تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     16-12-2020

انڈین آرمی چیف کی خلیج یاترا

انڈین آرمی چیف جنرل منوج نروانے آج کل عرب امارات اور سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ چونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا دورہ ہے لہٰذا اس کی خاص اہمیت ہے‘ انڈین میڈیا اسے تاریخی پیش رفت قرار دے رہا ہے۔ پاکستان میں انڈین آرمی چیف کے اس وزٹ کو غور سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ ماضی کے عشروں میں خلیجی ممالک کی افواج کی تربیت میں پاکستان کا کلیدی رول رہا ہے۔
انڈین آرمی چیف کے دورۂ خلیج کے تناظر کو سمجھنے کے لیے ہمیں خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی سٹریٹیجک صورت حال کو دیکھنا ہو گا۔ 2015ء میں دو عرب ممالک نے اپنی افواج یمن میں اتار دیں۔ پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اپنی افواج بھیجے، مگر پاکستانی پارلیمان نے اس امر کی اجازت نہیں دی جو ایک صحیح فیصلہ تھا۔ ہمیں دوستوں کی جنگوں میں فریق نہیں بننا چاہیے۔ جو لوگ یمن کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ یمن جزیرہ نما عرب کا افغانستان ہے۔ یمن کی جنگ میں ایک فریق ایران ہے جو حوثی باغیوں کی حمایت کر رہا ہے اور حوثی سعودی عرب کے سرحدی علاقوں پر ڈرون اور میزائل حملے کرتے رہتے ہیں۔ لیکن پچھلے سال جو میزائل حملہ سعودی کے مشرقی حصے میں ابقیق کے شہر میں آرامکو کی آئل ریفائنری پر ہوا اس نے سب کو پریشان کر دیا تھا۔ چند روز تک سعودی آئل برآمدات بری طرح متاثر رہیں۔ تیل سے مالا مال یہ علاقہ ایران سے زیادہ دور نہیں اور یمن سے بہت دور۔ میزائل کہاں سے آئے، اس پر لمبی بحث ہوتی رہی لیکن یہ نتیجہ یقینا نکلا کہ خلیجی ممالک میں عدم تحفظ کا احساس نقطۂ عروج پر پہنچ گیا۔ ان کی حلیف اکلوتی سپر پاور بھی ان حملوں کا سدباب نہ کر سکی۔
اب عربوں کو مزید حلیفوں کی تلاش تھی۔ وہ ایرانی خطرے سے تحفظ کے لیے بہت دور جانے کے لیے تیار تھے۔ خطے میں ایران کا سب سے بڑا دشمن اسرائیل ہے لہٰذا چند خلیجی ممالک کے دلوں میں اسرائیل کے لیے نرم گوشہ نظر آنے لگا۔ ادھر صدر ٹرمپ نے عربوں کے اس رجحان کو الیکشن کارڈ کے طور پر استعمال کیا کیونکہ امریکہ میں اسرائیلی لابی بہت پاور فل ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ چین اور ایران کے مابین تعاون کا طویل مدتی معاہدہ ہوا۔ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے انڈیا نے ایرانی تیل امپورٹ کرنا بند کر دیا۔ ادھر ایرانی حکومت نے چا بہار تا افغانستان براستہ زاہدان ریلوے لائن کے لیے انڈین ٹھیکہ منسوخ کر دیا۔ انڈیا کی نظریں اب تیل اور دوسرے شعبوں میں تعاون کے لیے خلیجی عرب ممالک پر تھیں۔ بحرین، عرب امارات اور سعودی عرب میں انڈین وزیراعظم کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈز دیئے گئے۔ اس سے پہلے دو بڑے عرب ممالک مہاراشٹر میں آئل ریفائنری میں بڑی سرمایہ کاری کر چکے تھے۔ اس دوستانہ ماحول میں انڈیا کی للچائی ہوئی نظریں دفاعی شعبے پر تھیں جہاں عربوں کے ایران کی طرف سے محسوس کردہ خطرے کو کیش کرایا جا سکتا تھا۔ ساتھ ہی انڈین میڈیا میں خوب پروپیگنڈا کیا گیا کہ پاکستان، ترکی، ایران اور ملائیشیا علیحدہ بلاک بنا کر اسلامی دنیا کے لیڈر بننا چاہتے ہیں۔ جب خلیجی ممالک میں انڈیا سے تعاون کی راہیں ہموار ہو رہی تھیں تب بی جے پی حکومت آر ایس ایس کے غنڈوں کی مدد سے مسلمانوں سے انتہائی ذلت آمیز سلوک کر رہی تھی۔ رہی سہی کسر اگست 2019ء میں کشمیر پر غاصبانہ قبضے کو مزید مضبوط بنا کر نکال دی گئی۔ عرب دنیا نے مکمل خاموشی اختیار کی۔
انڈیا کے بارے میں مؤقف کے حوالے سے مجھے عرب حکام اور عرب دانش وروں کی آراء میں واضح فرق نظر آیا ہے۔ حال ہی میں سینئر سعودی صحافی خالد اللمعینا کا ایک انٹرویو دیکھنے کا موقع ملا، یہ انٹرویو اس سال مئی میں ایک انڈین چینل کو دیا گیا تھا۔ خالد المعینا پاکستان اور انڈیا کو خوب جانتے ہیں۔ اردو روانی سے بولتے ہیں۔ اس انٹرویو میں خالد صاحب نے کہا کہ ہم جس انڈیا کا احترام کرتے تھے وہ گاندھی اور نہرو کا انڈیا تھا۔ مودی کا انڈیا ایک فاشسٹ ملک بن چکا ہے، جہاں اقلیتوں کا رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ انہوں نے ایک دلچسپ ٹویٹ کا ذکر بھی کیا، جس میں کسی انتہا پسند انڈین نے لکھا تھا کہ انڈیا اور اسرائیل مل کر عرب ممالک کو فتح کریں گے۔ مودی حکومت کی مسلم دشمن پالیسی، کشمیر پر شب خون اور انڈین انتہا پسندوں کے عرب دنیا کے بارے میں عزائم کو دیکھ کر پڑھے لکھے اور با خبر عرب انڈیا سے تیزی سے متنفر ہو رہے ہیں؛ البتہ عرب حکمرانوں کی بات اور ہے‘ ان کی مجبوریاں مختلف ہیں، وہ انڈیا کے بارے میں اپنی پالیسی کی تشکیل صرف مادی مفاد، تجارت، سرمایہ کاری اور ایرانی خطرے کی بنا پر کر رہے ہیں۔
پندرہ سال پہلے کی بات ہے میں سلطنت عمان میں سفیر تھا۔ ہمسایہ ملک عرب امارات آنا جانا رہتا تھا۔ عمان اور انڈیا کے تعلقات ہمیشہ دوستانہ رہے ہیں۔ کئی انڈین تاجر خاندان عمانی نیشنل بن چکے ہیں۔ انڈین تارکین وطن عرب امارات کی آبادی کا ایک تہائی ہیں۔ انڈیا کے امیر ترین اشخاص تجارت کی غرض سے دلی میں موجود ہیں۔ وہ اماراتی تاجروں اور اہم شخصیات کو انڈیا میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرتے رہتے ہیں۔ انڈیا‘ امریکہ سٹریٹیجک دوستی کا آغاز 2006ء میں ہوا تھا۔ عمان میں رہتے ہوئے مجھے اس بات کا یقین ہوا کہ امریکہ جب خلیج سے اپنی فوج نکالے گا تو انڈیا کو اس خطے کا پولیس مین بنا کر آئے گا‘ لیکن ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ بالفرض مستقبل میں خلیج میں انڈین اور اسرائیلی عسکری اڈے بنتے ہیں تو کیا وہاں کے عوام اس صورتحال کو قبول کر لیں گے۔ یاد رہے کہ نائن الیون سے بھی پہلے القاعدہ کا مطالبہ تھا کہ امریکی افواج عرب سے نکالی جائیں۔ غیر مسلموں کو مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ کی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں، اس لیے انڈین فوجی پاکستانی جوان کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔
ہم سب جانتے ہیں‘ پاکستان میں تین مارشل لا لگے۔ عربوں کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ میرا مشاہدہ ہے کہ وہ پاکستان کے غیر جمہوری حکمرانوں کیساتھ زیادہ کمفرٹیبل رہے کہ آمریت میں طاقت کا سنٹر ایک ہوتا ہے لیکن وہاں یہ تاثر بھی موجود تھا کہ پاکستان انڈیا کے مقابلے میں غیر مستحکم ملک ہے۔ ایوب خان کے خلاف تحریک 1977ء کی پی این اے موومنٹ اور 2000ء میں نواز شریف کی جلا وطنی نے اس تاثر کو تقویت دی اور پھر ہمارے حکمران خلیجی ممالک کیساتھ تعلقات کو اپنے ذاتی مفادات کے محدّب عد سے سے دیکھتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جنرل مشرف ایک عرب فرمانروا سے ایک ملین ڈالر کیوں لیتے۔ نواز شریف سالہا سال سرور پیلس میں نہ رہتے۔ زرداری دوران صدارت تواتر سے دبئی نہ جاتے۔ تو پھر چہ عجب کہ عرب حکمران انڈین لیڈروں کی زیادہ عزت کرتے ہیں۔
انڈیا کا ایک ہدف یہ ہے کہ پاکستان کی خلیجی ممالک میں اہمیت کو کم کیا جائے۔ عرب امارات کیساتھ 2018ء میں سعودی عرب کیساتھ اس سال کے آغاز میں انڈین بحریہ نے مشترکہ مشقیں کی تھیں یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ عرب دنیا میں پاکستان کا لیبیا، اردن، شام، عرب امارات، سعودی عرب، بحرین، قطر اور عمان سے عسکری تعاون رہا ہے۔ کیا انڈیا عسکری تعاون کے میدان میں پاکستان کا نعم البدل ہو سکتا ہے اس بات پر خلیجی ممالک کو غور کرنا چاہیے۔ پاک فوج کا جوان اسلام کی محبت سے سرشار ہے اور دہشتگردی کیخلاف کامیاب جنگ لڑ کر صلاحیت میں بہت آگے ہے۔
انڈین آرمی چیف کے دورے کا دوسرا بڑا ہدف خلیجی ممالک کو اسلحہ بیچنا ہے۔ اس سلسلہ میں براہموس کروز میزائل سسٹم بہت اہم ہے، انڈیا نے یہ خاصا مہنگا کروز میزائل سسٹم روس کے اشتراک سے بنایا ہے اور یہ زمین سے زمینی ہدف کو نشانہ بناتا ہے۔ اس کی رینج آٹھ سو کلو میٹر ہے اور خلیج کا عرض سوا تین سو کلو میٹر ہے۔ انڈیا زمین سے آسمان میں چالیس کلو میٹر مار کرنے والے آکاش میزائل بھی بیچنا چاہتا ہے۔ ہمیں خلیجی ممالک سے تعاون بڑھانے کیلئے واضح حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved