تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     14-12-2020

پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟

مسلم دنیا بالخصوص عربوں کو تقدیر کی گردشوں نے اسے دو راہے پہ لا کھڑا کیا‘جہاں ایک طرف فلسطینی مسلمانوں کی مظلومیت ان کے تعاقب میں ہے اور دوسری جانب اُن مطلق العنان حکومتوں کی بقا کے تقاضوں نے انہیں آ گھیراجنہیں وقت کی بے رحم لہروں نے اب متروک بنا ڈالا ہے۔ قوم پرستی کی بنیاد پہ استوار ہونے والی مڈل ایسٹ ریاستیں معاشی و سیاسی اعتبار سے فنا و بقا کے خط ِامتیاز پہ آن پہنچی ہیں‘جہاں حالات کا صرف ایک جھونکا انہیں اُفق کے اس پار دھکیل دے گا‘گویا ایک پیچیدہ اور تغیر پذیر سیاسی عمل نے لسانی عصبیتوں کی کشش اور خاندانی غلبے کو کمزور کر کے انہیں مٹ جانے کے خوف سے دوچار کر رکھا ہے۔ یہ سچ ہے کہ طاقت اپنی غیرذمہ داری اور احساس کی شدت کے مطابق لوگوں کو خراب کرتی ہے‘عرب دنیا کے مطلق العنان حکمرانوں کی روح بھی عہدِ جدید کی آسائشوں میں ڈوب کر گرمیٔ حیات کی تڑپ اور زندگی کی اُس کشمکش سے دور ہوتی گئی جو بقائے دوام (Survival of the fittest) کا فطری محرک بنتی ہے۔ 
پچھلے پچاس سالوں کے دوران مغرب کی استعماری قوتوں کی ڈیزائن کردہ مصر‘لبنان‘ ایران‘عراق اور شام کی مہیب جنگوں نے تیل کی دولت سے مالا مال ان مملکتوں کے معاشی وسائل نگل لینے کے ساتھ وہاں کے نیم قبائلی معاشروں کو بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار بنا ڈالا۔ دوسری جانب انہی بے سود جنگوں کی راکھ سے ابھرنے والے فکری و سیاسی انتشارنے اُن عالمی مہمات کو جواز فراہم کیا جو ان مملکتوں کی حاکمیت اعلیٰ کو نگل رہی ہیں۔ حالات کے اسی جبر نے رفتہ رفتہ ان تمام مملکتوں کو اپنے دفاع کا انحصار اُس امریکی مقتدرہ پہ بڑھانے پہ مجبور کر دیا جو گزشتہ چالیس سالوں سے انگلی پکڑ کر انہیں باہمی جنگوں کے جہنم میں چہل قدمی کرنا سکھاتی رہی۔ پچھلی چار دہائیوں سے یہ خطہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ڈیزائن کردہ بے مقصد جنگوں کی آگ میں سلگتا چلا آ رہا ہے۔ 1980ء میں امریکی ایما پہ شروع کی گئی ایران عراق جنگ دونوں ملکوں کے معاشی اور دفاعی ڈھانچے کے انہدام کے علاوہ عربوں اور ایرانیوں کے درمیان کبھی نہ ختم ہونے والی مستقل آویزش کی بنیاد رکھ گئی‘ جبکہ1991ء کی پہلی عراق‘کویت جنگ کے ساتھ ہی بلاد ِعرب ایسی کثیرالجہت شورش کی لپیٹ میں آ گیا جس نے سماج اور ریاست دونوں کو کمزورکر دیا۔ بدقسمتی سے عرب معاشروں کی کوکھ سے مطلق العنانی کا مقابلہ کرنے والی جس زرخیز بدنظمی نے جنم لیا اسے ریگولیٹ کرنے کی فکر کی گئی نہ سیاسی انحطاط کے مظاہر سے نمٹنے کی کوشش۔ اب بلادِ عرب میں نہ صرف عوام اور ریاستوں کے مابین باہمی اعتماد کے رشتوں میں گہری دراڑیں پڑ چکی ہیں بلکہ ان سلطنتوں کیلئے امتِ مسلمہ کے سیاسی تصور کی طرف رجوع کرنے کی راہیں بھی مسدود ہو گئی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں برپا ان بے مقصد جنگوں کی راکھ سے فکری نعروں سے مزین ایسی پُرتشدد تحریکوں نے جنم لیا جو مسلم دنیا کے لئے خطرہ بنتی چلی گئیں؛ چنانچہ القاعدہ‘ جبتہ النصرہ‘داعش اور بوکوحرام جیسی مسلح تحریکوں کی سرکوبی کو جواز بنا کے مغربی طاقتوں نے ان مملکتوں کی رہی سہی قوت کو بھی تحلیل کر دیا۔ بالخصوص خلیج کی خوشحال ریاستوں کی حربی و سیاسی طاقت کی تسخیر اور دنیا بھر میں پھیلے ان کے تاریخی اور نظریاتی رشتوں کو منقطع کرنے کے بعد امریکا نے مڈل ایسٹ سے اپنے قدم باہر نکال کر پوری عرب دنیا کو اسرائیل کے حوالے کر دیا۔ اب مشرقِ وسطیٰ سے بتدریج امریکی انخلا کے ساتھ اگلے چند سالوں میں اسرائیل اس خطے پر اپنی گرفت مضبوط بنا لے گا۔ مڈل ایسٹ کے جن ممالک میں پہلے امریکی دفاعی اڈے اور فورسز متعین ہوا کرتی تھیں‘ وہیں اب صہیونی فوجیں اور اسرائیلی ٹیکنالوجی کی تنصیب ممکن بنائی جا رہی ہے۔ اسی پیش دستی سے گھبرا کر ایرانی حکومت یو اے ای کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکیوں پر اتر آئی‘ کیونکہ یو اے ای میں اسرائیلی دفاعی ٹیکنالوجی پہنچانے کا اصل مقصد امارات کا دفاع نہیں بلکہ کشیدگی بڑھا کر ایران اور عربوں کے درمیان نئی جنگیں شروع کرنا ہے تاکہ باہمی جنگوں کے ٹریپ میں الجھنے کے بعد تمام عرب ریاستیں یکے بعد دیگرے پکے ہوئے پھل کی طرح اسرائیل کی جھولی میں گرتی چلی جائیں۔ بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ اگلے دو تین سالوں میں اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کی ان ریاستوں پر اپنی بالادستی مکمل کر لے گا۔ 
عالمی اسٹیبلشمنٹ براہ راست مسلمانوں کے زندہ و فعال معاشروں کا سامنا کرنے کی جسارت نہیں کرتی‘وہ ہمیں عوامی حمایت سے محروم ایسی آمریتوں کے ذریعے کنٹرول کرتے ہیں جنہیںManage کرنا ان کیلئے آسان ہوتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر مڈل ایسٹ پر اسرائیلی تسلط کے معاملے میں عالمی افق پر نمودار ہونے والی نئی پولرائزیشن بھی بالکل نیوٹرل دکھائی دیتی ہے‘مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی پیش قدمی ایک ایسی وسیع سکیم کا حصہ نظر آتی ہے جسے عملی جامہ پہنانے سے قبل پوری عالمی برادری کو اعتماد میں لیا گیا ہو گا۔ امریکا اور یورپ کی ساری مملکتیں تو کھل کر اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں لیکن ان کے مدمقابل ابھرتے ہوئے چین اور روس نے مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی پیش قدمی سے خود کو لاتعلق کر رکھا ہے شام و عراق کی جنگوں میں ایران کو اسلحہ بیچنے والی روسی حکومت بھی مشرق وسطیٰ میں صہیونی بالادستی کی سہولت کاری میں مشغول نظر آتی ہے‘حتیٰ کہ ایران اور ترکی‘دونوں ملک‘اگرچہ مڈل ایسٹ میں اسرائیلی بالادستی کے خلاف مزاحمت کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں لیکن علاقائی تنازعات کی تلخیاں دونوں کو باہم مل کر دشمن کا مقابلہ کرنے سے روک رہی ہیں۔ 
مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی قوت کا اعزاز پانے والے پاکستان کی پوزیشن بے یقینی کی تاریکیوں میں ہچکولے کھانے والے کاروان جیسی ہے‘جس کی کوئی واضح مڈل ایسٹ پالیسی نہیں۔ شاید ہمیں داخلی سیاسی تنازعات کی شدت اور معاشی بدحالی نے دنیائے عرب پر اسرائیلی برتری کو مسترد کرنے کی جسارت سے محروم کر دیا ہے۔ اب تو ہمارے لئے عرب‘ایران اور ترکی کے درمیان تعلقات میں توازن قائم رکھنا بھی دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ ماضی میں عربوں اور ایران کے درمیان جتنی بھی کشیدگی رہی‘ پاکستان نے اپنی بہترین سفارتکاری کے ذریعے دونوں کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھا‘ لیکن اس وقت ہماری سفارت کاری مقاصد کے حصول میں کامیاب دکھائی نہیں دیتی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف عالمی برادری ہم پہ اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے دبائو بڑھا رہی ہے‘ دوسری جانب ملک کے اندر بڑھتے ہوئے معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام نے فیصلہ سازی کی ریاستی قوت کو محدودکر دیا ہے۔ عملاً ہم ایران کے ایٹمی سائنسدان کے قتل کی بھرپور مذمت کر سکے نہ عرب دنیا کے اسرائیل کی جانب جھکاؤ کی وضاحت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ہماری قومی اقتصادیات کا گراف اسی رفتار سے نیچے کی طرف گرتا رہا تو ہم آزادانہ داخلی و خارجی پالیسیوں کی تشکیل کے قابل نہیں رہیں گے۔ امریکا میں رجیم چینج سے مڈل ایسٹ میں بالخصوص اور جنوبی ایشیا میں بالعموم جس قسم کی تبدیلیوں کی توقع کی جا رہی تھی تازہ ڈویلپمنٹ نے اسے بھی مشتبہ بنا دیا۔ نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی پہلی تقریر میں ایران کے ساتھ 2015ء کے ایٹمی معاہدے کی تجدید کا عندیہ دیا تو نادیدہ قوتوں نے ایران کے ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کا قتل کرا کے جوبائیڈن کے ارادوں کو متزلزل کر دیا۔ اس سے قبل جب سابق صدر بل کلنٹن نے مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے دو ریاستی فارمولا پر عملدرآمد کی بات کی تو وائٹ ہاؤس کو مونیکا سکینڈل نے گھیر لیا۔ اسی صدر جارج ڈبلیوبش نے فلسطینیوں کے مصائب کو سمجھنے کی ٹھانی تو نائن الیون ہو گیا‘جس نے عالمی سیاست کے پورے تناظر کو بدل ڈالا۔ پھراسی نائن الیون کی کوکھ سے جنم لینے والی جنگ مڈل ایسٹ کی حکومتوں کو مضمحل کرکے ان سے اسرائیلی بالادستی تسلیم کرانے پہ منتج ہوئی۔ اس لئے اغلب امکان یہی ہے کہ صہیونی لابی امریکا سمیت مشرق و مغرب کی عالمی طاقتوں کو بہ آسانی مینج کر لے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved