پاکستان میں سیاسی اتحاد بنتے بھی رہے اور ٹوٹتے بھی رہے‘ یہ اتحاد سیاستدانوں کو متحد کرنے کیلئے بنائے گئے تاکہ اکٹھے ہوکر اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے جہدوجہد کی جائے۔ ایک زمانہ تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے تعلقات ایسے تھے‘ جیسے پاکستان اور بھارت کے۔ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف بہت سازشیں کی اور ایک دوسرے کی حکومتوں کو چلنے نہیں دیا۔ مجھے یاد ہے جب بچپن میں الیکشن ہوتے تھے تو ہمارے سیکٹر کے بڑوں کی کوشش ہوتی تھی کہ ان دونوں پارٹیوں کے کارکنان مدمقابل نہ آئیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے کیمپ دور دور لگائے جاتے تھے تاکہ لڑائی جھگڑا نہ ہو۔ اس وقت اسلام آباد پر جماعت اسلامی کا بھی بہت ہولڈ تھا۔ ہمارے پورے سیکٹر کے بچے اور خواتین جماعت اسلامی کے دروس میں لازمی شرکت کرتے تھے، قربانی کی کھالیں بھی زیادہ تر جماعت کو ہی دی جاتی تھیں۔ مشرف دور میں اس حلقے سے جماعت اسلامی کے میاں اسلم ایم این اے بھی منتخب ہوئے تھے۔
جولائی 2007ء میں ایف ایٹ کچہری میں پیپلز پارٹی کے کیمپ کے قریب بم دھماکہ ہوا تو اس میں پیپلز پارٹی کے درجنوں کارکنان شہید اور زخمی ہوئے۔ ہمارے علاقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے پیپلز پارٹی کے عہدیدار اس دھماکے میں شدید زخمی ہوئے۔ اس وقت سب پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے کیونکہ اصل میں ہم سب ایک ہی ہیں اور ہمیشہ ایک رہیں گے، کوئی ہمیں رنگ‘ نسل یا پارٹی کی بنیاد پر الگ نہیں کر سکتا۔ ہمارے علاقے کے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر 5 ماہ بستر پر رہے‘ دھماکے نے انہیں مفلوج کر دیا تھا‘ ان کی صحت یابی تک ان کی دکان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر نے سنبھالے رکھی اور ان کے کاروبار کو مستحکم رکھا۔ اسی دھماکے میں پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر اسرار شاہ نے اپنی دونوں ٹانگیں کھو دی تھیں۔ وہ تنائو‘ مخالفت اور لڑائی جو بچپن میں ہم نے ان دونوں جماعتوں کے درمیان دیکھی‘ وہ لیڈران کے مابین طے پانے والے معاہدوں اور دہشت گردی کے مسلسل واقعات کی وجہ سے کافی حد تک ختم ہو گئی۔
کئی دہائیوں تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کے مدمقابل رہیں لیکن میں نے 2008ء کے الیکشن میں رضاکارانہ ڈیوٹی دی تو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی دشمن نہیں رہی تھیں اور الیکشن بہت پُرامن تھا، سب ایک دوسرے کے ساتھ ایسے گھل مل رہے تھے جیسے ایک دوسرے کے قریبی دوست ہوں۔ شاید محترمہ بے نظیر بھٹو کی وفات نے سب کے دل پگھلا دیے تھے۔ میں نے اپنی میڈم سے‘ جو میری سکول میں استاد تھیں اور پولنگ سٹیشن کی انچارج تھیں‘ پوچھا کہ یہ کرشمہ کیسے ہوگیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: شاید حالات اور طویل آمریت نے ان کو قریب کر دیا ہے۔ لیڈران کی صلح نے سیاست پر خوشگوار اثرات مرتب کئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کا دہشت گردی میں لقمۂ اجل بن جانا ایک ایسا سانحہ ہے جس کا اثر پاکستانی سیاست پر بہت عرصے تک رہے گا۔ ایسا ہی ہوا۔ میں نے ان کی شہادت پر اپنے خاندان اور علاقے کے بیشمار ایسے لوگوں کو بھی روتے دیکھا جو پیپلز پارٹی کے سخت ناقد تھے۔ جس دن بی بی کی شہادت ہوئی‘ اس روز ہمارے خاندان میں ایک شادی تھی۔ تمام تقریبات منسوخ کرکے گھر میں سادگی سے نکاح کیا گیا۔ اس ناگہانی موت نے ہر پاکستانی کو متاثر کیا تھا۔ 2008ء کے الیکشن کے بعد یوسف رضا گیلانی متفقہ طور پر‘ بلا انتخاب وزیراعظم منتخب ہوئے اور مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے مل کر حکومت بنائی۔ کچھ عرصے بعد پرویز مشرف نے بھی ایوانِ صدر سے رخصت لے لی مگر یہ اتحاد زیادہ دیر چل نہیں سکا اور مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی راہیں جدا ہوگئیں۔ اس کے بعد دونوں میں رنجشیں اور اختلافات بڑھتے چلے گئے‘ یہاں تک کہ نواز شریف کالا کوٹ پہن کر حکومت کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے۔ پھر رفتہ رفتہ پرانی سیاست کا دور لوٹنے لگا اور ایک دوسرے کی حکومت کے خلاف سازشیں اور وہی ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں شروع ہو گئیں۔ 2018ء میں جب مسندِ اقتدار پر عمران خان براجمان ہوئے تو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں رنجشیں دوبارہ دور ہونے لگیں اور عمران خان کی مخالفت میں دونوں ایک بار پھر ساتھ ہو گئیں۔ کبھی فاصلے کم ہوئے تو کبھی بڑھ گئے لیکن پی ڈی ایم کے بعد سے فاصلے کم ہوئے ہیں۔ اپوزیشن نے حکومت کے خلاف کئی جلسے کئے‘ جن میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت بھی کی۔ موروثی سیاست کے علمبردار سیاستدانوں کی دوسری اور تیسری نسل اس وقت میدانِ سیاست میں سرگرمِ عمل ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کو شوق سے سنتی اور ان کے جلسوں میں شرکت کرتی ہے۔ مریم نواز اس وقت جارحانہ انداز میں حکومت کو للکار رہی ہیں۔ ان کا پورا خاندان اس وقت لندن میں ہے اور وہ بھی بے چین ہیں کہ کب وہ اڑان بھریں۔ شاید اسی لئے وہ بلاخوف تنقید کر رہی ہیں تاکہ این آر او مل جائے۔ میرے نزدیک یہ جنگ صرف اقتدار کی ہے اور اس میں عوام کی بھلائی کے لئے کچھ نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں میری ایک واقف کار کے والدین چوبیس گھنٹے کے اندر یکے بعد دیگرے جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ کورونا نے ایک ہنستا بستا گھر چند گھنٹوں میں اجاڑ دیا؛ تاہم سیاستدانوں کیلئے یہ سب ایک کھیل تماشا ہے۔ سینکڑوں لوگوں کو ایک جگہ پر جمع کرنا، 'میں سب سے اچھا ہوں‘ کی گردان کرنا اور 'مجھے اقتدار دو‘ جیسی تقاریر کرنے سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ ہمارے ہاں سیاستدان خود ستائش کا بھی شکار ہیں اور خودنمائی کا بھی۔ یہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ لوگ ان کی مہنگی گاڑیاں‘ قیمتی لباس اور مہنگی گھڑیاں دیکھ کر مرعوب ہوں۔ یہ جلسے، جلوس، خطاب اور تقریریں تو فیس بک اور ٹویٹر سے لائیو بھی ہوسکتی ہیں، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر بھی سیاسی تقاریب منعقد ہو سکتی ہے لیکن نہیں! شاید اپوزیشن نے قسم کھا رکھی ہے کہ حتی المقدور کورونا عوام میں تقسیم کریں گے۔ اس وقت پی ڈی ایم اتحاد ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے کے لیے کام کر رہا ہے؛ تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ایسے اتحاد زیادہ دیر چلتے نہیں ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اپوزیشن کچھ عرصے تک تمام سیاسی سرگرمیاں صرف سوشل میڈیا تک محدود کر دیتی۔
لاہور کو مسلم لیگ کا گڑھ مانا جاتا ہے؛ تاہم گزشتہ روز لاہور کا جلسہ‘ دوسرے جلسوں کے مقابلے میں اتنا بڑا اور کامیاب نہیں تھا۔ اب اس کی وجہ عوام کی جانب سے پی ڈی ایم کو مسترد کرنا تھی، سردی تھی یا کورونا‘ جو بھی وجہ ہو‘ حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن اتنے بندے نہیں نکال سکی۔ اس پر چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ اس جلسے میں بدنظمی بھی عروج پر تھی، کئی خواتین کو بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ امر نہایت افسوسناک ہے۔ جلسے کو آرگنائز کرنے والوں نے اس چیز کا خیال کیوں نہیں رکھا کہ خواتین کو ہجوم سے کیسے بچانا ہے۔ اس کے علاوہ مینارِ پاکستان اور اس سے متصل گریٹر اقبال پارک کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا‘ پودوں، جنگلوں اور دروازوں کو اکھاڑ پھینکا گیا، اور جو اتنا کچرا پھینکا گیا، اس نقصان کا کم از کم تخمینہ بھی لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ہو گا۔ ویسے بھی تقاریر میں کچھ نیا نہیں تھا، سب نے پرانا سکرپٹ پڑھا؛ البتہ محمود اچکزئی نے تعصب پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاہور میں کھڑے ہوکر‘ تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے لاہوریوں اور پنجابیوں پر جو الزامات عائد کیے‘ وہ قابلِ مذمت ہیں۔ ان جلسوں سے نسلی تفریق کو کیوں ابھارا جا رہا ہے؟ اس کے لئے تو پی ٹی ایم پہلے سے موجود ہے۔ ریاست پر حملے کرکے اور صوبائی تعصب پیدا کرکے پی ڈی ایم کو کچھ نہیں ملنے والا۔ لسانی چورن اب نہیں بکتا‘ عوام کے لئے کام کریں تو شاید عوام آپ کو ووٹ بھی دیں، ورنہ آپ اقتدار سے ہمیشہ باہر ہی رہیں گے۔