اتوار کی شام جب میں پی ڈی ایم کے جلسے میں گیا تو مینار پاکستان کے اردگرد ٹریفک معمول سے کچھ زیادہ تھی۔ گریٹر اقبال پارک کے گرد لگے طویل آہنی جنگلے کے ساتھ بسوں کی اتنی ہی طویل قطار تھی۔ان میں سے کچھ پر اس شہر یا قصبے کا نام بھی لکھا تھا جہاں سے وہ آئی تھیں۔ درجنوں ویگنیں ایسی تھیں جن پر لگے پرچے بتا رہے تھے کہ یہ کس شہر کے کس مدرسے کے طلبہ کو لے کر آئی ہیں۔ اسی طرح کچھ گاڑیوں پر مسلم لیگ (ن) کے جھنڈے لگے تھے اور ان گاڑیوں کے ڈرائیور کرائے کی طے شدہ رقم ‘ سواریوں کی تعداد اور ان کے شہر کے بارے میں پوچھنے والوں کو بتانے سے ہچکچاتے بھی نہیں تھے۔ان بسوں ویگنوں کے قریب سے گزرکرمیں لاہور کے سب سے بڑے اس باغ کے گیٹ نمبر چار سے اندر داخل ہوا تو محسوس ہوا کہ دروازے پر جو دھکم پیل ہے اندر ایسا ماحول نہیں۔سٹیج گیٹ نمبر چار سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ جیسے جیسے سٹیج کی طرف بڑھا کھوئے سے کھوا چھلنے لگا۔ یہ سب سیاسی کارکن تھے جو لیڈروں کی جھلک دیکھنا بھی چاہتے تھے اور اپنی جھلک دکھانا بھی چاہتے تھے ۔مغرب کی اذان ہوئی تومیں پنڈال کے اس حصے تک پہنچ گیا جو سٹیج کے بالکل قریب تھا۔ یہاں کچھ دیر کھڑا ہونے کے بعد پنڈال کے آخری حصے تک جانے کیلئے چل پڑا۔ جیسے ہی سٹیج سے دور ہٹا‘ ہجوم چھدرا ہونے لگا۔ پنڈال میں لوگ دو دو چار چار کی ٹولیوں میں بیٹھے یا کھڑے تھے۔ تھوڑا سا اور آگے‘ گراؤنڈ تقریباً خالی پڑا تھا۔ البتہ سامنے آزادی چوک فلائی اوور پر لوگ کھڑے تھے۔ مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے چھوٹے ہوں یا بڑے اس فلائی اوور پر لوگ کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ اونچائی سے جلسہ واضح دکھائی بھی دیتا ہے اور آنے جانے میں سہولت بھی رہتی ہے۔میں پنڈال میں لوگوں سے مل کر پوچھ رہا تھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور سٹیج سے اعلان ہورہے تھے کہ فلاں آمدو فلاں آمد۔ کچھ دیریہاں گزار کر باہر نکلا تو ٹریفک معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ میرا تاثر یہ تھا کہ عام حالات میں اسے مناسب سا جلسہ کہا جاسکتا ہے لیکن پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کیلئے یہ جلسہ بالکل بھی کافی نہیں۔
سیاسی جماعتوں کے جلسے کامیاب اور ناکام ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک ایسے موقع پر جب 'عوام‘ کے زور پر حکومت کی ناک رگڑنی ہو تو پھر جلسے میں توقع سے کم حاضری بھی ناکامی ہی شمار ہوتی ہے۔ اس جلسے کیلئے جو ماحول بنایا گیا تھا‘ جس طرح مریم نواز اورخواجہ سعد رفیق گلی گلی اس میں شرکت کا بلاوا دے رہے تھے‘ اس سے لگ رہا تھا کہ مینارِ پاکستان پر عمران خان کے جلسے کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا ۔ لاہور اُمڈپڑے گا‘ حکومت دہل جائے گی اور یہی جلسہ حکومت کے خاتمے کا دیباچہ بن جائے گا۔ایسا کچھ نہیں ہوا۔ معاملہ دعوے سے آگے نہیں بڑھ سکا۔قبل از جلسہ یہ دعویٰ کہ تاریخی جلسہ ہوگا ‘ بعد ازجلسہ یہ دعویٰ کہ جلسہ تاریخی تھا اور بس۔لوگوں کی حاضری کے بارے میں تو اس جلسے نے کیا تاریخی ہونا ہے ‘ البتہ اس لحاظ سے یہ تاریخی ہو سکتا ہے کہ اگرپی ڈی ایم کی تحریک حکومت کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوگئی تو اس کے بعد کوئی بھی اس طرح کا جلسہ کرکے تاریخ دہرائے گا اور پاکستان میں بننے والی حکومتوں کو گھر بھیج دیا کرے گا!
لاہور کے جلسے کو چھوڑ بھی دیں اور یہ فرض کرلیں کہ جلسہ کسی تحریک یا کسی نظریے کی مقبولیت کی دلیل ہوسکتا ہے تو اب تک پی ڈی ایم ایسا ایک بھی جلسہ نہیں کرپائی۔مولانا فضل الرحمن 2018 ء کے الیکشن کے بعد سے ایک دن بھی موجودہ اسمبلیوں کی افادیت کے قائل نہیں تھے۔اپنے خیالات کے لیے عوامی تائید حاصل کرنے کیلئے انہوں نے اپنے سات جلسوں کے سلسلے کو ملین مارچ کا نام دیااور یہ جلسے ویسے ہی رہے جیسے کسی بھی مذہبی جماعت کے ہوسکتے ہیں‘ یعنی کارکنوں کی شمولیت سو فیصد مگر سیاسی اثر نہ ہونے کے برابر۔ ان جلسوں کے بعد آپ دھرنے کیلئے اسلام آباد تشریف لائے۔ اس دھرنے کا حجم اور وقت دونوں ایسے نہ تھے کہ مؤثر ہوتے‘ سو نامعلوم افراد کے وعدۂ فردا پر یہ سب کچھ ختم کرنا پڑا ‘ ہاں یہ ضرور ہوا کہ نواز شریف کے جیل سے نکل کر لندن جانے کی راہ میں کھڑی کچھ رکاوٹیں دور ہوگئیں۔ مولانا کی مستقل مزاجی کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ انہوں نے شکست نہیں مانی ‘ ڈٹے رہے‘ آخرکار پیپلزپارٹی اور( ن) لیگ کو بھی اپنے ڈھب پر لے آئے۔ اس کے علاوہ حکومت میں آکر تحریک انصاف کی تاریخی نالائقی نے بھی ایسے حالات پیدا کردیے کہ اس کے دشمن تو دشمن دوست بھی کانوں کو ہاتھ لگانے لگے۔اس ماحول میں حکومت کے خلاف رائے عامہ کو مزید ہموار کرنا اپوزیشن کا حق ہے ‘ لیکن معاملہ خراب وہاں سے ہوا جب نواز شریف نے سیدھے سبھاؤ حکومت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عسکری عہدیداروں کو بھی نام لے لے کر للکارنا شروع کردیا۔ سول ملٹری تعلقات کا وہ پہلو جسے عام طور پر دارالحکومت کے دفتروں میں روزمرّہ کی بنیادپر طے کیا جاتا ہے‘ اسے موضوع بنا کر سڑکوں پر لایا گیا توپی ڈی ایم کے جلسوں کا تعلق ملکی سلامتی سے جڑ گیا۔ حکومت کے خلاف بے شک عوام کی رائے بن رہی تھی لیکن فوج کے خلاف بیانات نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ جب لیڈر کی آدھی بات لوگ مان جائیں اور آدھی پر سوچنے لگیں تو پھر وہ جلسو ں میں آنے کا فیصلہ بھی سوچ سمجھ کر ہی کرتے ہیں۔یہی عمران خان کے ساتھ 2014 ء کے دھرنے میں ہوا اور اب یہی کراچی‘ پشاور‘ ملتان اور لاہور میں پی ڈی ایم کے ساتھ ہوا۔ حکومت نالائق ہے‘ سب مانتے ہیں۔ فوج کو وہ کہا جائے جو نواز شریف کہہ رہے ہیں‘ یہ منوانا مشکل ہے۔
لاہور کے جلسے کے بعد مولانا فضل الرحمن حکومت کو 31 جنوری تک کی مہلت دے رہے ہیں۔ مولانا کے اعلان کے مطابق یہ مدت گزر جانے کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا جس کے بعد حکومت گر جائے گی۔ مولانا‘ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) عمران خان کے دھرنے کے دوران قوم کوسمجھایا کرتے تھے کہ جتھوں کے ذریعے اگر حکومت گر گئی تو پھر کوئی دوسری حکومت پاکستان میں ٹک نہیں پائے گی اور ہم شام یا لیبیا جیسی صورتحال کا شکار ہوجائیں گے۔ ان کے فرمودات اسمبلی کے ریکارڈ کے ساتھ ساتھ ہر ٹی وی چینل میں پڑے کمپیوٹرز کی یادداشت میں بھی محفوظ ہیں۔پی ڈی ایم نے اپنے دھرنے کو عمران خان کے دھرنے سے یہ کہہ کر الگ کیا ہے کہ ''ان کا دھرنا حکومت کے خلاف تھا‘ ہمارا دھرنا اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کے خلاف ہے‘‘۔ پاکستان کے بائیس کروڑ لوگ یہ بات سہولت سے مان جاتے اگر کوئی انہیں یہ بتا دیتا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مولانا فضل الرحمن کو خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ مل جانے کے بعد 2002 ء کا دھاندلی زدہ الیکشن اور مارشل لاء کس منطق سے جائز ہوئے؟ کوئی یہ سمجھا دیتا کہ نواز شریف نے 2009 ء میں منتخب صدر اور وزیراعظم کی بات رد کردی لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ایک فون کال پر اپنا لانگ مارچ گوجرانوالہ میں روک دیا تو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کا سوال کیوں نہیں اٹھا؟ یہ نکتہ کوئی کھول کر بیان کردیتا کہ آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر بلوچستان کی حکومت گرانے اور صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنواکر بھی کیسے جمہوری ٹھہرے؟ ہمارے رہبر کوئی تاویل پیش کرتے کہ نومبر 2019 ء میں ہونے والی ایک مخصوص قانون سازی کیلئے یہ ساری جماعتیں کس کی خوشنودی کیلئے اکٹھی ہوگئیں تھیں؟ یہ 1990 ء کی دہائی ہوتی اورپی ڈی ایم کے رہنماان حرکتوں کی جمہوری تفسیر کردیتے تو یقینا لوگ بخوشی جلسوں ‘ جلوسوں اور لانگ مارچوں کی رونق بن جاتے۔لیکن چھوٹا سا مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ اب عوام کو دستوری نظام کی اہمیت اور اس کے چلتے رہنے کی افادیت کا بھی اندازہ ہوچکا ہے۔ نظام کو تباہ کرنے کا موقع نہ عمران خان کو عوام نے دیا تھا نہ آپ کو ملے گا۔ لاہور کے جلسے کا یہی پیغام ہے کہ سب لوگ 2023 ء کے الیکشن تک صبر کریں اور اپنے بچوں کو بھی صبر کی تلقین کریں۔