تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     15-12-2020

جیہڑا بولے‘ اوہو کنڈا کھولے

پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ ''جیہڑا بولے‘ اوہو کنڈا کھولے‘‘ یعنی جو شخص کسی بات کا مشورہ دے یا اعتراض کرے پھر وہی شخص اس کام کی تکمیل یا درستی کرے۔ یہ کہاوت مجھے حکومت کی ایل این جی کی خرید میں تاخیر پر کی جانے والی تنقید اور حکومتی نااہلی اور نالائقی پر آواز اٹھانے کے نتیجے میں سارا ملبہ میڈیا پر ڈالنے سے یاد آئی ہے۔ سردیوں میں گیس کی کھپت بڑھنے کے نتیجے میں گیس کا شارٹ فال‘ جو پہلے ہی بہت زیادہ ہے‘ مزید بڑھ جاتا ہے اور اب اس سپلائی اور ڈیمانڈ کے فرق کو ایل این جی درآمد کر کے پورا کرنے کی تگ و دو کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں بروقت خریداری بہت ہی بنیادی چیز ہے اور موجودہ حکومت اس بنیادی نکتے کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا پر بروقت انتباہی پروگرام بھی ہوئے اور حکومت کو آگاہ بھی کیا گیا مگر حسبِ سابق نالائق مشیروں نے ان پروگرامز اور کالموں کو مثبت طور پر لینے کے بجائے اسے اپنے خلاف پروپیگنڈا قرار دیا اور بجائے بروقت خریداری کرنے کے نقادوں کو رگیدنا شروع کر دیا۔ بھلا مسائل اس طرح حل تھوڑی ہوتے ہیں؟ لہٰذا وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ جنوری کی بیس تاریخ کے لگ بھگ تک ملک میں ایل این جی کی شدید کمی ہوگی اور واحد وجہ یہ ہے کہ حکومت نے خریداری کا عمل مکمل کرنے میں بدترین کوتاہی دکھاتے ہوئے عالمی سطح پر ٹینڈر کرنے میں مجرمانہ حد تک تاخیر کی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے سے موجود بحران مزید شدید تر ہو جائے گا۔
بجائے اس کے کہ ذمہ داران اور بریف کیس والے مشیران اپنی نالائقی اور نااہلی کا اعتراف کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگتے کہ بروقت قدم نہ اٹھانے کے نتیجے میں جہاں ملک میں گیس کا بحران شدید تر ہو گا بلکہ اس افراتفری والی خرید پر اربوں روپے کا زائد زرمبادلہ بھی صرف ہوگا‘بلکہ ہوگا بھی کیاہو چکا ہے۔ دسمبر میں درآمد ہونے والی ایل این جی پر اسی غلط منصوبہ بندی کے باعث اربوں روپے کا ٹیکہ لگ چکا ہے اور ابھی آگے آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ حکومت نے اپنی ہر نالائقی‘ نااہلی‘ بدانتظامی اور بدمعاملگی پر اپنا قصور تسلیم نہ کرنے کی شاید قسم کھا رکھی ہے اور اس روایت کو قائم رکھتے ہوئے اس مرتبہ بھی سارا ملبہ کسی اور پر پھینک دیا ہے۔ اس بار میڈیا اس بنیاد پر ان کی نالائقی کا نشانہ بنا ہے کہ اس کی تنقید کے باعث ایل این جی کے سپلائرز ڈر گئے تھے اور اسی وجہ سے ملک میں گیس کا بحران پیدا ہونے جا رہا ہے۔ سپلائرز کے ڈرنے کی بات میں تو تب جان ہوتی اگر حکومت نے بروقت ٹینڈرکر دیئے ہوتے اور سپلائرز اس میں ڈر کے مارے حصہ نہ لیتے جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ایل این جی کی خریداری کیلئے عالمی ٹینڈرز دینے میں ہی اتنی تاخیر کی گئی کہ اس مسئلے پر حکومتی لاعلمی اور نااہلی پر حیرت ہوتی ہے۔
میرے امریکہ سے ایک قاری کئی بار یہ شکوہ کرچکے ہیں کہ ہم کالم نگار (خاص طور پر وہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں) صرف تنقید کرتے ہیں‘ معاملے کو اچھالتے ہیں اور اس کا کوئی حل نہیں دیتے۔ وہ اس بات پر بہت شاکی اور ناراض رہتے ہیں کہ کالم نگار کو ہر معاملے میں صرف خرابی بتا کر اپنی جان نہیں چھڑوانی چاہیے بلکہ اس خرابی کا حل بھی پیش کرنا چاہئے۔میرا خیال ہے کہ جب ہم کسی خرابی پر قلم اٹھاتے ہیں‘ کسی معاملے میں گڑ بڑ کی نشاندہی کرتے ہیں اور نالائقیوں پر تنقید کرتے ہیں تو ہم اپنی ذمہ داری پوری کر دیتے ہیں کہ ہمارا صرف اتنا ہی کام ہے۔ اگر میری بس کا ڈرائیور لاپروائی سے گاڑی چلا رہا ہے‘ مقررہ رفتار سے تیز بس چلا رہا ہے یا خطرناک ڈرائیونگ کر رہا ہے تو میرا کام اسے لاپروائی سے ڈرائیونگ کرنے کی نشاندہی کرنا ہے‘ اسے تیز رفتاری سے روکنا ہے اور خطرناک ڈرائیونگ سے منع کرنا ہے۔ اسے ڈرائیونگ سیٹ سے ہٹا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنا اور بس ڈرائیو کرنا میرا کام نہیں اور مجھ سے اس کی توقع کرنا بھی زیادتی ہے کہ یہ کام میرے دائرہ کار اور دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ ڈرائیونگ کرنا اسی کا کام ہے جسے یہ سونپا گیا ہے‘ جسے سرکار نے ڈرائیونگ لائسنس جاری کیا ہے اور جس کے پاس بس چلانے کا اختیار ہے۔ تاہم اب یہ نہیں ہو سکتا کہ میں غلط ڈرائیونگ دیکھوں اور خاموش رہوں۔ مجھے اس کو یہ بتانا چاہئے کہ وہ مسافروں کی جان کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور اس کی لاپروائی کسی حادثے کا موجب بن سکتی ہے۔ ہاں ! اگر میں اپنی یہ والی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو یہ زیادتی ہوگی۔
میں نے ایک بار میاں شہبازشریف کی ملتان آمد پر ٹریفک کوگھنٹوں روکنے ا ور ان کے کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کے دورے کے دوران مریضوں کے لواحقین کا دل کے ہسپتال میں داخلہ بند کرنے کے ساتھ ساتھ ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کو روکنے کے واقعات پر ایک عدد کالم لکھ دیا۔ اس پر میاں شہباز شریف نے ضلعی انتظامیہ کی خوب طبیعت صاف کی اور ڈانٹ ڈپٹ کی۔ اس کالم کے چند روز بعد میں ایک دوست کے بیٹے کے ولیمے میں شرکت کیلئے شادی ہال میں داخل ہوا تو ایک سول کپڑوں میں ملبوس صاحب مجھ سے ملے اور کہنے لگے: آپ نے تو مجھے معطل کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ آپ کون صاحب ہیں اور میں نے آپ کے ساتھ کیا کیا ہے؟ ان صاحب نے بتایا کہ وہ ملتان پولیس کے مدارالمہام ہیں اور کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ والے میرے کالم کے نتیجے میں میاں شہباز شریف کے عتاب کا نشانہ بنے تھے اور اس کالم میں کی جانے والی نشاندہی پر ٹرانسفر ہونے لگے تھے۔ پھر وہ بڑے طنزیہ انداز میں کہنے لگے: آپ لوگ تنقید کرتے ہیں اس کا کوئی حل بھی بتایا کریں۔میں نے ان سے زیادہ طنزیہ انداز میں ان کو مخاطب کیا کہ آپ مجھے پہلے ملتان ڈویژن کی پولیس کا سربراہ لگوائیں‘ لاکھوں روپے تنخواہ ادا کریں‘ سرکاری گھر دلوائیں‘ لامحدود پٹرول کی سہولت والی سرکاری گاڑیاں دیں‘ ایک عدد حفاظتی گارڈ عطا کریں‘ دو چار خانسامے دیں‘گھر کیلئے دس بارہ نوکر دیں‘لمبا چوڑا ٹی اے ڈی اے دیں۔ پھر آخر میں پنشن کی سہولت مرحمت فرمائیں اور تب جا کر مجھ سے اس مسئلے کا حل دریافت کریں۔ وہ حیرانی سے پوچھنے لگے: یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا: آپ کو یہ سب مراعات انہی کاموں کیلئے دی جاتی ہیں جو آپ مفت میں مجھ سے طلب کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: آفیسر صاحب! اگر آپ پنکچر گاڑی چلا رہے ہیں اور میں آپ کو روک کر بتاؤں کہ آپ کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہے اور آپ فلیٹ ٹائر کے ساتھ اسے چلا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ آپ گاڑی روکیں اور مجھے کہیں کہ کیونکہ آپ نے مجھے بتایا ہے کہ ٹائر پنکچر ہے‘لہٰذا اب آپ میری گاڑی کا فالتو ٹائر نکالیں‘ جیک لگائیں‘ نٹ کھولیں‘ ٹائر اتاریں اور تبدیل کریں کہ اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کیونکہ نشاندہی آپ نے کی تھی یعنی ''جیہڑا بولے‘ اوہو کنڈا کھولے‘‘۔ پویس افسر صاحب منہ کھولے کھڑے تھے اور میں نے باقی دوستوں سے ملنا شروع کر دیا۔
میڈیا کا بنیادی کام نشاندہی کرنا ہے (اگر حل بتا سکیں تو مستحسن ہے‘ تاہم اسے میڈیا کی ذمہ داری نہ سمجھا جائے) تاہم خرابیوں کو درست کرنا انہی کا کام ہے جو اس کام کیلئے منتخب کیے گئے ہیں‘ اس پر مامور ہیں اور اس کے عوض معاوضہ لے رہے ہیں۔ صحافی اگر اپنا کام پورا نہ کرے تووہ خائن ہے اور اگر حکومتی افسر‘ وزیر اور مشیر اپنا کام نہ کریں تو اس کے ذمہ دار وہ ہیں نہ کہ نشاندہی کرنے والا۔ اگر یہ کام بھی میڈیا نے ہی کرنا ہے تو پھر کیا یہ لائق فائق درآمد شدہ بریف کیس مارکہ مشیر صرف اپنی جیب گرم کرنے کیلئے ا سلام آباد میں بیٹھے ہوئے ہیں؟ جن کا کام بولنا اور لکھنا ہے وہ اپنا کام کریں گے اور جنہوں نے ''کنڈا کھولنا ہے‘‘ ہے وہ کنڈا خود کھولیں اور دوسروں پر ملبہ نہ ڈالیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved