تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     15-12-2020

سقوطِ مشرقی پاکستان: صرف 6 برس میں کیا ہو گیا

میں اپنی ینگ جنریشن کو یاد دلا دوں کہ 1971ء سے پہلے مشرقی اور مغربی پاکستان یک جان دو قالب تھے‘ ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے‘ باہمی شکوے شکایت ہوتے رہتے تھے مگر جدائی کی باتیں تقریباً مفقود تھیں۔ میرے والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن ہونے کے علاوہ جمعیت اتحادالعلماء پاکستان کے ناظم اعلیٰ بھی تھے۔ وہ 1964ء کے اواخر میں اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی پاکستان مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہدایت پر اُن کے ہمراہ مشرقی پاکستان کے دورے پر تشریف لے گئے۔ مشرقی پاکستان میں دینی مدارس بہت بہتات میں تھے۔ اُن میں سے ایک بڑی تعداد جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کو پسند کرتی تھی تاہم ہدف یہ تھا کہ نفاذِ اسلام کی خاطر وہاں کے تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام کو اتحاد کی لڑی میں پرو دیا جائے۔ صدر ایوب خان اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے 2 جنوری 1965ء کے الیکشن سے صرف چند ہفتے قبل مولانا مودودی محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں اُن کی انتخابی مہم کیلئے مشرقی پاکستان تشریف لے گئے تھے۔ اُن دنوں وہاں کیا فضا تھی اور لوگوں کی سوچ کا دھارا کس رُخ پر بہہ رہا تھا؟ اس کی چند جھلکیاں والد محترم مولانا مظاہری کی ڈائری میں ملاحظہ کیجئے۔
27 نومبر 1964ء :
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی معیت میں مشرقی پاکستان کے دورے کا پروگرام ہے۔ آج اڑھائی بجے دوپہر لاہور سے ہماری پرواز اُڑی۔ ہمارا جہاز 38 ہزار فٹ کی بلندی پر بادلوں سے بھی اوپر پرواز کرتا ہوا جب مشرقی پاکستان میں داخل ہوا تو نیچے دریا اور سبزہ دلکش منظر پیش کر رہے تھے۔ ہم ساڑھے چار بجے شام ڈھاکہ پہنچ گئے۔ یہاں اس وقت ساڑھے پانچ ہیں اور شام ہوچکی ہے۔ ایئرپورٹ پر ہزاروں افراد مولانا کے استقبال کیلئے جمع ہیں۔ ہوائی اڈے کی عمارت کی چھتیں بھی عوام سے بھری ہوئی ہیں۔ فلک شگاف نعرے لگ رہے ہیں۔ یہاں اہل مشرقی پاکستان نے مولانا مودودی اور مغربی پاکستان کیلئے دیدہ و دل فرشِ راہ کر دیئے ہیں۔
باہمی الفت و محبت کی کچھ اور جھلکیاں بھی ملاحظہ کیجئے۔
28 نومبر 1964ئ:
آج 4 بجے سہ پہر انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل ڈھاکہ میں مولانا مودودی کے اعزاز میں عصرانہ تھا۔ یہاں مولانا محترم اور ممتاز ایڈووکیٹ اے کے بروہی نے خطاب کیا۔ مولانانے اپنے خطاب میں فرمایا کہ حکومت نے جماعت پر پابندی کا تیر اندھیرے میں میں چلایا تھا اور بالآخر حکومت کا یہ چوروں والا اقدام ناکام ہوگیا۔ اے کے بروہی صاحب نے بھی بہت اچھی تقریر کی۔
29 نومبر 1964ئ:
آج ڈھاکہ کا جلسۂ عام تھا۔ میں مقامی ذمہ داران کے ہمراہ جلسہ کے انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے دوپہر پلٹن میدان پہنچا۔ ٹھیک چار بجے وقت مقررہ پر جلسہ کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ حاضری ہزاروں میں تھی۔ پہلے چند منٹ میرا خطاب ہوا۔ مولانا محترم کی تقریر بڑی خاموشی اور سنجیدگی سے سنی گئی۔ مولانا پندرہ منٹ اردو میں تقریر کرتے تھے پھر پروفیسر غلام اعظم صاحب بنگلہ میں ترجمہ کرتے تھے۔
اگلے کئی روز تک مشرقی پاکستان میں مولانا مودودیؒ کے جلسے جاری رہے۔ وہ کاکس بازار گئے جہاں نظام اسلام پارٹی کے مولوی فرید احمد بھی اُن سے آن ملے۔ یہاں بھی کم و بیش 40 ہزار کا مجمع تھا جو اسلام اور پاکستان کیلئے ولولہ انگیز نعرے بلند کر رہے تھے۔ مشرقی پاکستان کے بھائیوں نے اُن جگہوں پر بھی مولانا مودودی کو روک کر چند منٹ کا خطاب کرنے کی درخواست کی جن مقامات پر خطاب کا کوئی پروگرام نہ تھا۔ پھر 6 برس کے مختصر عرصے میں مشرقی پاکستان کا سارا منظرنامہ کیسے بدل گیا؟ ایک عینی شاہد جناب شاہد شمسی نے مجھے آج ہی اسلام آباد سے اس خوفناک صورتحال کا آنکھوں دیکھا حال سنایا تو اُن کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری تھے اور میری آنکھیں بھی نمناک ہوگئیں۔ شمسی صاحب کہ جو اس وقت جوانِ رعنا تھے‘ نے بتایا کہ 18 جنوری 1970ء کو مولانا مودودی پلٹن میدان ڈھاکہ میں خطاب کرنے اپنی رہائش گاہ سے نکلے تو جگہ جگہ عوامی لیگ کے غنڈوں کا راج تھا۔ انہوں نے پلٹن میدان میں آنے والے جماعت کے کارکنوں کو ڈرایا دھمکایا اور انہیں پلٹن میدان خالی کرنے کو کہا۔ جب کچھ باہمت لوگوں نے انکار کیا تو عوامی لیگی کارکنوں نے اُن پر بدترین تشدد کیا اور کم از کم 5 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ راستے میں مولانا مودودی کی گاڑی پر ڈنڈوں کی بارش کی گئی اور انہیں پلٹن میدان نہیں پہنچنے دیا گیا۔الیکشن سے ایک سال پہلے ہی عوامی لیگ کے کارکنوں کے راج کا سبب کیا تھا؟ اس کا مستند جواب جسٹس حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ میں دے دیا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی زبردست عوامی مطالبے کے پیش نظر مشرقی پاکستان میں شکست اور ملک کے دولخت ہونے کے اسباب و عوامل کا جائزہ لینے کیلئے ایک عدالتی کمیشن قائم کیا تھا جو سپریم کورٹ کے جسٹس حمودالرحمن اور ہائی کورٹوں کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل تھا۔ 1974ء کے اواخر میں کمیشن نے اپنی حتمی رپورٹ پیش کر دی۔ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ ایک حساس قومی دستاویز قرار دے کر سالہا سال صیغہ راز میں رکھی گئی۔ سب سے پہلے ایک بھارتی اخبار نے کئی دہائیوں کے بعد یہ رپورٹ شائع کی تو 2004ء میں جنرل پرویز مشرف نے اس رپورٹ کے بعض اجزا منظرعام پر لانے کی اجازت دیدی۔حمودالرحمن کمیشن کی یہ سطور ملاحظہ کیجئے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ 6 برس کے دوران کس طرح سے مشرقی پاکستان کے منظرنامے کو زہرآلود کر دیا گیا۔ ''یحییٰ خان نے انتخابی مہم کیلئے تقریباً ایک سال دیا۔ اس دوران پاکستان مخالف پروپیگنڈا روکنے کیلئے کوئی اقدام نہ کیا گیا اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے عوامی لیگ سے سازباز کی گئی اور اُنہیں کھل کھیلنے کی مکمل آزادی دے دی گئی۔ عوامی لیگ نے جماعت اسلامی اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے انتخابی جلسے نہیں ہونے دیے۔ اس پارٹی کے مسلح گروہوں نے مخالف اخبارات اور طلبہ تنظیموں کے دفاتر جلا دیے‘‘۔ یہ تھے وہ مصدقہ اسباب جن کی بنا پر مولانا مودودی 18 جنوری 1971ء کو پلٹن میدان نہ پہنچ سکے۔ یوں تعصب کو ہوا دی گئی اور جب مشرقی پاکستان کی 162 سیٹوں میں سے160لے کر مجیب الرحمن کامیاب ہوگیا تو اس کی کامیابی میں اس وقت کے حکمرانوں کی درپردہ سازشوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔جب مجیب الرحمن جیت گیا تو اسے اقتدار دینے سے انکار کر دیا گیا اور اس کے بجائے مارچ 1971ء میں فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا گیا جس میں حمودالرحمن کمیشن کے مطابق ہزاروں بنگالی پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ہمارے داخلی خلفشار کو دیکھ کر بھارت نے مشرقی پاکستان پر فوجی چڑھائی کر دی جس کے نتیجے میں 16 دسمبر 1971ء کو ہمیں سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ دیکھنا پڑا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔ہماری سیاسی تاریخ میں سقوطِ ڈھاکہ سے ملتے جلتے المناک ایکشن ری پلے بار بار آتے رہے ہیں۔ حمودالرحمن کمیشن کی چشم کشا رپورٹ سے سیاسی جماعتوں اور مقتدر حلقوں نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ آج ہم پھر ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ یہ گھڑی ہم سے سمجھداری اور دانشمندی کا تقاضا کررہی ہے۔ ہمارے نئے وزیر داخلہ شیخ رشید جو غالباً سب سے پرانے اور تجربہ کار سیاستدان ہیں‘ سے امید کی جا رہی ہے کہ شیخ صاحب ریٹنگ بڑھانے والے بیانیے کے بجائے نیشنل ڈائیلاگ کیلئے سب کو آمادہ کرنے والے بیانیے سے کام لیں گے۔ اللہ ہمیں ہر آفت سے محفوظ رکھے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved