تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     16-12-2020

آغا خان یونیورسٹی میں تین سال

زندگی بھی اتفاقات کا کھیل ہے اور کبھی کبھار اس کے ٹیڑھے میڑھے راستوں سے گزرتے ہوئے ہم ایسے منظروں میں جا پہنچتے ہیں جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ یہ 1996ء کا سال تھا جب میں آئی ای ڈی (Institute for Educational Development) سے وابستہ ہوا تھا۔ اس وابستگی کی کہانی بھی عجیب تھی۔ میں 1991ء سے 1995ء تک کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ یہ کینیڈین کامن ویلتھ کا سکالرشپ تھا اور میں اپنی فیملی کے ساتھ یونیورسٹی کے اپارٹمنٹس میں رہتا تھا‘ جو ڈاؤن ٹاؤن میں چارلس سٹریٹ پر واقع تھے۔ کبھی کبھار پاکستان کی یاد آتی تو ہم جیرارڈ سٹریٹ چلے جاتے جہاں پر مانوس ماحول نظر آتا۔ شاید وہ جمعہ کا دن تھا جب مجھے یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا ٹیلی فون آیا۔ اس نے بتایا کہ پاکستان سے طالبِ علموں کا ایک گروپ ٹورنٹو پہنچا ہے۔ اگر میرے پاس وقت ہو تو ہفتے کے دن انہیں ٹورنٹو کی سیر کرا دوں۔ میں نے کہا: ضرور۔ اگلے روز ٹورنٹو یونیورسٹی میں طلباء و طالبات سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ آغا خان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ کے سٹوڈنٹس ہیں‘ اور ان کے کورس کا ایک حصہ یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں کچھ مدت گزارنا ہے۔ میرے لیے یہ ایک دلچسپ مصروفیت تھی۔ میں نے انہیں ٹورنٹو کے مختلف علاقوں کی سیر کرائی‘ سب وے (Subway) سے سفر کے بارے میں بتایا‘ حلال فوڈکے سٹورز دکھائے۔ اس گروپ سے ملنے سے پیشتر مجھے آئی ای ڈی کے بارے میں معلوم نہ تھا۔ گروپ کے افراد سے پتہ چلا کہ آئی ای ڈی کا معاہدہ ٹورنٹو یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے ہے اور ان دونوں یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی پاکستان جاکر پڑھاتے ہیں۔ اسی طرح طلباء کو ان دونوں یونیورسٹیوں میں مختصر مدت کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ دن کے آخر میں گروپ کے افراد نے میرا شکریہ ادا کیا اور میں ٹورنٹو کی یخ بستہ ہوا میں سائیڈ واک پر چلتے ہوئے اپنے گھر پہنچ گیاجو یونیورسٹی سے زیادہ دور نہ تھا۔
پھر وہی پی ایچ ڈی کی مصروفیت جس میں انسان اردگرد کی دنیا سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ 1995ء میں پی ایچ ڈی مکمل ہوگئی تو میں پاکستان واپس آگیا اور اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی سے وابستہ ہوگیا۔ یہ 1996ء کی بات ہے‘ ایک دن مجھے آغاخان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ سے فون آیاکہ ان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کاظم بیکس (Kazim Bacchus) اسلام آباد آرہے ہیں اور اگر میرے پاس وقت ہوتو ان کے ساتھ لنچ کروں۔ لنچ کے دوران ڈاکٹر کاظم بیکس نے مجھے کہاکہ میں کراچی میں آئی ای ڈی میں آجاؤں۔ میرے لیے یہ ایک غیر متوقع آفر تھی لیکن اسلام آباد چھوڑ کر کراچی جانا آسان فیصلہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر کاظم نے کہا: ہم ایک کانفرنس منعقد کرارہے ہیں‘ آپ اس میں شرکت کیلئے آئیں‘ اسی بہانے وہاں کا ماحول دیکھ لیجئے گا۔ اس پر میں نے ہامی بھرلی۔ کانفرنس میں میں نے بھی اپنا پیپر پڑھا۔ دو تین دن کے قیام کے دوران لوگوں سے ملا۔ اس دوران مجھے وہاں کے ماحول کو قریب سے جاننے کا موقع ملا اور میں نے اسلام آباد سے کراچی جانے کا فیصلہ کرلیا۔
کراچی میں رہا ئش کیلئے میں نے ملیرکینٹ میں جو گھر لیا وہ میری کام کی جگہ سے دور تو تھا لیکن محفوظ علاقہ تصور کیا جاتا۔ اس کے برعکس آغا خان کا انسٹی ٹیوٹ فارایجوکیشنل ڈویلپمنٹ کراچی کے تلاطم خیز علاقے کریم آباد میں واقع تھا۔ روزانہ انسٹیٹیوٹ جاتے ہوئے مُکا چوک اور پھر نائن زیرو کے قریب سے گزرنا پڑتا۔ کراچی میں میرے تین سالہ قیام کے دوران یہ منظر میں نے بارہا دیکھے کہ کیسے ہڑتال سے ایک روز پہلے ہی فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا اور خوف و دہشت کی ایسی فضا قائم کردی جاتی کہ سڑکیں ویران ہوجاتیں‘ اورجگہ جگہ گاڑیوں کے ٹائر جل رہے ہوتے۔
آئی ای ڈی دراصل ٹیچر ایجوکیشن کا انسٹی ٹیوٹ تھا جہاں اس زمانے میں ایم ایڈ اور مختصر دورانیے کے کورسز کرائے جاتے تھے۔ اس وسیع احاطے میں انسٹی ٹیوٹ کے علاوہ آغا خان کا ایک کالج اور دو سکول بھی تھے۔ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کا عہدہ ڈاکٹر کاظم بیکس کے پاس تھا۔ ایم ایڈ کے پروگرام میں پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک سے بھی طالبِ علم آئے تھے۔ یہ پروگرام پاکستان میں تربیت اساتذہ کے پروگراموں سے یکسر مختلف تھا‘ جس میں Reflection اور Creativity پرزور دیا جاتا اور ہر کورس کا محور Educational Change ہوتا۔ ایم ایڈ کے پروگرام کا پہلا ماڈیول Reconceptualizationہوتا ہے۔ اس ماڈیول کو ڈاکٹر میمن اور میں مل کر پڑھاتے تھے‘ جس کا بنیادی مقصد کورس کے شرکاء کے تعلیمی نظریات کو پرکھنا ہوتا‘ اور انہیں یہ موقع دیا جاتا کہ وہ اپنے تعلیمی عقائد کو Unfreez کرکے دوبارہ تشکیل دیں۔ کچھ شرکاء کے لیے اپنے ان تعلیمی نظریات کو ترک کرنا مشکل ہوتا جن پر وہ ایک مدت سے یقین رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر میمن اور میں نے ہمیشہ اس ماڈیول کو محنت، محبت اور جذبے سے پڑھایا‘ یہی وجہ ہے کہ یہ ماڈیول طلباء میں سب سے مقبول تھا۔ ایم ایڈ کورس کے زیادہ تر طلباء کا تعلق مختلف شہروں اور ممالک سے تھا‘ اور ان کے لیے ہاسٹلز کا بندوبست کیا گیا تھا۔
آئی ای ڈی کا روحِ رواں کاظم بیکس تھا۔ وہ صحیح معنوں میں ایک Inspirational Leader تھا جس کے نزدیک ہماری Professional Development اس کا سب سے اہم مقصد تھا۔ آئی ای ڈی میں تین سالوں میں مجھے چھ بار غیرملکی سفر کے مواقع ملے جہاں میں نے کانفرنسز میں پیپرز پڑھے۔ آئی ای ڈی کے قیام کا ایک یادگار واقعہ‘ بلوچستان کے پرائمری سکولز کے اساتذہ کیلئے تربیتی پروگرام کے حوالے سے درخواست ہمیں موصول ہوئی تو عمومی طور پر اس کی حمایت نہیں کی گئی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہمارے سارے پروگرامز انگریزی زبان میں تھے جس میں ذریعۂ تعلیم کے علاوہ درسی مواد بھی انگریزی زبان میں تھا۔ سارے درسی مواد کو انگریزی میں منتقل کرنا اور اردو میں تدریس ایک بڑا چیلنج تھا لیکن ہم نے ایک نئے جوش اور جذبے سے اس چیلنج کو قبول کیا۔ اس پروگرام کے تحت بلوچستان کے اساتذہ کچھ ماہ کے لیے کراچی آتے‘ آئی ای ڈی میں تعلیم حاصل کرتے اور پھر بلوچستان میں اپنے اداروں میں ان تدریسی طریقوں کو عملی طور پر استعمال کرتے۔ اس پروجیکٹ کے سلسلے میں ہمیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جانے کا موقع ملا۔ یوں تو میرے اور ڈاکٹر میمن کے علاوہ اس پروجیکٹ میں بہت سے لوگ شامل تھے لیکن اس پروجیکٹ میں آئی ای ڈی کی ایک گریجویٹ رخشندہ مہر نے جس جذبے اور جنون کے ساتھ کام کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ وہ پروگرام جس کے بارے میں آئی ای ڈی کے حکام ہچکچاہٹ کا شکار تھے‘ پروجیکٹ ٹیم کی ان تھک کارکردگی کے باعث بلوچستان کے اساتذہ کے لیے اس پروگرام کو آئی ای ڈی کا ماڈل پروگرام قرار دیا گیا۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ آئی ای ڈی میں تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیوں کا عروج تھا۔ سینئر فیکلٹی ممبرز میں ڈاکٹر میمن اور میرے علاوہ ڈاکٹر عفت فرح، ڈاکٹر مہرالنساء، ڈاکٹر یاٹا کانو کا شمار ہوتا تھا۔ یوں لگتا تھا یہ ایک فیملی ہے جس کا سربراہ ایک ذہین، متحرک اور مہربان شخص ڈاکٹر کاظم بیکس ہے۔ یہ میری پیشہ ورانہ زندگی کا سنہری دور تھا۔ اب آئی ای ڈی کو چھوڑے 25 سال گزر چکے‘ اس دوران بہت کچھ بدل گیا۔ آئی ای ڈی میں نئے لوگ آگئے‘ اب میں وہاں جاؤں بھی تو شاید سب مجھے اجنبی سمجھیں۔ انہیں کیا پتہ کہ کبھی میں بھی اس دیار کا مکین تھا۔ سچ ہے زندگی بھی اتفاقات کا کھیل ہے اور کبھی کبھار اس کے ٹیڑھے میڑھے راستو ں سے گزرتے ہوئے ہم ایسے منظروں میں جا پہنچتے ہیں جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved