اب مذاکرات نہیں‘ لانگ مارچ ہوگا: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کاہ ہے کہ ''اب مذاکرات نہیں، لانگ مارچ ہوگا‘‘ کیونکہ اگر مذاکرات میں این آر او پربات ہی نہیں ہو گی تو ان کا فائدہ ہی کیا ؟حالانکہ بیشک این آر او نہ دیں مگر اس پر مذاکرات کرنے میں کیا ہرج ہے؟ اس لئے ہم نے بھی حکومت کو کہہ دیا ہے کہ ہم بھی اسے این آر او نہیں دیں گے؛ اگرچہ اس سے بڑا مذاق اور کوئی نہیں ہو سکتا اور لانگ مارچ ا س لئے ہو گا کہ جلسوں سے یہ حکومت جانے والی نہیں؛ اگرچہ یہ لانگ مارچ سے بھی نہیں جائے گی مگر ایک غیر دانشمندانہ تحریک جوشروع کر بیٹھے ہیں اسے بیچ میں کیسے چھوڑا جا سکتا ہے جب تک یہ خود اختتام پذیر نہ ہو جائے۔ آپ اگلے روزجلسہ لاہور میں خطاب کر رہے تھے۔
اپنی سیاسی زندگی میں اتنا بڑا جلسہ نہیں دیکھا: خواجہ آصف
نواز لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''اپنی سیاسی زندگی میں اتنا بڑا جلسہ نہیں دیکھا‘‘ اگرچہ پنڈال تو نہیں بھر سکا تھا لیکن لوگوں کا جذبہ قابلِ دید تھا اور جماعت سے ان کی وابستگی اور محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جاتے ہوئے وہ جلسہ گاہ میں رکھی کرسیاں بھی ساتھ لے گئے جبکہ ہمارے قائد کی تقریر کے وقت پنڈال تقریباً خالی ہو چکا تھا کیونکہ لوگ ان کی تقریر گھر جا کر پوری تسلی سے سننا چاہتے تھے حتیٰ کہ مولانا صاحب بھی خالی کرسیوں ہی سے خطاب کرتے رہے جبکہ مریم نواز کی تقریر کے بعد پنڈال تقریباً خالی ہو چکا تھا کہ لوگوں کی قوتِ برداشت اس وقت تک جواب دے چکی تھی۔ آپ اگلے روز نارووال میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
آر ہوا نہ پار، لاہور کے عوام نے
اپوزیشن کو لاچار کر دیا: شاہ محمود قریشی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''آر ہوا نہ پار، لاہور کے عوام نے اپوزیشن کو لاچار کر دیا‘‘ جبکہ یہ بہت زیادتی ہے اور اس کا مطلب ہے کہ کل کو ہم بھی اگر اپوزیشن کی صورت میں سامنے آئے تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہو سکتا ہے۔ وہ تو بیچارے کرسیاں بھی خرید کر لائے تھے جبکہ آخری وقت میں پنڈال کرسیوں سے خالی ہو چکا تھا اور اگر ہم پرایسا وقت آیا تو ہم کرسیاں خریدنے کی غلطی نہیں کریں گے کیونکہ ہمارے لوگ زمین پر بھی بیٹھ سکتے ہیں؛ تاہم اپوزیشن کو مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اپنا یہ شغل جاری رکھنا چاہیے البتہ تھوڑی بہت عبرت ضرور حاصل کر لینی چاہئے کہ یہ ہمیشہ آدمی کے کام آتی ہے۔ آپ اگلے روز ا سلام آباد میں جلسہ لاہور پر اپنا ردعمل ظاہر کر رہے تھے۔
وہ نظام چاہتا ہوں جس میں ادارے
اپنی قوم سے نہیں لڑتے: نوازشریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''میں وہ نظام چاہتا ہوں جس میں ادارے اپنی قوم سے نہیں لڑتے‘‘ البتہ ایک سابق وزیراعظم ضرور اداروں سے لڑ سکتا ہے چاہے وہ خود راندئہ درگاہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بے التفاتی کیا کہ ہمیں اقتدار اور حکومت کی عادت ڈال کر یک لخت آنکھیں ہی پھیر لی جائیں حالانکہ ہم نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر اپنی اپنی باریاں مقرر کر رکھی تھیں اور ملک کا سارا نظام بڑی سہولت سے چل رہا تھا اور ا ب یہ دونوں پارٹیاں رو رہی ہیں حتیٰ کہ ان کی نیک کمائی بھی ان سے چھینی جا رہی ہے جو کہ کھلی ڈکیتی ہے ا ور جمہوریت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آپ اگلے روز جلسۂ لاہور سے خطاب کر رہے تھے۔
قوم کامال لوٹنے والوں نے اپنی سیاسی قبر کھود دی: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''قوم کا مال لوٹنے والوں نے اپنی سیاسی قبرکھود دی‘‘ حالانکہ میں نے ابھی چارج بھی نہیں سنبھالا تھا جس سے میری دہشت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے؛ تاہم اب میں لانگ مارچ کے لئے پوری پوری تیاری کر رہا ہوں کیونکہ میں نے اپنی نئی وزارت کا جواز بھی پیش کرنا ہے اور میں حکومت کے معیار اور اعتماد پر پورا اتروں گا۔ اگرچہ ریلوے میں توکوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکا تھا؛ تاہم اب اپوزیشن کوسمجھ لینا چاہیے کہ اُن کا معاملہ اب میرے ساتھ ہے کیونکہ میں اس انجن کی مانند ہوں جو کبھی خراب نہیں ہوتااور گاڑی کو اس کی منزلِ مقصود تک پہنچا کر ہی دم لیتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں جلسہ لاہور پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
حاشیے (افسانے)
یہ آصف علی کے افسانوں کا مجموعہ ہے جسے بک ہوم لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب ''اُن کے نام ہے جن سے مجھے محبت ہے‘‘۔ دیباچہ نگاروں میں عمران الحق چوہان، ڈاکٹر امجد طفیل، اجمل اعجاز اور حمیرا اطہر شامل ہیں جبکہ ''بطونِ بطون‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ مصنف کا قلمی ہے۔ پسِ سرورق مصنف کی تصویر کے علاوہ دیباچہ نگاروں کے مضامین سے اقتباسات شامل ہیں۔ ڈاکٹر امجد طفیل کے مطابق: زیرِ نظر کتاب میں آپ کو بعض افسانے ضرور ایسے پڑھنے کو ملیں گے جن کو پڑھ کر منہ سے بے اختیار واہ نکلے، جبکہ اجمل اعجاز کے مطابق: آصف علی کے افسانوں کا اصل موضوع معاشرتی ناہمواریاں ہیں اور اس موضوع کو برتنے میں بھی انہوں نے منفرد لہجہ اختیار کیا ہے ا ور موضوع کے اندر نئے موضوع تلاش کیے ہیں۔ افسانوں کی تعداد 16ہے۔
اور‘ اب آخر میں کاشف مجید کی شاعری:
دل پہ ہے کس کا اجارہ سائیں
ہو گیا عشق دوبارہ سائیں
مرنے والے کو بھی اور خود کو بھی
میں نے مٹی میں اُتارا سائیں
اب بھی دشمن سے تو ہے میل ملاپ
کر لیا خود سے کنارا سائیں
میں ابھی گر یہ نہیں کر سکتا
ابھی ہونا ہے اشارہ سائیں
ایک مدت سے نہیں دیکھا ہے
سانس چلنے کا نظارہ سائیں
تیرا ہر روپ بھلا لگتا ہے
پھول ہو یا کہ ستارہ سائیں
٭......٭......٭
دل سے جاتا ہوں جہاں جاتا ہوں
میں پرندوں کی قسم کھاتا ہوں
ٹوکتا کوئی نہیں ہے مجھ کو
سو میں جیتا ہی چلا جاتا ہوں
موت کی راہ دکھاتا ہوں جسے
اُسے جینے پر بھی اُکساتا ہوں
رقص کرنے کی اجازت دی جائے
آسماں خاک پہ لے آتا ہوں
جی بھی اُٹھتا ہوں ترے سامنے سے
اور تیرے سامنے مر جاتا ہوں
آج کا مطلع
خامشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہئے
یہ تماشا اب سرِ بازار ہونا چاہئے