آج اس ملک کا شاید ہی کوئی شہری ایساہو جو اُن کے لیے کلمۂ خیر کہتا ہو۔لبرل اور مذہبی‘دونوں مختلف اسباب سے‘ ان کی مذمت میں یک زبان ہیں۔2016ء میں‘تاریخ‘ مشرف دور سے جڑ گئی۔اس کے بعد نئے سیاسی نظام سے وابستہ ایسے فرد کی تلاش محال ہوگئی‘جس کے بارے میں کوئی کلمۂ خیر کہنے والا ہو۔ان کا معاملہ الگ ہے جن کے مفادات اس نظام سے وابستہ ہیں۔ہمارے ہاں ریاستی اور سماجی سطح پر سود و زیاں کا گوشوارہ بنانے کارواج نہیں‘ورنہ یہ جاننا کچھ ایسا مشکل نہ تھا۔
آج وہ سر خرو دکھائی دیتے ہیں جن کے چہرے پر سب سے زیادہ خاک ڈالی گئی۔اپوزیشن کے جلسوں کی رونق کیا بتارہی ہے؟یہی کہ لوگ پھر انہی سے امیدیں باندھ رہے ہیں جن کو عوام کے دل سے اتار نے کے لیے یہ مشقت اٹھائی گئی۔یہ کیسی بصیرت ہے کہ بہو کامان توڑنے کے لیے اپنا بیٹامار ڈالا۔بیٹاتو مر گیا مگر بہو کامان نہیں ٹوٹ سکا۔
جلسوں سے حکومتیں جاتی ہیں یا نہیں‘اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘اس میں شبہ نہیں کہ جلسے عوامی موڈ اور سیاسی منظر کو پڑھنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہیں۔ حکومت نے انہیں پڑھ کر ہی مکالمے کی بات کی ہے۔یہ پڑھ کر ہی خان صاحب نے چوہدری شجاعت کی عیادت کو ضروری سمجھا۔ میراخیال ہے کہ ان جلسوں میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جسے پڑھناچاہیے۔
کہتے ہیں کہ عقل مند آدمی دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کرتاہے۔احمق تجربات میں عمرضائع کردیتااورپھرسیکھتاہے۔اب عمرِ رائیگاں کاحاصل اُس کے کس کام کا؟آپ اس قوم کے بارے میں کیا کہیں گے جودونوں کام نہ کرے؟قوم میں سب شامل ہیں۔عوام کم‘خواص زیادہ۔ عوام کا ذکر تو برائے وزنِ بیت ہے۔
اگر جلسوں نے مکالمے تک بات پہنچادی ہے تو اب آگے بڑھنا چاہیے؟ پہلا سوال یہ ہے کہ اس کی میزبانی کون کرسکتاہے۔حکومت اگرچہ فریق ہے لیکن جمہوری نظام میں اس کی اس حیثیت کومانا جاتاہے کہ وہ اس طرح کے کسی مکالمے کی میزبانی کرے۔حکومت کواڑھائی سال ملے مگر وہ اس موقع سے فائدہ نہ اٹھاسکی۔اب تووہ اس کااستحقاق کھوچکی۔ لے دے کر نظر سول سوسائٹی کی طرف اٹھتی ہے۔
سول سوسائٹی اقتدار کی کشمکش میں فریق نہیں ہو تی۔ اس لیے وہ ثالث بن سکتی ہے اور سب کی میزبانی کرسکتی ہے۔ یہ کام سول سوسائٹی کا ایک طبقہ کر سکتا ہے جیسے سپریم کورٹ بار کو نسل یاسب طبقات کا نمائندہ فورم۔ اس کیلئے بار کونسل‘ میڈیا‘ ہیومن رائٹس کمیشن‘ علما‘ ادیب اور بعض سنجیدہ این جی اوز کے نمائندے شامل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ فورم مکالمے کیلئے ایک فورم بنائے اوراگر یہ کسی حل پر متفق ہو جائیں توسب اسکے فیصلے کو قبول کریں۔
یہ بات طے کر لی جائے کہ یہ فورم آئین کومیزان مانے گا اور کوئی ایسا حل تجویزنہیں کرے ‘آئین جس کی اجازت نہ دیتاہو۔آئین سے ماورا کوئی حل اس لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا کہ ہمارے تمام مسائل کاسبب ہی اس آئین کو نظر انداز کر نا ہے۔اگر ہم نے اب بھی نظریۂ ضرورت ہی کو قبول کرنا ہے توپھر اس نظام کے خلاف اٹھنے کی کیا حاجت؟پھر اپوزیشن کی یہ تحریک بے معنی ہوگی۔وقت کی ریت ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے۔جنوری سے پہلے‘جب اپوزیشن فیصلہ کن اقدام کا ارادہ رکھتی ہے‘اس مکالمے کا آغاز ہو جا نا چاہیے۔اپوزیشن ظاہر ہے کہ مکالمے کے لیے اپنی احتجاجی تحریک کو نہیں روکے گی۔وہ جانتی ہے کہ اس تحریک ہی نے حکومت کو مجبور کیا ہے کہ وہ اس کے وجود کو تسلیم کرے۔جیسے یہ تحریک کمزور پڑی‘استہزا اور تذلیل کی لہر تیز ہوجائے گی جو نظریۂ ضرورت کے تحت قدرے مدہم ہو گئی ہے۔
یہ سیاسی اورسماجی زوال کا آخری مرحلہ ہے کہ کوئی قوم مکالمے کے قابل بھی نہ رہے۔اس کے پاس کوئی ایک ادارہ یا شخصیت ایسی نہ ہو جس پر پوری قوم اعتماد کر سکے۔یہ معمولی حادثہ نہیں جو ہم پر ان تین سالوں میں گزر گیا۔صرف یہی ایک پہلو اس سیاسی نظام کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے جو2018 ء میں اس ملک پر مسلط کیا گیا۔ کسی کو احساس ہو تو اس کی راتوں کی نیند اڑ جائے۔
قوتوں کی تاریخ کا یہ عجیب پہلو ہے کہ زوال کے دنوں میں سب سے زیادہ گالیاں ناصح کو پڑتی ہیں۔لوگ دوست دشمن کی تمیز نہیں کر پاتے۔ہیجان میں مبتلا معاشروں میں یہی ہوتا ہے ا ور یہی ان کے مستقبل کافیصلہ کرتا ہے۔لوگوں کو ناصح کے اخلاص کا اندازہ ہوتا ہے مگر وقت گزرنے کے بعد۔ہم ایک وقت میں دہائی دیتے رہے کہ جہاد ریاست کے بغیر نہیں ہوتا۔جہاد کو اگر ریاست کی پابندی سے آزاد کر دیا گیا تو وہ فساد میں بدل جائے گا۔ جواب میں گالیاں اوردھمکیاں ملیں۔ صرف دھمکیاں نہیں‘ہم نے ڈاکٹر فاروق خان جیسے دوست اور قوم کے مخلص گنوا دیے۔ آج پھر وہی منظر ہے اوروہی گالیاں۔اب جہاد کی جگہ جمہوریت ہے۔اللہ نہ کرے کہ جو انجام جہاد کی تعبیرِ نو کا ہوا‘ وہ جمہوریت کا ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved