تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     14-12-2020

کورونا ویکسین: انتظارکم اور احتیاط زیادہ

جس طرح پاکستانی قوم ضرورت سے کچھ زیادہ ہی دلیر ہے اور اکثر اوقات اپنی اس خوبی کی وجہ سے شرمندگی بھی اٹھانا پڑتی ہے‘ اُسی طرح ہم لوگ سہل پسند بھی کچھ زیادہ ہی واقع ہوئے ہیں اور زمینی حقائق کومدنظر رکھے بغیر کسی بھی معاملے میں حقیقت سے زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں جو کبھی کبھار تو پوری ہو جاتی ہیں لیکن زیادہ تر عمر خوابوں کی تعبیر کے انتظار میں ہی بسر ہو جاتی ہے بلکہ کبھی کبھی تو زندگی کی گاڑی کو کسی گہری کھائی سے بچانے کیلئے ریورس گیئر بھی لگانا پڑ جاتا ہے۔ جو لوگ حالات کی سنگینی کو بھانپ لیتے ہیں اور بند گلی میں ٹکریں مارنے کے بجائے پیچھے مُڑ جاتے ہیں‘ وہ فائدے میں نہ سہی لیکن کم ازکم کسی بڑے نقصان سے ضرور بچ جاتے ہیں مگر جو آنکھیں بند کر کے خوابوں کی وادی میں محوِ سفر رہتے ہیں‘ اکثر اوقات جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ ملکی سیاسی قیادت اکثر و بیشتر قوم کو ہم آواز بنانے کے لئے بلند بانگ دعووں سے ایسے خواب دکھاتی ہے کہ عوام حقائق سامنے رکھنے کے بجائے ضرورت سے زائد توقعات وابستہ کر بیٹھتے ہیں جو ہماری ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ قریب ایک سال سے پوری دنیا کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے‘ کروڑوں لوگ اس وائرس کا نشانہ بن چکے ہیں اور لاکھوں دارِ فانی سے رخصت ہو چکے ہیں مگر اس عالمی وبا کی شدت کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی جا رہی ہے‘ جس کی بڑی وجہ ابھی تک اس جان لیوا وبا کا علاج یا اس سے بچائو کی ویکسین کا دستیاب نہ ہونا ہے۔ چین اور امریکا سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک اس کی ویکسین کی تیاری پر اپنے لامحدود وسائل خرچ کر رہے ہیں مگر ابھی تک یہ تجربات کے مراحل میں ہے اور کسی بھی ملک نے اپنے عوام کو ویکسین کی دستیابی کی حتمی تاریخ نہیں دی بلکہ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد ہی تاحال کورونا سے محفوظ رہنے کا واحد حل ہے۔
حکومت پاکستان بھی عوام کو مسلسل خبردار کر رہی ہے کہ سردی بڑھ رہی ہے اور ایسے موسم میں‘ جب زیادہ لوگ جمع ہوتے ہیں تو کورونا کے پھیلنے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں لیکن کھلی فضا میں‘ سماجی فاصلہ رکھنے سے اس کے پھیلنے کے خطرات کم ہوتے ہیں، بند جگہوں پر جراثیم تیزی سے پھیلتے ہیں۔ اس وقت پورے ملک کے بڑے ہسپتالوں میں 40 فیصد بستروں پر کورونا کے مریض آ چکے ہیں‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسی شرح سے اگر کورونا کے مریض بڑھتے گئے تو اس دوسری لہر میں ہمارے ہسپتال مکمل طور پر کورونا کے مریضوں سے بھر جائیں گے۔ امریکا‘ یورپ کو جس طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہے حالانکہ ان کے پاس وسائل بھی زیادہ ہیں‘ اگر وہاں پر ہسپتال بھرے ہونے سے تمام مریضوں کے علاج میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو ہمارے ہاں حالات کس حد تک جا سکتے ہیں‘ یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں، لہٰذا یہی وقت ہے کہ پوری قوم مل کر احتیاط کرے اور احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے۔
سب سے بڑی احتیاطی تدبیر یہ ہے کہ ماسک پہن کر رکھا جائے کیونکہ ماسک پہننے سے کورونا وائرس کے پھیلنے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ یہ بات حقیقت بھی ہے اور ہم اپنے اردگرد یہ سارے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیں مگر ہم ضرورت سے زیادہ دلیری (حقیقت میں لاشعوری) کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کی سنگینی کو سمجھنے کے بجائے حفاظتی تدابیر پر سو فیصد عمل پیرا نہیں ہیں اور اس وبا کو گلے لگانے کے ساتھ ساتھ تیزی سے آگے پھیلانے کا فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں۔ وزارتِ صحت نے کورونا ویکسین مارچ 2021 ء تک ملک میں لانے کا اعلان کیا ہے‘ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور ہمیں امید بھی ہے کہ ان شاء اللہ ایسا ہی ہو گا لیکن اس کے باوجود ہمیں اس ویکسین سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے کے بجائے عالمی ادارۂ صحت اور حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز پر عمل درآمد کرتے ہوئے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی کیونکہ اس وقت تک برطانیہ میں کووِڈ 19کی جس ویکسین کے تجربات شروع ہو چکے ہیں یا دنیا کے دیگر ممالک میں جو ویکسین تیاری کے مراحل میں ہیں‘ ان میں زیادہ تر ویکسینز محض اس بیماری سے بچائو کے لیے ہیں‘ جن کی کامیابی کی شرح ایک تو مختلف ممالک میں مختلف ہے‘ دوم؛ یہ سو فیصد گارنٹی نہیں دیتیں۔ جس طرح ہمارے ملک میں پولیو سمیت مختلف امراض سے بچائو کے لئے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں یا بچوں کو قطرے پلائے جاتے ہیں، اسی طرح کووڈ 19 کی ویکسین بھی جب پاکستان میں دستیاب ہو گی تو چونکہ یہ حفاظتی ویکسین ہو گی لہٰذا ہر شہری کی ویکسی نیشن لازمی ہو گی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق کورونا ویکسین کی خریداری کے لئے کسی ایک ذریعے پر اتفاق کرنے کے بجائے مختلف ممالک سے ویکسین کی خریداری کے لیے رابطے کئے جا رہے ہیں۔ یہ یقینا بہتر سٹریٹیجی ہے؛ تاہم دوا کی خریداری کے لیے یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ سب سے زیادہ سودمند ویکسین کون سی ہے، ویکسین کی قیمت، دستیابی، نتائج اور مضر اثرات سمیت ہر پہلو مدنظر رکھنا ہو گا اور یقینا ہمارے ماہرین اور اربابِ اختیار ان ساری باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہی ویکسین کی خریداری کا آرڈر دیں گے۔پاکستان نے کورونا وائرس کی پہلی لہر پر کامیابی سے قابو پا کر کووڈ19 کی ویکسین سے استفادہ کرنے کی شرائط پوری کر لی ہیں‘ جس کی بدولت جلد از جلد یہ ویکسین دستیاب ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ پاکستان نے ویکسین حاصل کرنے کی درخواست سے متعلق تمام شرائط بھی مکمل کر لی ہیں چنانچہ امید ہے کہ پاکستان ان اولین ممالک میں شامل ہو گا جو اس ویکسین سے استفادہ کر سکیں گے۔
وزارتِ صحت نے اعلان کیا ہے کہ کورونا ویکسی نیشن مہم 3 مراحل میں چلائی جائے گی اور یہ ویکسین ای پی آئی پروگرام کی طرز پر ہی فراہم کی جائے گی۔ کووڈ19 کا سامنا کرنے والے صف اول کے ہیلتھ ورکرز کا تحفظ اولین ترجیح ہے‘ جو بزرگ افراد کی دیکھ بھال کے اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے ہماری طاقت بنیں گے جبکہ بزرگ افراد کو اس اقدام سے کورونا سے جڑی اموات اور امراض کے پھیلائو کے روک تھام میں مدد ملے گی۔ پہلے مرحلے میں طبی عملے کو جبکہ دوسرے مرحلے میں 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین لگائی جائے گی۔ وزارتِ صحت کی یہ پالیسی ظاہر کرتی ہے کہ جو ویکسین آ رہی ہے‘ وہ حفاظتی ویکسین ہے یعنی وبا سے بچائو کے لئے ہر بندے کو ویکسین لگائی جائے گی تاکہ انسانی جسم میں کورونا وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت بڑھائی جا سکے اور اگر یہ وائرس حملہ کرے بھی تو اس کا اثر زائل ہو جائے یا یہ حملہ اتنا کمزور ہو کہ انسان کو معمولی بیمار ہی کر پائے۔
جیسے حکومت نے واضح کیا ہے کہ یہ ویکسین بھی ای پی آئی پروگرام کی طرز پر فراہم کی جائے گی اور یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ یہ حفاظتی ویکسین ہو گی جو ہر بندے کو دینا پڑے گی۔ اگر ہم پولیو ویکسین کاجائزہ لیں تو ہمارے ملک میں دو اقسام کی پولیو ویکسین چل رہی ہیں۔ ایک اورل پولیو ویکسین (او پی وی) ہے جو قطروں کی شکل میں بچوں کو پلائی جاتی ہے اور دوسری انجیکٹ ایبل ویکسین (آئی پی وی) ہے جو حفاظتی ٹیکوں کی صورت میں لگائی جاتی ہے۔ ان دونوں اقسام کی ویکسی نیشن سے پولیو وائرس کا خطرہ کم ہو جاتا ہے اور پھر پولیو متاثرہ افراد کو فالج زدہ نہیں کر سکتا۔ برطانیہ میں جس کورونا ویکسین کا تجربہ شروع کیا گیا ہے وہ انجیکٹ ایبل ہے‘ یعنی انجکشن کی صورت میں لوگوں کو دی جا رہی ہے اور اس کا تجربہ بھی سب سے پہلے نوے سالہ بزرگ خاتون پرکیا گیا ہے کیونکہ کورونا وائرس بزرگوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ اس ویکسین کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہے کہ پاکستان میں آنے والی ویکسین بھی انجیکٹ ایبل (آئی سی وی) ہو گی جو بیماری کے بعد علاج کیلئے نہیں بلکہ پہلے‘ وبا سے بچائو کیلئے ہر شہری کو دی جائے گی۔ لہٰذا ہمیں ویکسین آنے کے بعد بھی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہو گا کیونکہ ماہرین کے مطابق ویکسی نیشن کے بعد بھی وائرس حملہ آور ہو سکتا ہے البتہ اس کا اثر کمزور ہو گا جبکہ ابھی ویکسین کے آنے اور تمام شہریوں کو ویکسین لگانے کے عمل میں ایک سال کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ اس لئے ہمیں ویکسین کا انتظار ضرور کرنا چاہئے لیکن احتیاطی تدابیر پر مسلسل عمل پیرا رہنا بھی ضروری ہے اور سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ کورونا ویکسین کو متنازع نہیں بننے دینا کیونکہ بعض حلقوں نے پہلے پولیو ویکسین کومتنازع بنا دیا تھا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved