حزبِ اختلاف کی گیارہ جماعتوں کا اتحاد ابھی تک قائم نظر آتا ہے‘ اس میں کوئی واضح دراڑ نہیں پڑی؛ اگرچہ پسِ پردہ زور آزمائی کے اشارے ملتے ہیں۔ بہت کچھ کہا جا رہا ہے کہ آخر اس جمہوری اتحاد کے اہداف کیا ہیں؟ کون سے حربے استعمال کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟ اور کیا وہ حربے جمہوری نظام کو بچانے یا اسے تباہ کرنے پر منتج ہوں گے؟ اب اتنے جلسے ہو چکے‘ تقاریر پر تقاریر ہوئیں‘ اعلامیے بھی شائع ہوئے اور ان گنت پریس کانفرنسیں بھی حسبِ معمول موقع بہ موقع منعقد کی گئیں۔ سب باتیں کھل کر سامنے آ چکی ہیں۔ مقصد کپتان کی حکومت کو گرانا ہے۔ گرا نہ سکے تو اسے غیر مستحکم رکھنا ہے کیونکہ اگر قدم جم گئے تو ابھرتے ہوئے سیاسی وارثوں کی باریاں نہ لگ سکیں گی۔ ''جمہوریت خطرے میں ہے‘‘ کی داستان اتنی ہی لمبی ہے‘ جتنی پاکستان کی سیاسی تاریخ۔ کون سا دور ایسا ہے جس میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے جمہوریت کو بازیاب کرانے یا بحال کرانے کے لئے منتخب عوامی حکومتوں کے خلاف تحریک نہ چلائی ہو۔ کاوشیں جاری رہیں اور افراتفری پھیلانے کے معاملے میں کچھ کامیابیاں بھی ان کے حصے میں آئیں‘ مگر جمہوریت حالات کی لہروں کے تھپیڑوں کی زد میں رہی اور کھلے بادبان والے سمندری جہاز کی طرح آگے پیچھے‘ دائیں بائیں ہچکولے کھاتی رہی۔ جمہوریت ایسی کیفیت میں بھلا کیسے آگے بڑھ سکتی تھی؛ چنانچہ جمود کا شکار رہی۔ اس کو چلانے والوں میں سے دونوں فریق یا ان میں سے ایک اس بات پر اڑ جائے کہ حکومت یا حزبِ اختلاف کو چلنے نہیں دینا‘ تو کوئی بھی جمہوری نظام‘ اچھا یا برا‘ مستحکم نہیں ہو سکتا۔ نصف صدی سے سیاست پڑھ بھی رہا ہوں اور پڑھا بھی رہا ہوں‘ لیکن میرے سامنے کوئی ایسی مثال نہیں کہ غیر جمہوری طریقوں سے حکومتوں کو گرانے کے بعد جمہوریت بحال یا مضبوط ہو سکی ہو۔
یہ تو کل کی بات ہے کہ کیسے پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے ایک دوسرے کی جڑیں کاٹیں۔ یہ تصادم چار دہائیوں تک جاری رکھا اور ایک دوسرے کی حکومتوں کو جمہوریت کے نام پر گرانے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا۔ آمنے سامنے بیٹھنے اور بات چیت کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ ہر دفعہ عسکری قیادت کو معاملات طے کرانے کی درخواستیں کرتے رہے۔ ایئر مارشل اصغر خان کا ایک تاریخی فقرہ ذہن میں گونج رہا ہے ''ہم نے تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا‘‘۔ اب بھی وہی کھیل جاری ہے۔ ملک کی دو بڑی موروثی جماعتیں‘ جو ملکی اقتدار پر قابض رہیں‘ اب ایک بار پھر اکٹھی ہو چکی ہیں۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ ماضی میں سیاسی اتحاد کسی نظریاتی بنیاد پر نہیں بلکہ شخصی اور گروہی مفادات کے تقاضوں کے تحت بنتے رہے۔ موجودہ اتحاد میں بھی لسانی‘ قومی‘ مذہبی سب رنگ موجود ہیں۔ یہ لوگ تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجنے کی کئی تاریخیں دے چکے ہیں۔ اگلی تاریخ نئے سال کا نیا مہینہ ہے۔ ہم سب کے ذہنوں میں یہ سوال برابر اٹھ رہا ہے کہ آخر وہ جماعتیں اور سیاسی رہنما‘ جو ماضی میں ایسی حکومت گرائو تحریکوں کو ناکام ہوتے دیکھ چکے ہیں‘ اب کامیابی کے لئے کیا دلیل رکھتے ہیں۔
اس سوال کا جواب ہمیں دنیا بھر میں جمہوری تبدیلی کی مثالوں اور اپنی تاریخ میں ڈھونڈنا ہو گا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ہماری پارلیمان اور تمام صوبائی اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی‘ اور چار مرتبہ ایک سیاسی جماعت سے دوسری سیاسی جماعت کو پُر امن طریقے سے اقتدار منتقل ہوا۔ ق لیگ سے پاکستان پیپلز پارٹی کو۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ ن کو‘ اور گزشتہ انتخابات کے بعد نون لیگ سے تحریکِ انصاف کو۔ آئینی مدت پارلیمان اور اسمبلیوں کی ہوتی ہے‘ کسی وزیر اعظم کی نہیں۔ پارلیمانی نظام میں حکومت کے اقتدار میں رہنے کی شرط یہ ہے کہ ایوان میں اسے اکثریت حاصل رہے‘ جونہی کوئی حکومت اکثریت کی حمایت کھو بیٹھتی ہے‘ تو کوئی دوسری جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو تو اسے دعوت دی جاتی ہے۔ بصورتِ دیگر نئے انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اگرچہ گزشتہ چار اسمبلیوں کو مخالف جماعتوں کی تحریکوں کا سامنا رہا‘ پھر بھی وہ اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہیں۔ آخری پڑائو علامہ طاہرالقادری اور عمران خان نے بیک وقت پارلیمان کے باہر ڈالا اور وہیں پہ126 دن تک دھرنا دیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین اور اپنی نوعیت کا منفرد دو جماعتی اجتماع تھا۔ روزانہ شام کو یکے بعد دیگرے پُر جوش تقاریر ہوتیں۔ میڈیا کے سب چینل کپتان کی تقریریں عوام کو دکھاتے اور سناتے۔ اخباروں میں شہ سرخیاں لگتیں اور تمام سیاسی پروگراموں میں موضوع وہی رہتا جو آج کل زیرِ بحث ہے۔ خان صاحب اور علامہ صاحب اس بات پر زور دیتے کہ نواز شریف اقتدار کی کرسی چھوڑ دیں‘ اسمبلیاں توڑ دی جائیں اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔ ان دنوں عمران خان صاحب وہاں ہیں‘ جہاں نواز شریف صاحب تھے‘ اور نواز شریف اور زرداری صاحب مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں عمران خان کے دھرنے والا مکالمہ دہرائے جا رہے ہیں۔
طاہرالقادری صاحب تو اس سے قبل زرداری صاحب کی حکومت کے دوران بھی اسلام آباد پر لشکر کشی کر چکے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں اپنے مریدین‘ معتقدین اور پیروکاروں کو ہزاروں گاڑیوں میں لاد کر شاہراہِ قائدِ اعظم پر سخت سردی اور بارش کے موسم میں کئی ہفتوں تک بٹھائے رکھا۔ آہستہ آہستہ غبارے سے ہوا خارج ہوتی رہی اور پھر قادری صاحب ٹھس ہو گئے۔ تنگ آ کر شکایت کرنے لگے کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات کے لئے کوئی نہیں آیا۔ اپنی ساکھ بچانے کی فکر میں تھے۔ حکومت نے بھی موقع غنیمت جانا اور ایک وفد بھیج کر فوراً معاہدہ کر لیا۔ اس کے فوراً بعد قادری صاحب کے قافلوں کی بسیں قطار در قطار سڑکوں پر نظر آنے لگیں۔ دو دنوں میں سب رخصت ہو چکے تھے۔ اسی طرح ان کی دوسری لشکر کشی اور عمران خان صاحب کے دھرنے کے دوران نہ جانے حکومت کو رخصت کرنے کی کتنی تاریخیں دی گئیں۔ سب حربے استعمال ہوئے مگر پارلیمان نے اپنی مدت پوری کی۔ دھرنوں کے ذریعے حکومت کو رخصت کرنے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ اس وقت کی حکومت اور اس کی اتحادی پارٹیوں کا موقف درست تھا کہ حکومت کو گرانے کا عمل اگر آئینی طریقوں کو چھوڑ کر دھرنوں کے ذریعے کیا گیا تو کوئی بھی منتخب حکومت اقتدار میں نہیں رہ سکے گی۔ اب وہ سب جماعتیں حزبِ اختلاف میں ہیں اور میڈیا اور صحافی ان کی تقاریر اور بیانات بار بار دکھا رہے ہیں‘ مگر تضادات میں جنہوں نے زندگیاں برباد کی ہوں‘ انہیں اپنا کہا بھی جھوٹ کا پلندہ ہی نظر آتا ہے۔
'کیا ہو گا؟‘ اس بارے میں پیش گوئی کرنا نہ میرا پیشہ ہے‘ نہ ہی میں ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں‘ مگر وہ باتیں جو تب پارلیمان میں کی گئیں‘ مجھے سیاسی بصیرت اور تاریخی سچائی کے قریب معلوم ہوتی ہیں‘ یہ کہ جمہوری حکومتوں کے اقتدار کا فیصلہ ایوان میں ہونے کے بجائے لانگ مارچ سے اور لشکروں کے اسلام آباد میں پڑائو ڈالنے سے ہوا تو یہ استعداد سب کے پاس ہے اور کپتان کا تجربہ اس معاملے میں زیادہ اور وسیع ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم فخر کریں کہ تمام تر تنائو اور کشیدگی کے باوجود چار مرتبہ پُر امن انتقالِ اقتدار کی پختہ روایت پڑ چکی ہے‘ ہم اپنی اس کامیابی کو دائو پر لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ جب بھی یہ روایت افراتفری‘ خلفشار اور بد امنی کے تناظر میں ٹوٹی‘ اسے دوبارہ قائم کرنے میں دہائیاں لگ گئیں۔ ہوش مندی سے کام لینا ہو گا۔ موجودہ وبا اور اقتصادی صورت حال کے تناظر میں سیاسی جماعتوں اور حکومت کے مابین تصادم میں ملک‘ عوام اور خصوصاً غریب طبقہ بہت کچھ کھو بیٹھے گا‘ لیکن کیا کریں سیاست بازی جن کے لئے کھیل تماشا ہے‘ وہ ہماری باتوں پر کیوں کان دھریں گے؟