تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     15-12-2020

ہے تصور میں عہدِ نبیﷺ سامنے

تپتے صحراؤں کے بیچ اور جھلستے بنجر سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان پیالہ نما وادی میں ایک کچی اور پیاسی بستی کے بے حال لوگ جوق در جوق ایک باعظمت گھر کے قریب جمع ہو رہے ہیں۔ سب کی نظریں آسمان پر ٹکی ہیں جہاں کسی بدلی کا نام و نشان نہیں۔ وہ اس گھر کے مالک سے دعا کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ یہ بستی ویسے بھی نہ کھیتی باڑی کی سرزمین ہے، نہ دریاؤں اور چشموں کی دھرتی۔ پہاڑوں اور وادیوں میں بارش سے جو گھاس اور جھاڑیاں اگ آتی ہیں وہی ان کے مویشیوں کا چارہ ہیں۔ اور اب یہ چارہ بھی ان سے روٹھ گیا ہے کہ وہ بارش ہی میسر نہیں آ رہی جو یہ خودرو گھاس اور جھاڑیاں اگائے۔ کنوؤں کا پانی تہ میں اترتا جا رہا ہے اور تجارتی قافلے بھی اس موسم میں اس راہ سے نہیں گزر رہے جس پر یہ بستی واقع ہے۔ ہجوم کی نگاہیں آسمان سے ہٹ کر زمین پر مرتکز ہو جاتی ہیں جہاں بستی کے معزز ترین افراد میں سے ایک وجیہ شخص کچھ بچوں کے ساتھ داخل ہو رہا ہے۔ اس نے ایک بچے کی انگلی تھامی ہوئی ہے جس کا چہرہ سورج کی طرح روشن ہے۔ وہ کعبہ مشرفہ کے قریب آتا ہے۔ بچے کو دیوار کی ٹیک سے بٹھاتا ہے اور بارش کی دعا کے ساتھ بچے کی شان میں شعر پڑھتا ہے
وابیض یستسقی الغمام بوجہہ
ثمال الیتامیٰ عصمتہ الارامل
(وہ گورے رنگ کا شخص جس کے چہرے کا واسطہ دے کر بادل سے بارش مانگی جاتی ہے۔ جو یتیموں کا کفیل اور بیواؤں کا محافظ ہے)
کعبۃ المشرفہ میں ابوطالب کا یہ شعر نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعت کا پہلا شعر نہیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ اور حضرت عبد المطلب نے بھی آپﷺ کی محبت اور رفعتِ شان میں شعر کہے تھے۔ لیکن ابوطالب کا یہ قصیدہ لامیہ ابتدائی نعتوں میں ضرور ہے۔ نسل در نسل، ملک در ملک، زبان در زبان یہ سونے کی لڑی ہم تک پہنچی ہے جس کی کڑیوں کا کوئی شمار ہی نہیں۔ آپﷺ کی ذات گرامی کی تعریف کرنے والوں کو خود جواب میں کیا کیا کچھ ملا، اَن گنت واقعات ہیں۔ مدح خواں کو درگاہ رسالت مآبﷺ سے کیا کچھ عطا ہوا، حضرت کعب بن زہیر کا قصیدہ بانت سعاد، بوصیری کا قصیدہ بردہ شریف‘ اس کی محض دو مثالیں ہیں۔ نعت گو کو زمان و مکان سے بلند تر کیا رفعتیں نصیب ہوئیں، قدسی کا مرحبا سید مکی مدنی العربی، جامی کا گل از رخت آموختہ، سعدی کا قطعہ بلغ العلیٰ بکمالہ محض چند حوالے ہیں۔ چند ہرجائی سونے کے ٹکڑوں، کچھ بے وفا زمینوں کے عارضی مالک بادشاہ اگر اپنے قصیدہ خواں کو نواز سکتے ہیںتو اس عطا کا کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو زمینی اور فانی تحائف سے بلند تر ہے۔
نعت رنگ کا تازہ شمارہ نمبر۳۰ میرے ہاتھوں میں ہے اور میں ۸۰۰ صفحات پر مشتمل اس خوب صورت مجلے کی مہک کے حصار میں ہوں۔ تحقیق، تنقید، انتخاب، تبصرے، کیا کچھ اس میں نہیں۔ ڈاکٹر صبیح رحمانی ان خوش قسمت لوگوں میں ہیں جنہیں نوجوانی ہی میں اس خوش بخت مقصد کے لیے چن لیا گیا۔ اب تین عشروں سے زائد ہو چلے ہیں کہ وہ نعت اور نعتیہ ادب کے فروغ اور ترویج کے لیے مسلسل اپنی کاوشیں، اپنا ذوق اور اپنا ہنر وقف کیے ہوئے ہیں۔ کام کرنے والے خاص طور پر حرف کار کے دل میں نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا کا بھید سما جائے تو کام کو بھی پر لگ جاتے ہیں اور اس میں موجود برکت کو بھی۔ صبیح رحمانی کے کام میں برکت ہے اس لیے کہ وہ ستائش اور صلے سے بالا ہوکر کام کرنے کے عادی ہیں۔ زیادہ دور مت جائیے، ماضی میں مت جھانکیے، آج بھی وہ لوگ موجود ہیں، وہ ذہن اردو زبان و ادب میں فعال ہے جن کی زندگیوں کا مقصد نعت کی ترویج و اشاعت رہا ہے۔ صبیح رحمانی اور ان کی طرح کے حرف کار ہمت نہیں ہارتے۔ یہی کیفیت سوشل میڈیا پر فعال نوجوان ابوالحسن خاور کی ہے کہ وہ نعت کی مسلسل ترویج کے لیے ہمہ تن وقف رہتے ہیں۔ میں ان سب کو رشک سے دیکھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کے خلوص کی برکت سے مجھے بھی خلوص، محبت اور نعت کی دولت عطا ہو گی۔یہ جو بہت سے لوگوں کا تاثر ہے کہ نعت محض حصول ثواب کے لیے لکھی جانے والی صنف ہے، کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ اگر نعت کو اقبالؔ جیسے باکمال اور اس کے بعد کے درجوں کے عمدہ شاعر میسر نہ آتے تو یہ شرمندگی اور زیادہ ہوتی۔ اچھے شاعر تو نعت میں بھی اپنے خاص لفظ رقم کرتے رہے لیکن ان سہل پسندوں کی بھی کمی نہیں تھی جنہوں نے نعت کے معیارات کا خیال نہیں کیا۔ مجھے ہمیشہ اس بات کی تکلیف محسوس ہوتی ہے کہ نعت کے معاملے میں کم سے کم معیار کو بھی قبول کر لیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اچھے اور معیاری شعراء وہ نقش بنائیں جس سے نعت گوئی کا معیار بہتر سے بہتر ہو۔ اور یہ فریضہ ہم سب کے ذمے ہے۔
کئی ماہ پہلے کی بات ہے، میں کورونا کے شب و روز میں گھرا ہوا تھا۔ ہر وقت ہر طرف سے بری خبریں آنا معمول سا بن گیا تھا۔ ایسے میں میں ڈاکٹر صبیح رحمانی کا فون ایک خوش خبری لے کر آیا۔ میں نعت رنگ کے تازہ ضخیم شمارے میںحمد اور نعت کے حوالے سے آپ کا گوشہ بنانا چاہتا ہوں۔ مجھے اپنی تخلیقات جلد بھیجیں۔ فون بند ہوا اور میں نے سوچنا شروع کیا۔ اللہ اللہ! یہ وقت بھی آیا کہ سعود عثمانی کو نعت گو شعراء کی صف میں شمار کیا گیا اور وقیع ناموں کے بیچ اسے ممتاز حیثیت دی گئی۔ وہ سعود عثمانی، جسے ایک زمانے میں یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کا شمار کبھی عام شاعروں میں ہو گا، اس کا شمار نعت گو شعرا میں بھی ہونے لگا۔ لیکن لکھنے والا کسی کی قسمت لکھتا ہے تو وہ ہوکر رہتی ہے سو اس وقت نعت رنگ کا شمار میرے ہاتھ میں ہے اور میرا گوشہ اس کے دامن میں ہے۔
واللہ انہی کے کرم سے ہے، لاریب انہی کے دم سے ہے 
یہ ندرت میرے لفظوں میں، یہ برکت میرے سینے کی
بات یہ ہے کہ یہ سب لفظ، یہ تمام توصیف، یہ مدح سرائی سب بیکار ہے اگر اُس دربار میں قبول نہ ہو۔ سو اس مجلے میں شامل اپنے کچھ شعر اسی امید، اسی خواہش اور اسی دعا کے ساتھ یہاں بھی شامل کرتا ہوں۔
ہے تصور میں عہدِ نبی سامنے، اس زمانے کے پل جگمگاتے ہوئے
آنکھ کے سامنے ہیں مناظر بہت‘ چلتے پھرتے ہوئے‘ آتے جاتے ہوئے
ایک چادر کو تھامے ہوئے ہیں سبھی، چاہتے ہیں یہ سب آپ سے منصفی
آپ کے دستِ فیصل میں سنگِ سیہ سب قبیلوں کا جھگڑا مٹاتے ہوئے
مشرکوں کی غلامی ہے دشوار تر، کیسی تعذیب میں ہے سمیّہ کا گھر
سخت تکلیف میں دیکھتے ہیں انہیں پھر ابوبکرؓ گردن چھڑاتے ہوئے
امِ معبد کا خیمہ ہے اک مستقر، یہ مکہ سے یثرب کی جانب سفر
دودھ سے بھر گئے اس کی بکری کے تھن‘ میزبانوں کی قسمت جگاتے ہوئے
دور سے ایک ناقہ ابھرتا ہوا، اک سوار آپؐ پر سایا کرتا ہوا 
حدِ یثرب پہ انصار کی لڑکیاں، گیت گاتے ہوئے، دف بجاتے ہوئے
دن نکلنے لگا، شام ڈھلنے لگی، منجمد تھی جو ظلمت پگھلنے لگی
اوس و خزرج کی قسمت بدلنے لگی، علم کی روشنی میں نہاتے ہوئے 
اک کھجوروں کا باغ اور کچھ مال و زر، ہے یہ سلمانِ فارس کا بخت دگر
چومتی ہے زمیں آپ کی انگلیاں کچھ کھجوروں کے پودے لگاتے ہوئے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved