تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     15-12-2020

اپنی زبانوں میں اعلیٰ تعلیم

وزیر تعلیم ڈاکٹر رمیش پوکھریال نشانک نے آج اعلان کیا ہے کہ ان کی وزارتِ اعلیٰ تعلیم ہندوستانی زبان کے ذریعے د لانے کی کوشش کرے گی۔ ہندوستانی زبانوں یا مادری زبان کے ذریعے بچوں کی تعلیم‘ یہ نئی تعلیمی پالیسی میں بھی کہا گیا ہے اور کوٹھاری کمیشن کی رپورٹ میں بھی اس پالیسی پر زور دیا گیا تھا۔1967ء میں اندرا حکومت کے وزرائے تعلیم ڈاکٹر تریگن سین‘ شری بھاگوت جھا آزاد اور پروفیسر شیر سنگھ اور بعد میں ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی نے بھی ہندوستانی زبان کو تعلیم کاذریعہ بنانے کی پوری کوشش کی لیکن پھربھی ہماری حکومتیں تعلیم کو ہندوستانی بنانے میں کیوں ناکام رہیں؟ اس لئے کہ انہیں بال تو اپنے سر پراُگانے ہیں لیکن وہ مالش اپنے پیروں کی کرتی رہیں۔ پیرپر مساج کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کو مادری زبان کے ذریعے پڑھانا اچھا ہے‘ لیکن جب وہ آگے بڑھتے ہیں تو انگریزی کی غلامی شروع کردیتے ہیں۔ سمجھدار اور قابل افراد اپنے پیروں کی مالش کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کوبھی انگریزی میڈیم سکولوں میں ہی پڑھاتے ہیں۔اگر ہم ملک میں مقامی زبانوں کو تعلیم اور علم کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اعلیٰ تعلیم اور پی ایچ ڈی کریں۔اپنی زبانوں میں تحقیقی کام کرنے کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ اگر ہماری حکومتیں اس طرح کی جرأت کرتی ہیں تو کروڑوں لوگ جیب کاٹنے والی انگریزی میڈیم میں اپنے بچوں کو کیوں پڑھائیں؟ تب انگریزی کے ناکارہ افراد کو سرکاری ملازمتوں سے ہٹانا پڑے گا۔ میں یہ بات پچھلے ساٹھ سالوں سے کہہ رہا ہوں‘ لیکن میں نے نشانک جیسے وزیر تعلیم کے منہ سے پہلی بار یہ سنا ہے۔ میرے کہنے پر 2011ء میں بھوپال میں اٹل بہاری واجپائی ہندی یونیورسٹی اسی مقصد کے لیے بنائی گئی تھی‘ لیکن پھر بھی یہ اپنے گھٹنوں کے بل رینگ رہی ہے۔55 سال پہلے جب میں نے انڈین سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں ہندی میں اپنا بین الاقوامی سیاست کا مقالہ لکھنے کا مطالبہ کیا تو مجھے سکول سے نکال دیا گیا۔ ڈی ایم کے کے علاوہ ملک کی تمام جماعتوں کے رہنماو ٔں نے میرا ساتھ دیا۔ پارلیمنٹ کا کام متعدد بار ٹھپ ہوا لیکن بالآخر میں فتح یاب ہوا‘لیکن اصل مسئلہ اب بھی کھڑا ہے جہاں ہماری حکومتیں اور ماہرین تعلیم انگریزی کی غلامی میں مصروف ہیں۔شاید ڈاکٹر نشانک کچھ کرگزریں۔ وہ ایک پڑھے لکھے عالم ہیں۔ اگر وہ انگریزی کی میراث کو ختم کردیں اور ملک میں 5‘ 7 غیر ملکی زبانیں متعارف کروائیں تو ہماری غیر ملکی تجارت اور سفارتکاری بھی قلانچے بھرنا شروع کردے گی۔
عدالت حکومت پر بھاری
سپریم کورٹ نے فی الحال نئے پارلیمنٹ ہاؤس کی تعمیر پر پابندی عائد کردی ہے‘ لیکن انہوں نے سنگِ بنیادکے پروگرام پرروک نہیں لگائی تھی بلکہ نئی پارلیمنٹ کی تعمیر کے لیے متعدد عمارتوں کے انہدام‘ درختوں کو ہٹانے اور تمام علاقائی نقشوں میں تبدیلی پر پابندی عائد کردی ہے۔اس منصوبے کی تعمیرپرتقریباً 20 ہزار کروڑ روپے کی لاگت آئے گی اور آئندہ دو سالوں میں مکمل ہونے کی امید ہے۔ نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے دونوں ایوانوں میں تقریبا 1500 ممبران کے بیٹھنے کا انتظام ہوگا۔ اس وقت اس علاقے میں صرف 17 عمارتوں میں 39 وزارتیں چل رہی ہیں۔ نئی تعمیر میں ایسی دس بڑی عمارتیں تعمیر کی جائیں گی‘ جن میں 51 وزارت بیک وقت چل سکیں گی۔ ابھی حکومت کو کچھ عمارتیں کرایے پرلینی پڑتی ہیں‘جس پر ایک ہزار کروڑ روپے سالانہ خرچ آتاہے۔انگریزوں کی تعمیر کردہ یہ تمام عمارتیں اب 100 سال پرانی ہوچکی ہیں۔ مودی سرکار نے ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی اور بڑی عمارتیں بنانے کا عہد کیا ہے‘ لیکن اس منصوبے کے خلاف قریب1200 اعتراضات درج کئے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ سمیت متعدد عدالتوں میں مختلف افراد کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئیں ہیں۔ ان میں بہت سے الزامات ہیں‘ جیسے درختوں کو گرانے کی اجازت ماحولیاتی قوانین کے خلاف دی گئی ہے اور زمین کو استعمال کرنے کی غلط طریقے سے جازت لی گئی ہے۔ حکومت نے یہ اجازت دینے میں اپنے بہت سے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہمارے بیشتر سیکولر رہنماؤں نے بھی اس اسمبلی کی تعمیرات کے لیے ہندو رسومات پر اعتراض کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں‘ کیا یہ ہندو مندر ہے؟ یہ بھارت بھون ہے‘اس کی سنگ بنیادمیں تمام مذاہب کے لوگوں کوشامل کیا جانا چاہئے۔
آبادی کو بڑھنے سے روکیں
اگر ہندوستان میں آبادی کی رفتاریوں ہی برقرار رہی تو یہ چند سالوں میں چین کو شکست دے دے گی۔ اس وقت ہمارے یہاں چین سے صرف 3‘4 کروڑ افرادہی کم ہیں۔ ہندوستان کی آبادی اس وقت ایک ارب 40 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اگر چین نے کئی سالوں سے ہر گھرکے لیے صرف ایک بچے کی پابندی عائد نہ کی ہوتی تو آج چین کی آبادی شاید دو ارب تک پہنچ جاتی۔ 60‘70 سال پہلے‘ ہر چینی خاندان میں عام طور پر پانچ سے چھ بچے ہوتے تھے۔ چین میں ہندوستان سے زیادہ غربت تھی‘ لیکن آبادی پرسختی کرکے چین اپنی معیشت میں بھی بہتری لایا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی حکومتیں اس معاملے پر خراٹے لے رہی ہیں۔وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس معاملے میں تھوڑی بہت بیداری پیدا کی تھی اور نس بندی کی مہم کا آغاز کیا تھا لیکن سنجے گاندھی کے انتہائی جذباتی اور سخت رویے کی وجہ سے مہم پیچھے چلی گئی۔ ایمرجنسی نے اس کو مزید بدنام کیا۔ اس وقت ہندوستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ آبادی کو بڑھنے سے روکنے کا یہ بہترین وقت ہے۔اگر بی جے پی حکومت اس سمت میں ٹھوس اقدامات کرے گی تو کوئی بھی اس کی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔اس کاطریقہ کاریہ ہوکہ پہلے جب وہ لوگوں کو کورونا ٹیکہ لگائے تو اس کے ساتھ نس بندی کا بھی مفت اعلان کرے۔ یہ لازمی نہیں ہونا چاہئے۔ ہاں کچھ مراعات دی جاسکتی ہیں۔ جن کے ایک یا دو بچے ہیں وہ رضاکارانہ طور پر ویکسین لے سکتے ہیں۔ دوسرا ''ہم دوہمارے دو‘‘کا نعرہ گھر گھر پہنچانا چاہئے۔ اسے قانونی شکل بھی دی جانی چاہئے۔ جو دو سے زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں انہیں سرکاری ملازمت‘ پارلیمنٹ اور اسمبلی کا امیدوار بننے کی اہلیت اور بہت سی سرکاری سہولتوں سے محروم کردیاجانا چاہئے۔میری تجویزبظاہر سخت اور بے رحم معلوم ہورہی ہوگی‘ لیکن یہ ملک کے لیے اتنا اچھا ہوگا کہ ہندوستان کے عوام اس وزیر اعظم کے شکر گزار ہوں گے جو کئی دہائیوں تک اس پر عمل درآمد کروائے گا۔ اس قانون کے نفاذ کی مخالفت ذات پات اور فرقہ وارانہ سیاست کرنے والے افراد کریں گے‘ جو اپنی سیاست کو قابلیت اور کردار کی طاقت کے بجائے تعداد کی بنیاد پر چلاتے ہیں‘ لیکن عوامی حمایت کے بعد وہ بھی لب کشائی کرنے سے باز آجائیں گے۔تیسرا‘ حکومتِ ہند کو جنوبی اور وسطی ایشیا کے 17 ممالک میں اگلے پانچ سالوں میں 10 کروڑ ہندوستانیوں کو روزگار مہیا کرنا چاہئے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved